والدین پر بچّوں کے حقوق۔۔تربیت پر خاص توجّہ کی ضرورت!

عفّان احمد کامل
ڈائریکٹر المنار ایجوکیئر، ارریہ، بہار
تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہ ہو تو پھر یہی تعلیم فتنہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔، پھر اولادیں بھی مال و دولت کی طرح فتنہ کا سبب بن جاتی ہیں۔ قدریں پامال ہو جاتی ہیں ، انسانیت شرمسار ہوتی ہے، قلب ایمان و یقین سے خالی ہو جاتا ہے، عمل ،علم سے بے تعلّق ہو جاتا ہے، محبّت اپنے خالق و رازق کے بجائےمادّی چیزوں سے ہوجاتی ہے۔ انسان کی پہچان اسکے اخلاق کے بجائے مال ودولت اور جاہ و حشمت سے کی جانے لگتی ہے۔ گھر، والدین، رشتےدار، پڑوسی، غرباء و مساکین اور سماج کے حقوق بوجھ لگنے لگتے ہیں۔ الّلہ ہم سب کو اپنی اولادوں کی تربیت کے پہلو سے فکرمند رکھے اور اسکی تربیت کو ہم ہمیشہ اولاد کا حق اور اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے بحسنِ خوبی ادا کرنے کی عملی کو شش کرتے رہیں۔ خود کے کردار کو بھی ایک بہتر انسان، بہتر مسلمان ،بہتر باپ اور بہتر ماں کی شکل میں اپنے بچّے کے سامنے پیش کریں تا کہ بچّے ہماری نقل ہماری تحریروں و تقریروں کے بجائے ہمارے عمل کو دیکھ کر کریں۔
یقین جانیے بچّے آپ کو اپنا “ہیرو” مانتے ہیں، ہر بچّے کی نظر میں اسکے ابّا اور اسکی امّی سب سے اچھّے ہیں، اسکا یہ یقین کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔ اپنے بچّے کو ایک بہتر سے بہتر انسان بنانے کے لئے خود کو ایک بہتر سانچے میں ڈھال کر پیش کریں انشاءاللہ اولاد کبھی آپ کو مایوس نہ کریگی۔ اولادیں اصل میں الّلہ کی امانت ہیں، الّلہ کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ یقین رکھیئے یہی اولادیں ہمارے لئے روزِمحشر جنّت میں داخلے کا سبب بنینگی انشاءاللہ۔
اولاد کی تربیت کے پہلو سے چند چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجّہ دلا رہاہوں، کوشش کریں کہ بچّے ان باتوں پر عمل کریں اور الّلہ ہم سب کو بھی توفیق عطاکرے۔
1۔ بسمِ الّلہ کہ کر ہر کام کی شروعات کرنا۔
2۔ نماز وقت پر ادا کرنا اور اگر جماعت کے ساتھ ہو تو بہت بہتر ہے۔
3۔ زبان پر ہمیشہ شکریہ کلمات ہوں، با ت بات پر فلاں فلاں چیزوں کے نہ ہونے کا رونا رونے کے بجائے موجود نعمتون(چیزوں) کا شکر ادا کرتے رہنا۔ الّلہ کا شکر، والدین کا شکر، جس کسی سے بھی تھوڑی سی مدد ملے اسکا شکریہ ادا کرنا۔ الحمدللّلہ، جزاک الّلہ ، تھینکس کے جملے زبان پر ہمیشہ رھنے چاہئے۔
4۔ ڈر صرف الّلہ کا پیدا کریں، کوئ دیکھے نہ دیکھے الّلہ دیکھ رہا ہے، اکیلے میں بھی وہ نیک و صالح رہیگا۔
5۔ سب سے زیادہ محبّت ہم سے ہمارا الّلہ کرتا ہے، ہی بات ذہن میں بیٹھی رہے، الّلہ ہم سب سے ہماری محبوب ماؤں سے بھی ہزار گنا زیادہ محبّت کرتا ہے، یہ بات بچّوں کے دل ودماغ میں بس جائے تاکہ وہ کبھی مایوس یا نا امّید نہ ہو، خود کو زندگی کے کسی مشکل سے مشکل لمحے میں بھی اکیلا محسوس نہ کرے کبھی حالات سے ٹوٹے نھیں۔
6۔ پانی بہت پڑی نعمت ہے اسکی قدر کرنا سکھا ئیں۔ پانی برباد نہ ہو، ضرورت سے زیادہ بلکل نہ لیں نہ بہائیں، وضو میں، برش کرتے وقت، واش روم میں، پینے میں بھی احتیاط برتیں۔ پیتے وقت ہمیشہ بیٹھ کر پیئں، تین سانسوں میں داہنے ھاتھ سے پیئں، جتنا پینا ہو اتنا ہی لیں ( ایک بڑی آبادی ہندستان میں بھی پانی کے لئے ترستی ہے اور بارش کے موسم میں پانی کو اسٹور جمع کر کے سال بھر پینے کے لئے استعال میں لاتی ہے، کہیں کہیں لوگ میلوں چل کر پانی لاتے ہیں، کہیں کہیں دن بھر میں کھنٹے دو کھنٹے کے لئے ہی پانی آتا ہے۔۔۔ہمارے یہاں بہت آسانی ہے، نعمت کی قدر کریں)۔
7۔ماں باپ کی خدمت۔ ان کے پیر دبانا، سر میں مالش کر دینا، ان کے کام خود سے آگے بڑھ کر کردینا، ان کا کہا ماننا، ان کو کبھی بھی جھرکنا نہیں، کھر کے کام میں امّی کا ہاتھ بٹادینا، کھانا دسترخوان پر یا ڈائننگ ٹیبل پر لگانے میں مدد کر دینا، کھانے کے بعد پلیٹ اٹھالینا، پلیٹ دھونے میں امّی کی مدد کردینا، جھاڑو لگانے میں شرمانا نہیں، ابّو امّی کے اپنے جوتے یا سینڈل میں پالش کر دینا، نہاتے وقت پانی چلا دینا یا تولیہ لا دینا۔۔۔یہ اور اسطرح کے چھوٹے چھاٹے کام بڑھ چڑھ کر کرنا۔
8۔ سلام کو عام کردینا۔ ہر کسی کو سلام کرنا، گھر میں جتنی بار داخل ھونا یا کھر سے جتنی بار نکلنا سلام کرنا، گھر میں کوئ ملنے آئں یا آپ کہیں جائیں سلام کریں،راستے میں کوئ ملے تو سلام کرنا، چھوٹے بڑے سب کو سلام کرنا، سلام میں پہل کرنا، ایک دوسرے کےلئے اس سے بہتر دعا نہیں۔ سلام کسی کا نام لےکر نہ کریں، بس السّلام علیکم یا السلام علیکم و رحمتہ الّلہ و برکاتہ کہیں۔
9۔ گھر میں مدد کرنے والا یا مدد کرنے والی(کوئ کام کرنے والا یا کام کرنے والی) ہو تو اسے بوا، خالہ، چچا، بھیّا، کہ کر پکاریں، اسے عزّت دیں، اسکی خیریت پوچھتے رہیں، اسکا پورا خیال رکھیں، الّلہ نے جسے بھی ہمارے ماتحت کیا ہے اسکے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کریں۔
10۔ گھر میں سارے بڑوں کا احترام کریں، انکا کہنا مانیں، انکی عزّت کریں، انکے کام خود سے کر دیں، دادا، دادی، نانا، نانی، چاچا، چاچی، ماما، مامی ، بھائ، بہن ۔۔۔۔سب کی قدر کریں، انکو وقت دیں، خاص کر ضعیفوں کے پاس وقت نکا ل کر بیٹھیں، انکی بات محبّت سے سنیں۔ چھوٹوں سے پیار کریں، انکے ساتھ کھیلیں، انکو اچھی اچھی کہانیاں سنائیں، انکو قریب کریں، رسولﷺ بچّوں سے بہت بہت پیار کرتے تھے۔
11۔ رشتے داروں کو پہچانیں، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب انکو یکساں عزّت دیں، سب کے ساتھ محبّت سے پیش آئیں، انکی مدد کو تیّار رہیں، رسول الّلہ رشتے داروں کی بڑی عزّت کیا کرتے تھے۔ جو رشتے الّلہ نے بنا دئے ہیں انکی قدر ہر حال میں ضروری ہے۔
12۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، انکا پورا خیال رکھنا، یاد رکھیں الّلہ نے پڑوسیوں کے اتنے حقوق دئے ہیں کہ ہمارے گھر کے پکوان (کھانے)میں بھی انکا حصہ رکھا ہے، انکی مدد کو تیّار رہنا، انکو تکلیف نہ دینا، انکے یہاں کچھ نہ کچھ بھیجتے رہنا، ان کی خبر خیریت لیتے رہنا۔ ہر طرح کے پڑوسیوں کا خیال رکھنا، غریب ونادار پڑوسیوں کا زیادہ خیال رکھنا، ان کے بچّوں کےسامنے اپنے قیمتی کھلونے یا کپڑوں کی نمائش سے بچنا، اپنے امیر ہونے کا احساس یا انکے غریب ہونے کا احساس ینہیں نہ ہونے دینا۔
13۔ غیبت سے بچیں۔ یہ بیماری تقریباََ ہر گھر میں عام ہی، ہم اپنی بات سے زیادہ دوسروں کی بات کرتے ہیں، والدین بچّو ںکے سامنے دوسروں کی یا اپنے کسی رشتے دار کی برائیاں کترے ہیں اس سے بچّوں میں نفرت پروان چڑھتی ہے۔ غیبت سے ہم بھی بچیں اور اپنی اولاد کو بھی روکیں۔، جب تک ہمیں
اس مہلک مرض(غیبت) سے کھن نہیں آئیگی ہم رک نہیں سکتے، الّلہ نے غیبت کے لئے قرآن میں فرمایا کہ یہ “اپنے سگے مرے ہوئے بھائ کا گوشت کھانے جیسا کام ہے”۔ الّلہ ہم سب کو بچائے۔آمین۔
14۔صفائ کا خاص خیال رکھیں۔دل کے ساتھ ساتھ کپڑے، گھر، دروازہ، آس پڑوس اسکی صفائ کا خاص خیال رکھیں، جب بھی کوڑا دکھے، کوئ بھی کندگی دکھے، پلاسٹک دکھے اسے فوراََ خود سے ڈسٹ بن میں ڈالیں ، ادھر اٗدھر نہ تھوکیں اور اگر کوئ تھوکے تو اسے اچھے طریقے سے روکیں، ناک بھی نل کے پاس صاف کریں، برش روشانہ صبح اور رات سونے سے پہلے ضرور کریں، ٹوائلٹ کے بعد ہاتھ صابن سے اچھی طرح سے ساف کریں۔
15۔ کھانا مہذّب طریقے سے کھائیں، دانے (رزق) کو عزّت دیں۔بسم الّلہ پڑھ کر کھانا شروع کریں، کھانے کو اپناانتظار نہ کروائیں ، کھانے کی برائ نہ کریں، ہر حلال چیز خوشی سے کھانے کی کوشش کریں اگر پسند نہ ہو تو خاموشی سے کچھ اور کھا لیں لیکن برائ نہ نکالیں، جتنا کھائیں اتنا ہی لیں، برباد بلکل نہ کریں(یاد رکھیں اب بھی ہندستان مین 25-30 کڑوڑ کی آبادی ایسی ہے جسے دو وقت کا کھانا روشانہ نہیں مل پاتا ہے اور الّلہ کا کرم ہے کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں)،کھانا بیٹھ کر سکون سے کھایئں، سامنے سے کھائیں، کھاتے وقت بنا ضرورت بات نہ کریں، منھ بند کر کے کھائیں تا کہ منھ سے آواز بھی نہ نکلے اور سامنے والے کو چبایا ہؤا کھانا بھی نہ دکھے، کھانے میں بات کرینگے تو سامنے والے کے پلیٹ میں آپکے منھ کے کھانے کا چھینٹا (کھانے کا ٹکڑا) انکی پلیٹ میں یا انکے چہرے پر پڑسکتا ہے۔ کھانے کے بعد الّلہ کا شکر ادا کرنا نہ بھولیں، اگر کسی کے یہاں دعوت پر ہوں تو انکا بھی شکریہ ادا کریں اور انکے حق میں دعا بھی کریں۔
16۔ چلنے کا طریقہ پُروقار رکھیں۔ اکڑ کر نہ چلیں، چال میں اعتدال رکھیں، پیر گھسیٹ کر نہ چلیں، راستے کے بھی حقوق ہیں وہ ادا کرتے چلیں(کوئ نقصاندہ چیز دکھے تو اسے راستے سے دور کر دیں جیسے پتھر، کانٹا، کیلے کا چھلکا وغیرہ، کوئ بوڑھا، بوڑھی یا بیمار وزنی سامان کے ساتھ دکھے تو اسکی مدد کر دیں، کوئ راستہ بھٹک گیا ہو تو اسے راستہ تلاشنے میں اسکی مدد کر دیں، کوئ ملے تو سلام کریں۔۔وغیرہ)۔ راستے میں کھیلیں کودیں نہیں، ایک طرف سے چلیں، دوسری گاڑیوں کا خیال رکھیں۔
17۔ قرآن آپکی کتاب ہے ہم اپنی کتاب روزانہ ضرور پڑھیں۔ تھوڑا ہی سہی، دس منٹ ہی سہی لیکن الّلہ نے جو کتاب ہم انسانوں کے لئے بھیجی ہے اسے ضرور پڑھیں۔
18۔ جھوٹ سے ہر حال میں بچیں۔ بات چھوٹی ہو یا بڑی ، ہنسی مزاق میں بھی جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں، آپﷺ نے فرمایا مسلمان سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ ایک صحابی نے آپﷺ سے کہا (مفہوم ہے)اے الّلہ کے رسول مجھے صرف ایک عمل بتائیں جو مجھے کرنا ہے، آپﷺ نے کہا جھوٹ مت بولو۔
19۔ محبّت عام کریں نفرت سے دور رہیں۔ ہر کسی سے محبت کریں، نفرت کو اپنے قریب نہ لائیں، نفرت،خسد و جلن، کینہ بغض، انتقام(بدلہ)، مقابلہ ان سب سے دور رہیں۔ یہ سب وحشیانہ خرابیاں ہیں جو انسان کا چین سکون، دنیا و آخرت سب غارت کر دیتے ہیں۔ ان کی جگہ محبت، آپسی بھائ چارہ، ہمدردی، شفقت، مدد، درگزر(معافی) جیسے صفات پیدا کریں۔
20۔ چھوٹے چھوٹے صدقے خوب کیا کریں۔ کسی کے چہرے پر خوشی لا دینا، اداس چہرے کو ہنسا دینا، کسی کو دیکھ کر سلام کرنا اور مسکرا دینا، کسی کو پانی پلا دینا، پودے لگا دینا، کسی پیاسے جانور کو پانی پلا دینا، چھت پر یا کسی اونچی جگہ پر پرندوں کے لئے دانہ پانی رکھ دینا، کسی کا سامان اٹھا دینا، کوئ رکشے والا یا ٹھیلا والا گھر پر آئے تو اسے پانی پلا دینا، اسے سلام کردینا، اسکی خیریت پوچھ لینا، اسکی کہانی سن لینا۔۔۔وغیرہ روز کرنے کے کام ہیں، یہ سکون بھی دینگے، ثواب بھی ملےگا اور آپکی آنے والی مصیبتیں بھی ٹلینگی انشاءاللہ۔
21۔ الّلہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت شروع سے بنائیں۔ دل مال کی محبت سے خالی اور الّلہ اور اسکی مخلوقات کی محبت سے بھر ا ہو۔
کسی غریب کی مدد کردینا، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی یتیم یا یسیر کو سہارا دیدینا، اپنے پاکٹ خرچ سے کسی کی مدد کرنا یا اسکی ضرورت پوری کردینا، کسی غریب بچّے کو کچھ کھانے کا یا کوئ سامان دلادینا، خود کچھ کھا رہے ہوں اور کوئ بچّہ پاس میں کھڑا ہو اسے بھی دینا، ۔ہر دن کوئ نہ کوئ صدقہ ضرور کرنا۔
یاد رکھیئے یہی وہ راستہ ہے جس سے آپ کو بےشمار دعائیں ملیں گی، ہم سب سے بہت سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ایسے میں یہی دعائیں ہم سب کی کامیابی کا سبب بنےگی انشاءالّلہ۔
ہم اپنے بچّوں کو دونو ں جہانوں میں کامیاب ، خوش وخرّم اور پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکی مدد کرنی ہوگی، اسکی تربیت کرنی ہوگی، یہ ہر بچّے کا ہم سب پر پیدائیشی حق ہے۔ جب ہم انکے حق صحیح طور پر ادا کرینگے تبھی ہم ان سے یہ توقّع کر سکتے ہیں کہ یہی بچّے والدین کے حقوق کو سمجھینگے اور ادا بھی کرینگے انشاءاللہ۔ الّلہ ہم سب کو اپنے اولاد کی صحیح نہج پہ تعلیم و تربیت کی سمجھ و توفیق عطا کرے۔ آمین