
شعلہ نمرود ہے روشن زمانہ میں تو کیا

ڈاکٹر سید ظفر محمود
سترہویں صدی عیسوی میں ایران کے شہر مشہد میں مشہور دانشور میر رضی دانش ہوتے تھے وہ شاہجہاں کے زمانہ میں ہندوستان آئے تھے‘ان کا فارسی کا شعر ہے : شمع خود را می گدازد درمیان انجمن‘ نور ما چوں آتش سنگ از نظر پنہا خوش است۔پہلے مصرع کا مفہوم ہے کہ شمع اپنی مرضی سے خود اپنے کو اس لئے جلاتی رہتی ہے تا کہ وہ اوروںکو کارآمدروشنی مہیا کر سکے۔یہاں پیغام دیا گیا ہے کہ سماج میں بڑی تعداد میں لوگ بڑے خوش بخت ہوتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اپنے آرام و آسائش کی قدرے قربانی دے کر دیگر افراد کی زندگی بہتر بنانے میں لگے رہیں۔ اور ان اچھے لوگوں میں بھی کچھ کا خدمت خلق کا جذبہ تو بہت ہی اعلیٰ درجہ کا اور بالکل بے لوث ہوتا ہے ‘ وہ زمینی سطح پر دوسروں کے لئے کام کرنے کے ساتھ اچھائی کی طرف مائل لوگوں کے اندر سوز و گداز پیدا کرنے کا کام بھی کرتے ہیں ‘ یہی معنی ہیں میر رضی دانش کے دوسرے مصرع کے ‘ جیسے آج کل ہمارے کچن میں چولہا جلانے کے لئے گیس کے لائٹر میں ایک چھوٹا سا پتھر چھپا ہوتا ہے جس کا کام ہوتا ہے خوش آ یندشرر پیدا کرنا‘ اسی طرح یہ سماج کے اعلیٰ ترین افراد خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیںاور اچھے لوگوں کو مستقل کار خیر کرتے رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پروردگار کا پیغام نہ سمجھنے کی وجہ سے ان دونوں اقسام کے افراد کا فقدان ہے جس کی طرف ملت کی توجہ دلائے جانے کی ضرورت ہے ۔لہٰذا میردانشؔ کے اس شعر کے مصرع اول کی تضمین پر علامہ اقبال نے ہمیں مکمل نظم پیش کر دی جس کے آخری شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ’شعلہ نمرود ہے روشن زمانہ میں تو کیا‘ شمع خود را می گدازد درمیان انجمن‘۔ یعنی اگر نمرود کی طرح کے ظالم افراد اب بھی زمانہ میں موجود ہیں تو سماج کے اچھے لوگوں کو اسے اپنے لئے چیلنج کے طور پر قبول کرنا چاہئے اور آگے بڑھ کے بے خوف ہو کر اور اپنی ذاتی سہولتوں و مفادات کی قربانی دیتے ہوے سچ ضروربولنا چاہئے اور مظلوموں کوان کا حق دلوانے کے لئے تگ و دو کرتے رہنا چاہئے۔ اس پس منظر میں اقبالؔ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک دن کلیم طور یعنی حضرت موسیٰ ؑسے ایک سوال پوچھا ‘حضرت موسیٰ ؑ کے واقعات کی جھلکیں قرآن کریم کی سورہ الاعراف‘ الطور ‘ النازعات‘ النمل اور القصص میں ملتی ہیںاور سورہ التین میں تو اﷲنے طور پہاڑ اور وادی سینا کی قسم ہی کھائی ہے۔حضرت موسیٰ ؑ سے زیادہ طویل و متواتر کسی بھی شخصیت کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے‘ ان کا ذکر کرنے سے پہلے قرآن کریم میں اچھائی اور برائی کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ان کے زمانہ کے بادشاہ فرعون کی پالسی تھی عوام میں آپس میں تفرقہ پیدا کر کے انھیں آپس میں لڑوا دیناتا کہ وہ متحد ہو کر اس کی جابرانہ حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں۔مختلف گروہوں کا وقت اور ان کے وسائل اسی میں لگ جاتے تھے کہ وہ اپنے کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کریں۔علاوہ ازیںفرعون ان گروہوں میں سے ایک کو مخصوص طریقوں سے کمزور بنا کے رکھتا تھا‘ اس گروہ کے افراد کو پریشان کرنے کی کوئی انتہا نہیں تھی حتیٰ کہ ان کے مردوں کو قتل کروا دیتا تھا ۔
ملک مصر کا ایک حصہ ایشیا میں ہے جس کی جغرافیائی جائے وقوع ایک قدرتی کرشمہ ہے وہ ایسا جزیرہ نما (Peninsula)ہے جس کے شمال جنوب مشرق مغرب میں با لترتیب بحر روم‘ بحر احمر‘ خلیج عقبہ اور نہرسویزواقع ہیں‘ اسی جزیرہ پر طور پہاڑ اوروادی سینا ہیں‘ اوروادی سینا کے اندر ہی ایک اور ذیلی وادی ہے جسے وادی فاران کہا جاتا ہے اسی میں حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے قبیلوں کو ٹھہرایا تھا جہاں آگ جلانے کی کی کوئی سبیل نہیں تھی ‘ تب انھیں رات کے وقت قریب میں طور پہاڑ پر روشنی دکھائی دی تو وہ وہاں گئے آگ لانے کے لئے‘ لیکن وہ در اصل نور خدا وندی تھا وہاں اﷲ نے ان سے کلام کیا ‘ انھیں توریت دی جسے حضرت موسیٰ ؑ وادی سینا و وادی فاران لے کر گئے اور وہاں سے وہ پیغام دنیا میں پھیلا‘ انھی کے ذریعہ لا تخف کا بھی حکم دیاگیا کہ اﷲ کے علاوہ اور کسی سے ڈرنا شرک و کفر کے مترادف ہے۔حضرت موسیٰ نے احکام خدا وندی کی مکمل پاسداری کی اور اپنی ذات پر جبر کر کے سماج کے افراد کے حق میں سچ بات کہی اور انھیں ان کاجائز حق دلوانے کے لئے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا اﷲنے ان پر نوازشوں کی بارش کر دی اور جس طبقہ کو فرعون نے کمزور بنا کے رکھا تھا اسی کے ہاتھوں میں حکمرانی سونپ دی۔ تو اس نظم میں اقبال ؔ حضرت موسیٰ ؑسے کہتے ہیں کہ آپ کے طفیل میں وادی سینا چمن بن گئی یعنی دنیا میں اﷲکے پیغام کا بول بالا ہوا لیکن اس کے باوجود اب بھی دنیا میں آتش نمرود کے شعلے دہک رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ نمرود نے اﷲکے خلاف بغاوت کر دی تھی اور وہ اپنے کو خدا مانتا تھا ۔ لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے ہی خلاف بغاوت کا پرچم لہرا دیا۔ انھیں قید کرکے نمرود کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے اس کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیااور کہا کہ وہ صرف اﷲکے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ نمرود نے آگ کا بڑا سا الائو جلوایا اور غلیل نما مشین کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھکوا دیا ‘ اﷲنے آگ کو حکم دیا کہ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کی حفاظت کر۔ اس آگ کی جگہ ایک خوبصورت باغ وجود میں آگیا اور فرشتے حضرت ابراہیم کے لئے آرام و تعام کا انتظام کرنے لگے۔ بعد میں حضرت ابراہیم کی دعا قبول ہوی اور نمرود و اس کے پورے لشکر کی بہت عبرتناک موت ہوی۔
لہٰذا علامہ اقبال اپنی نظم میں پوچھ رہے ہیں کہ پیغام الٰہی کی اندیکھی‘ تعصب‘حق طلفی اور ظلم و ستم رواں دواں ہیں تواب جو اچھے لوگ ہیں ان کی آنکھ کا پانی کیوں مر گیا‘ وہ کس سے خوف زدہ ہیں‘ وہ آواز کیوں نہیں اٹھاتے ‘انھیں اپنی دولت سے اتنی محبت کیوں ہے وہ اپنے خداداد وسائل کا استعمال ضرورتمند لوگوں کے لئے کیوں نہیں کرتے ‘ وہ قل العفو کی خلاف ورزی کیوں کئے ہوے ہیں‘ ملت کا وہ دیرینہ درد دل کیوں اب نظر نہیں آتا ہے۔پھر حضرت موسیٰ ؑ کی طرف سے علامہ اقبال جواب دے رہے ہیں کہ اگر تم صحیح معنوں میں پروردگار کی سچی بندگی کرتے ہو تو تمھیں چاہئے کہ تم اس کے پیغام کو نہ بھول کر صرف دنیا داری میں ہی نہ پڑے رہو۔اگر تمھارا دعویٰ ہے کہ تمھیں اﷲکے حضور میں اپنے وجود کا احساس ہے تو پھر تمھیں حضرت ابراہیم ؑ والا ایمان اپنی روح کے اندر سرایت کرنا ہو گا اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اﷲ کے نزدیک تمھاری زندگی کا پیرہن خاکستر ہے یعنی تمھارے وجود کی اہمیت مٹی کے مجسمہ سے زیادہ نہیں ہے ۔اور جب تم اپنے اندر ایمان خلیل پیدا کر لو تو پھر تم اسی راستہ پر خاموشی سے گامزن رہو‘ اس کا اجر دونوں دنیائوں میں تمھیں ضرور ملے گا۔ دنیا کی شان و شوکت عارضی ہے ‘ روز مرہ خبریں آتی رہتی ہیں دنیا سے لوگوں کے اچانک چلے جانے کی ‘ تو ہمیں اپنی آخری پیشی کے لئے تیاری میں لگ جانا چاہئے۔ پھر آخر میں علامہ کہتے ہیں کہ اگر ہم شمع کی طرح اپنے کو اﷲکی خوشنودی کے لئے نچھاور کرتے رہیں تو پھر شعلہ نمرود روشن ہوا کرے‘ کاہے کی فکر ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ چنندہ لوگوں کو حق کی تلقین کرنے کا کام بھی کرتے رہنا ہو گا‘ اور دین میں کسی سے نفرت کرنے کی تو گنجائش ہی نہیں ہے‘ ہر حال میں محبت ہی بکھیرنی ہے۔آج کے ہندوستان کے منظر نامہ میں ہمیں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی اسی سنت پر چلنا ہوگا یہی سبق اقبالؔ نے اپنی اس نظم میں دیا ہے ۔ پھر ہمیں شعلہ نمرود کو ڈھنڈا کر کے اسے سبز باغ میں تبدیل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔