
کریٹیو آرٹ کے ماہر شفیع عطار کو فرصت بہت مشکل سے ملتی ہے
کلیبر ڈیزائن کے مالک کا کہنا ہے کہ جس کسی نے ایک بار میری خدمات حاصل کر لیں وہ دوبارہ کسی اور کے آرٹ سے مطمئن نہیں ہوتا۔
دانش ریاض برائے معیشت
کثیر مسلم اکثریتی علاقہ کوسہ ممبرا کے آئیڈیل مارکیٹ میں بغیر کسی سائن بورڈ اپنا کاروبار چلانے والے مشہور آرٹسٹ شفیع عطار تھانے و ممبئی میں بخوبی جانے پہچانے جاتے ہیں۔اسکول ،کالج،انسٹی ٹیوشن کے ساتھ این جی اوز کے ذمہ داران جہاں ان کی خدمات حاصل کرنافخرسمجھتے ہیںوہیں وہ کاروباری جنہیں اپنا کاروبار شروع کرنا ہو اور اپنی کمپنی،دکان یا کاروبار کے تشہیری مواد تیار کرنے ہوں وہ انہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔
سوامی وویکانند ودیا مندر سے کامرس میں گریجویشن کرنے والے عطار نے جے جے اسکول آف آرٹس ممبئی سے انٹرمیڈیٹ کیا ہے جبکہ ابتدائی تعلیم بھیونڈی کے چھوٹے سے گائوں واڑا میں اردو اور مراٹھی زبان میں حاصل کی ہے۔بچپن سے ہی آرٹ کے شوقین شفیع عطار کہتے ہیں’’بچپن میں میںکاپی اور پنسل لے کرمختلف ڈیزائن پر مشق کرتا رہتا تھا۔کسی بھی خاکے کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا میرابہترین مشغلہ تھا۔آرٹ میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے عملی میدان میں بھی اسی جانب آگے بڑھنے کو کہا حالانکہ میرا اٹھنا بیٹھنا خالص مراٹھی ہندوئوں کے مابین تھا۔ عمر بڑھنے کےساتھ ساتھ اسلامک آرٹ میں میری دلچسپی بڑھنے لگی اور میں اسلامی کیلی گرافی پر مشق کرنے لگا۔‘‘
شفیع اپنی دلچسپی سے وابستگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں’’۹۰فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا ممبئی سینٹرل سے قریب مہالکشمی وال کو لوگوں نے دیکھا ہوگا ۔ایک رات مجھے یہ کام دیا گیا کہ میں اس وال پر اپنا ہنر آزمائوں لہذا تیس فٹ چوڑے اور نوے فٹ لمبے وال پر میں رات بھر لکھتا رہا اور صبح ہوتے ہوتے پورے وال پر اپنی انگلیوں کا ایسا جادو چلایاکہ ہر گذرنے والا وال کے نقش کواپنے دل پر منقش کرنےلگا‘‘۔
اسلامی آرٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں’’جب میں بھیونڈی سے ممبرا منتقل ہوا تو مجھے اسلامی ماحول ملا اور اس ماحول میں کام کرنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔لہذا میں نے اسلامک آرٹ پر خصوصی توجہ دی اور ایسے سیکڑوں ڈیزائن تیار کئے جس نے میرے معاشی سفر کو جاری رکھنے میں بھر پور مدد دی‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے آرٹ کے ذریعہ ممبئی و تھانے میں شہرت رکھنے والے شفیع نے جب لوگوں کا دل جیت لیا تو انہوں نے اپنے ہنر کو دوسروں تک منتقل کرنے کی کوشش کی ۔لہذاجہاں انہوں نے طلبہ کو بلا بلا کر ٹرینڈ کرنا شروع کیا وہیں ان کے لئے ایسے مواقع بھی پیدا کرنے لگے جو ان کو زندگی کے سفر میں کامیابی سے ہمکنار کر سکے۔شفیع کہتے ہیں’’میں نے جن طلبہ کو ٹرینڈ کیا ہے الحمد للہ آج وہ اچھے مقام پر ہیں جنہیں دیکھ کر مجھے بھی خوشی ہوتی ہے‘‘۔آرٹ ڈائریکٹر یاسر یوسف خان،عربک کیلی گرفر رفیق انصاری،وقارانصاری،صالح شیخ وغیرہ کی مثال پیش کرتے ہوئے معیشت سے کہتے ہیں’’آج یہ طلبہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں کچھ نے اپنا علحدہ بزنس شروع کیا ہے تو کچھ لوگ مختلف کمپنیوں میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیںاور اچھی تنخواہ حاصل کر رہے ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر طلبہ دلجمعی کے ساتھ اس فیلڈ میں آئیں تو یہاں بھر پور مواقع ہیں بس شرط یہ ہے کہ ان کا ذہن اختراعی ہونا چاہئے ،نئی چیزیں پیدا کرنا اور اپنے کلائنٹ کے سامنے ہمیشہ نئی ڈیزائن بنانا ان کا بنیادی ہنر ہونا چاہئے اگراختراعی مزاج رکھنے والے طلبہ نے اس میدان میں قدم رکھ دیا تو یقین جانیں وہ تمام لوگوں میں بازی مار لیں گے‘‘۔
اپنی مشغولیات کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں’’میں اپنے کام کا آغاز صبح پانچ بجے کرتا ہوں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد میرا اختراعی ذہن کام کرنا شروع کردیتا ہےلہذا آفس صبح چھ بجے کھل جاتی ہے لیکن دوپہر کے تین بجتے بجتے میں بالکل نڈھال ہو جاتا ہوں ۔دوپہر کے بعد مجھے کام کرنے کی خواہش نہیں ہوتی ۔بس واجبی سا کام یا وہ کام جس میں ذہن کا استعمال بہت زیادہ نہ کرنا پڑے میں اس وقت کرتا ہوں لہذا جو لوگ کریٹیو کام کروانا چاہتے ہیں وہ اپنا کام دے کر میری ذات پر چھوڑ دیتے ہیں اور جب میں انہیں ان کا کام دکھاتا ہوں تو وہ پھر کسی اور کا رخ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ میرے پاس کام کی بہتات ہے لیکن وقت کی کمی ۔ لوگوں کو اکثر وقت کی وجہ سے ہی شکایت رہتی ہے لیکن کام کی شکایت کوئی نہیںکرتا الحمد للہ۔‘‘
فحش،غیر اسلامی،نازیباڈیزائن سے پرہیز کرنے والے شفیع کہتے ہیں’’فلموں کے اشتہارات،میوزک سے وابستہ ذڈیزائن یا فحش ڈیزائن وغیرہ سے میں پرہیز کرتا ہوںصرف حلال آرٹ کو پرموٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘معاملات میں کھرے رہنا اور دیانت داری کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کرنے والے شفیع کا کہنا ہے کہ ’’کاروبار میں معاملات کی وجہ سے ہی ناچاقی ہوتی ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اس معاملے میں بالکل صاف ستھرا رہوں لہذا عموماً میں ڈیل تحریری کرتا ہوں تاکہ کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو‘‘۔