اپنے جو اپنے نا ہوئے۔۔۔۔۔!!!!!

آئینہ

سیدہ تبسم منظور ناڈکر ۔ممبئی
رحمت باراں کی آمدآمدتھی۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان پر بادل رقصاں تھے۔۔۔۔ تھوڑی دیرگزری کہ بارش کی ننھی ننھی بوندیں زمین پر پہنچنے کی بیقراری میں تیزی سے زمین کی طرف آنے لگیں۔باسی عید کا دن تھا اور اس وقت ہم مع شیرخرما اور سیویاں اپنی بائیک پرسوارایک عزیز کے یہاں ملنے جارہے تھے۔گھر سے نکلتے وقت اندازہ تھا کہ ہم بارش شروع ہونے سے پہلے پہلے اپنے عزیز کے یہاں پہنچ جائیں گے مگر درمیان میں ہی اچانک بارش نےکچھ اس طرح ہمیں گھیر لیا کہ کیا کہنا۔مگر ہمیں اچھا لگ رہا تھا کہ آسمان پر موجود یہ بادل ان سے ٹپکتے بارش کے ننھے ننھے قطرے بڑی اپنائیت سے ہمیں چھو رہے تھے۔یوں لگ رہا تھا کہ یہ خوشی کی بوندیں دل سے ہر غم کو مٹا رہی ہو۔۔۔ہم اس دلکش موسم سے سر شار اپنی منزل کی طرف رواں تھے کہ بارش کا زور اچانک کافی بڑھ گیا۔ ایسے میں کسی پناہ گاہ کی تلاش لازمی تھی۔ ہم کوئی سایے کی جگہ ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ اچانک ہماری نظر ایک اولڈ ایج ہوم پر پڑی جس پر لکھا تھا ’’اپنا گھر‘‘۔ دل تڑپ کر رہ گیا۔ ایک بے نام سی بے چینی محسوس ہونے لگی ۔ہم نے اپنے شوہر سے کہا کہ پلیز اس اولڈ ایج ہوم کے پاس بائیک روک دیں۔ آج باسی عید ہے۔۔۔پتہ نہیں اندر کون کون اور کیسے لوگ ہونگے ۔۔۔۔کیا ہی اچھا ہوگا اگرہم اندرجاکر ان لوگوں سے مل کر انہیں سیویاں کھلا آئیں۔اس وقت تک ہم تھوڑا آگے نکل گئے تھے لیکن ہمارے کہنے پر ہمارے شوہر نے بائیک کو واپس موڑا اور’ اپنا گھر‘ کے سامنے روک دی۔
گیٹ کھول کر اندر گئے تو سامنے ہی ایک شخص موجود تھا۔ اس نے ہم سے پوچھا،
’’ آپ کو کس سے ملنا ہے؟؟؟
کوئی آپ کا رشتے دار ہے کیا؟؟؟ ‘‘ ’’
جی! ہمیں اس اپنا گھر میں رہنے والے سبھی لوگوں سے ملنا ہے۔کوئی بھی ہمارا رشتے دار نہیں ہےمگر انسانیت کا رشتہ ہی سب سے بڑا رشتہ ہے!!!‘‘ ۔
پہلے تو اس نے ہمیں اندر آنے سے منع کردیا پر ہمارے بہت ہی اصرار کرنے پر انہوں نے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔ دروازہ کھلا تھا ۔ ہم سہمے سہمے آہستہ سے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔۔بڑا سا ہال تھا۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئےتھے۔۔۔ہم نے سلام بھی کیا، گڈ مارننگ بھی کہااور نمسکار بھی کیا۔۔۔ سب نے ہماری طرف مڑ کر دیکھا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ نہ جانے کس کے رشتہ دار ہیں اور کس سے ملنے آئے ہیں۔
’’ آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ ہم کسی ایک سے نہیں بلکہ آپ سبھی سے ملنے آئے ہیں۔ہمارا نام زویا ہے اور یہ ہمارے شوہر ایان ہیں۔ ‘‘
سب کے چہرے پر خوشی پھیل گئی۔ انہوں نے ہمیں بیٹھنے کے لئے کہا ۔اتنے میں ایک سرونٹ پانی لے آیا۔ ہم نے پانی لیا اور سیویاں ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا آپ اس کو کٹوریوں میں بھر دیں۔ ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے کچن میں ہو لیے۔۔۔وہاں ایک بڑا سا ہال، کچن اور چار بڑے بڑے کمرے تھے۔۔۔۔۔ہر کمرے میں پانچ پانچ بیڈ لگے تھے اور اس کے ساتھ ہی چھوٹی سی الماری تھی۔ہم پورے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کچن میں پہنچے تب تک نوکرنے سیویاں کٹوریوں میں نکال لی تھی۔ ہم نے ایک ایک کر کے سب کو سیویاں کھلائیں۔ جو باہر ہال میں تھے جو اپنے کمرے میں تھے سب نے سیویاں کھا کر دعائیں دیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ وہ سبھی اب اس زندگی کو قبول کر خوش رہنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
جب ہم آخری کمرے میں پہنچے تو دیکھا وہاں پر ایک انکل جی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے نہ جانے کیا دیکھ رہے تھے۔ہم نے دو بار آواز دی پھر بھی وہ ہماری طرف متوجہ نہیں ہوئے۔۔۔۔ ہم نے قریب جاکر پھر ایک بار آواز دی تو وہ اسطرح چونکے جیسے ہم نے انہیں گہری نیند سے بیدار کردیا ہو۔انہوں نے ایسی نظروں سےہماری جانب دیکھا کہ ہم سہم گئے۔آنکھیں رو رو کر لال ہوگئی تھیں۔ منہ سوجا ہوا تھا۔ ہونٹ سوکھ گئے تھے۔ایک پل کے لئے ہمیں ڈر سا لگا مگر ہم نے ہمت جٹائی اور کہا۔۔۔
’’انکل جی !سیویاں کھا لیجئے ۔عید ہے نا۔‘‘
عید۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
انہوں نے اس طرح سے عید کہا کہ ہم کچھ سمجھ ہی نہیں پائے۔کئی بار ان سے کہا تب جاکر انہوں نے ہمارے ہاتھ سے کٹوری لی اور کھانا شروع کیا ۔ ۔ ۔ ہم سے ان کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔۔۔۔۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔’’کیا بات ہے انکل جی! آپ اتنے اداس کیوں ہیں؟؟؟ کیوں آپ رو رہے تھے؟؟ آپ ہمیں بتائیں شاید آپ کا غم تھوڑا ہلکا ہوجائے۔۔۔۔درد کو بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔‘‘
ہاتھ سے کٹوری نیچے رکھتے ہوئے لرزتی ہوئی آواز میں بولے۔۔۔’’ بتا بھی دوں ۔۔۔۔ مگر کچھ درد۔۔۔ کچھ زخم۔۔۔ کچھ کرب ایسے ہوتے ہیں جو لفظوں میں بیان نہیں کئے جاتے۔‘‘
’’انکل جی! بتائیں نا کیا بات ہے۔۔۔شاید بتانے سے آپ کو تھوڑا قرار آجائے۔‘‘
ایک لمبی سانس لی اور کہنا شروع کیا۔
’’ساری ٹہنیاں۔۔۔سارے پتے ٹوٹ کر اس تنے سے الگ ہوگئے ۔کتنی ہی بہاروں کے افسانے اس درخت سے جڑے تھے پراب یہ تنا اکیلا ہے۔اس نے اپنا وجود بھی کھو دیا۔اس کا درد کوئی کیا جانے۔۔۔۔
سننا چاہتی ہو تو سنو!میں ایک بہت بڑا آفیسر تھا۔بے حساب دولت کمائی۔بینک بیلنس ،گاڑی، بنگلہ سب کچھ تھا۔بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ وہ بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔چار ماہ پہلے کی بات ہےمیرے سینے میں شدت کا درد اٹھا۔ مجھے بے ہوشی کی حالت میں میری بیٹی نے ہسپتال میں داخل کیا اور بہت ہی نگہداشت والے کمرے میں رکھا گیا۔۔۔۔بہت خطرناک اٹیک آیا تھا۔کئی دن تک میں ہسپتال میں رہا۔بیٹے ملک کے باہر تھے اس لیے میری بیٹی میری دیکھ بھال کرتی رہی۔۔۔ آہستہ آہستہ میری طبیعت میں سدھار آنے لگا۔ بیٹی برابر ساتھ رہی۔ایک دن صبح ڈاکٹر نے کہا آپ کی صحت اب ٹھیک ہے۔آپ کو کل ڈسچارچ مل جائے گا۔دوسرے دن میرا ڈسچارج تھا ۔میں اپنی بیٹی کا انتظار کر رہا تھا ۔صبح سے شام ہوگئی اس کو نہیں آنا تھا وہ نہیں آئی۔میں اپنے بیڈ سے اٹھا اور ریسپشن پر پہنچا ۔انکوئری کرنے پر پتہ چلا سارے بل ادا ہوچکے ہیں۔اور کچھ رقم بچ بھی گئی ہے۔ نرس نے ڈسچارج پیپر، فائل، دوائی اور کچھ رقم میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے ٹیکسی لی اور اپنے گھر آیا۔گھر میں تالا لگا ہوا تھا۔ نوکر بھی غائب تھے. کار بھی نہیں تھی۔ایک دھچکا سا لگا۔پڑوسی سے معلومات لی تو پتہ چلا بیٹی نے بنگلہ بیچ دیا ہے. اور بیرون ملک جارہی ہوں، بول کر چلی گئی ہے۔۔۔۔ واضح تھا کہ وہ فرار ہوچکی ہے۔ بینک میں فون کیا تو معلوم ہوا پورا اکاونٹ خالی ہوچکا ہے۔ ہسپتال میں کئی بار بل کی ادائیگی اور ہسپتال کے پیپر بول کر سائن لی تھی۔میرے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی۔ دونوں بیٹوں کو فون ملایا ایک یورپ اور دوسرا امریکہ میں ہے۔جب انہوں نےیہ سب سنا تو دونوں بیٹوں نے آنے سے انکار کردیاکہ اب ہم کیوں آئیں ۔سب تو وہ لے گئی اب آپ کے پاس کیا ہے ہمارے لئےجو ہم اتنا خرچ کرکے وہاں پہنچیں۔۔۔۔کہتے کہتے انکل کی آواز کانپنے لگے۔۔۔آنکھوں سے آنسووں کی دھارا بہنے لگی۔زارو قطار رونے لگے۔۔۔اور کہاکہ کیا اولاد ایسی ہوتی ہے؟اور۔۔۔ اور بیٹیاں تو باپ کی شان ہوتی ہیں۔۔۔۔ مان ہوتی ہیں۔۔۔ بابا کی رانی ہوتی ہیں۔۔۔باپ بیٹی میں بہت پیار ہوتا ہے نا۔۔۔ کہا جاتا ہے بیٹے چھوڑ جائیں پر بیٹیاں اپنے ماں باپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتیں ۔۔۔۔۔بیٹی کو اپنے ماں باپ سے بہت لگاؤ ہوتا ہے۔۔۔۔تو یہ بیٹی کا کونسا روپ ہے؟؟؟ کونسا روپ ہے یہ بیتی کا؟؟؟ سب کچھ لوٹ کر لے گئی اور باپ کو تنہا اکیلا چھوڑ گئی وہ بھی بیماری کی اس حالت میں۔۔۔۔کیا ایسی بھی بیٹیاں ہوتی ہیں؟؟؟؟ بولو کیا ایسی بیٹیاں ہوتی ہیں؟؟؟؟؟
ہم کچھ بول ہی نہیں پائے۔ہمارا دل ودماغ سن ہوگیا تھا۔ لب سل گئے تھے۔
پھر وہ بولے
’’قصور ان کا نہیں یہ میرے اپنے کرم کے پھل ہیں جو سامنے آرہے ہیں۔آفیسر تھا نا۔۔۔ لوگوں پر بڑا رعب جماتا تھا۔۔عید رہے، ہولی رہے، دیوالی رہے۔۔۔۔ایسے ہی وقت سب کو پریشان کرکے بڑی بڑی رقموں کی صورت میں سب سے رشوت لیتا۔کسی کو خوشی سے تہوار نہیں منانے دیا۔کیاملا ایسی دولت کما کر ؟کس کے لئے کیا؟ جس کے لیے کیا وہ سب چھوڑ گئے۔ کوئی غیروں سے بھی ایسے نظریں نہیں پھیرتا جیسے میری اپنی اولاد نے کیا ہے۔آج سمجھ میں آرہا ہے کہ حلال رزق کمائی ہوتی تو دنیا اور آخرت دونوں کا سہارا ملا ہوتا۔ دولت تودھول جیسی ہوتی ہے اس کو ہمیشہ قدموں کےنیچے رکھنا چاہئے اگر سر پر چڑھا لیا تو یہ قبر بن جاتی ہے۔۔۔۔اور زندہ لوگوں کے لئے قبر نہیں ہوتی نا!!!!میرے بچے چھوڑ گئے۔ مجھے ان سے نفرت نہیں محسوس ہوتی کیوں کہ جو لقمہ کھایا اس کا اثر ہے ان میں۔لیکن مجھے اب خود سے نفرت ہوگئی ہےاور یہ جو کیفیت ہے نا میرے لئے جان لیوا ہے۔ میں نے جو بویا ہے وہی کاٹ رہا ہوں۔
یہ دنیا فانی ہے ۔اپنی جوانی کی طاقت کے زور پر کئی کے اوپر ظلم کیا ۔ غرور ہر چیز کو مٹا دیتا ہے۔اچھے لوگوں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔اب میں سوچتا ہوں کون ہوں میں۔۔۔۔ کیا ہوں میں۔۔۔ کہا ں گیا میرا عہدہ؟؟؟بہت گھمنڈ تھا خود پر!!!! اب میرے آنکھوں میں صرف آنسو ہیں۔ ان دکھوں کا کوئی مداوا نہیں۔۔۔۔کسی سے کچھ بھی کہنے کا حوصلہ نہیں۔پتہ نہیں کیسے تمہارے سامنے سب کہہ دیا۔اللہ اتنا درد و کرب کسی کو نہ دے۔ ضروری نہیں کے اگر میں نے کسی کو تکلیف دی تھی تو اس نے مجھے بد دعا دی ہو۔۔۔لیکن ان معصوموں کی آہ عرش الہی پر اپنا کام کر گئی۔اور پھر وہ زاروقطار رونے لگے.
ہم انکل کی باتیں سن کر ساکت رہ گئے. کچھ کہنے کی ہمت ہی نا تھی. ہماری آنکھیں بھی بھر آئی…..واپسی میں قدموں کو اٹھانا بھی مشکل ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھاپیر من من بھر کے ہوگئے ہیں۔ لرزتے قدموں سے بڑی مشکل سے ہم اپنے آپ کو گھسٹتے ہوئے وہاں سے باہر نکلے۔کئی دنوں تک بے چین رہے کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ اللہ کی چکی دھیرے پیستی ہے مگر بہت باریک پیستی ہے۔ پر پستی ضرور ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *