
ہندوستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے اچھے شہری ہونے کی تعلیم ضروری

فرینک اسلام
اب جب کہ ملک 15 اگست کو یوم آزادی کا جشن منا رہا ہے یہی مناسب وقت ہے کہ موجودہ اور پہلے کی جمہوریت کا بھی جشن منایا جائے۔اسی وقت ہمیں جمہوریت اور ہندوستان کے مستقبل کے خدوخال بھی غور کرنا چاہیے۔ہندوستان کے پاس پوری دنیا میں جمہوریت کا علم لہرانے کی نہ صرف قوت ہے بلکہ اس کے پاس اس کا موقع اور ذمہ داری بھی ہے۔ اور ہندوستان کو عالمی سطح پر جمہوریت کا علمبردار ہونے کے طور پر کھڑا ہونا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔
فریڈیم ہاؤس نامی تنظیم جو پوری دنیا کے مختلف ممالک میں آزادی اور اس کی سطح پر تحقیق کرتی ہے ،نے اپنی سال 2018 کی تحقیق کا عنوان “بحران میں جمہوریت ” رکھا ہے۔ اس رپورٹ کی شروعات کچھ یوں ہوتی ہے۔ “پوری دنیا میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی2017 میں اس دہائی کے اپنے انتہائی پست مقام تک پہنچ گئی ہے، ایک ایسا دور جو تیزی سے فروغ پارہے آمروں، محصور جمہوریتوں اور امریکہ کا انسانی آزادی کے لیے عالمی جدوجہد سے کنارہ کشی کے جانا جاتاہو۔”
یہاں ایک خلا ء ہے۔ اور ہندوستان جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن اس کا جمہوری نظام ابھی کم عمر اور رفتہ رفتہ پائیداری کی طرف بڑھ رہا ہے، اس خلاء کو پر کرسکتا ہے۔
ہندوستانی جمہوریت تکمیل کے مرحلے سے ابھی کافی دور ہے۔دی اکنامسٹ میگزین نے اپنے 2جون کے شمارے میں شائع ایک مضمون میں ہندوستان کی کئی کمیوں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کمیوں میں نظام کو دھوکہ دینا، نیتاؤں کی خرید فروخت اور بے شرمی سے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال شامل ہے۔ اس میں کچھ دوسرے غیر جمہوری کام جیسے کہ حالیہ دنوں میں پورے ملک میں ہجومی تشدد کی لہر کو بھی جوڑا جاسکتا ہے اور ان سب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کو ابھی بہت سارے کام کرنے ہیں۔
جمہوریت کی مشعل کو جلائے رکھنے اور اس روشنی سے پوری دنیا کو منور کرنے لیے تین کام نہایت اہم اور ضروری ہیں۔
شہریت کی مؤثر تعلیم کو نئی نسل کے لیے یقینی بنانا۔
مجموعی طور پر ہر شہری کی معاشی برابری اور سب کے لیے یکساں مواقع کے ایجنڈے پر سختی سے عامل ہونا۔
صحافت کی آزادی کو یقینی بنانا۔
ہندوستانی جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے ان سب میں میرے خیال سے سب سے اہم نئی نسل کو مؤثر اور بین الاقوامی معیا رکی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔
میں نے اسے سب سے مقدم اس لیے رکھا ہے کیوں کہ پیو ریسرچ سینٹر کے 2017 کے 38 ممالک پر مبنی ایک سروے میں یہ پایا گیا کہ محض 8 فیصد ہندوستانی ایک نمائندہ جمہوریت کے لییمکمل طور پر ْ پرعزم ہیں۔ جن ممالک کا سروے کیا گیا ان میں ہندوستان کا نمبر آخرکے ممالک میں آتا ہے۔
ایک مضبوط جمہوریت اپنے شہریوں سے جمہوریت کے لیے ایک عزم مصمم اور ایک شہری ہونے کے ناطے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا ادراک چاہتی ہے۔ اور یہ عزم و ادراک اوائل عمر میں ہی مؤثر تعلیم اور تربیت سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
آج کے نوجوان کل کے شہری ہیں۔نوجوانوں کی تعلیم کے ہونے اور نہ ہونے سے معاشرے پر ہونے والے اثرات کو امریکہ کے تجربہ سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔
تاریخی طور پر 20 ویں صدی کے ایک بڑے حصے تک امریکہ میں اسکول کے طلبہ کو شہریت کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ 21ویں صدی میں یہ زور کم ہوتا گیا۔ 21 ویں صدی میں سائنس و ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی جیسے مضامین کے پڑھنے پڑھانے پر زیادہ توجہ دی گئی اس تبدیلی کے منفی اثرات سے امریکی جمہوریت بالخصوص نوجوانوں میں اس کے اثرات کو عوام اور تعلیمی حلقوں سے متعلق لوگوں نے بخوبی محسوس کیا۔
یہی وجہ ہے کہ دی ڈیموکریسی پروجیکٹ کے ذریعہ کیے گئے ایک حالیہ سروے میں تقریبا 90 فیصد لوگوں نے اس بات کو کافی شد ومد کے ساتھ اٹھایا کہ اسکولوں کو اپنے نصاب میں شہریت کی تعلیم کے لیے ایک بڑا حصہ مختص کرنا چاہیے۔ امریکہ کی نیشنل کونسل آف سوشل اسٹڈیز نے مارچ میں جاری اپنے ایک بیان میں یہ صلاح دی کی شہریت کی مؤثر تعلیم میں اس بات پر توجہ مرکوز کی جائے کی نوجوان نسل اپنے علم اور صلاحیت کے لحاظ سے اس بات کے اہل ہو کہ وہ مدنی زندگی میں ایک سرگرم اور فعال ممبر کی حیثیت سے اپنا کردار اداکرسکیں۔
ہندوستان میں چلڈرنس موومنٹ فار سوک اویرنیس ( سی ایم سی اے) کے نام سیایک تنظیم بچوں میں شہری ہونے کے ناطے ہونی والی ذمہ داریوں سے آگاہی کرانیکے لیے سرگرم ہے۔ اس کے پروگرام اس طور پر تیار کیے جاتے ہیں کہ جس سے بچے علم ، لیاقت اور سرگرم شہری ہونے کی بنیاد پر خود کفیل ہوسکیں۔
ایسی نوجوان نسل کی تربیت کے لیے جو کہ اپنی شہری ذمہ داری کو بخوبی اداکریں، ہندوستان کے سیاسی، تجارتی ، شہری اور تعلیمی رہنماؤں کو سی ایم سی اے کے طرز کچھ پروگرام ترتیب دینے چاہیں جس کا واحد مقصد ملک کے اسکولوں میں کلاس روم کی سطح تک اس طرح کی تعلیم کو پہنچانا ہو۔ اس طرح کا ایک خصوصی پروگرام تبدیلی کا ضامن بن سکتا ہے۔
سال 2008 میں شائع ہونے والی ‘دی سیج ہینڈ بک آف سٹیزن ایند ڈیموکریسی ‘ کتا ب میں ایک باب ہندوستان میں شہریت پر ہے۔ اس کا نام’ سٹیزن شپ ایجوکیشن ان انڈیا: فرام کولونیئل سبجو گیشن ٹو ریڈیکل پاسبلیٹیز’ ہے۔ اگر ہندوستان کو جمہوریت ک کی امید کا علمبردار بننا ہے تو اسے محض تصوراتی خاکوں سے آگے نکلنا ہوگا گرچہ اس کی ابتدا تصورات سے ہی ہوگی اور بنا خیال اور تصور کے کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔