
سیلاب متاثرہ کیرالہ میں نفرت و محبت کی دو مثالیں
اگر ہندووں نے عیدالاضحیٰ کی نماز کے لئے مندرکھول دیا تو برہمن فیملی نے عیسائی کی ریسکیوکشتی پر سواری سے انکار کردیا
کیرلا میں سیلاب کے دوران بدھ کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال دیکھنے کوملی۔یہاں کی مسجد سیلاب کی وجہ سے پانی میں ڈوب گئی تھی۔ ایسے میں عیدالاضحیٰ کی نماز کے لئے پاس کے ہی ایک مندرکے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دیئے گئے۔
کوچکاڈو محل مسجد میں پانی بھرنے کے بعد مالا کے پاس ایراوتورمیں پروپلکو رکتیشوری مندرسے منسلک ایک ہال عیدالاضحیٰ کی نماز کے کھول کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال پیش کی۔ مندرکے ذمہ داران نے مندرسے منسلک ایک ہال عیدالاضحیٰ کی نماز کے لئے کھول دیا۔ کیونکہ پاس کے کوچوکاڈو محل مسجد میں پانی بھرا ہوا تھا۔
نارائن دھرم پریپال یوگ (ایس این ڈی پی) کے ذریعہ چلائی جارہی مندرپہلے سے ہی کیرالہ میں سیلاب راحتی کیمپ کے طورپرکام کررہا ہے۔ اس علاقے میں راحتی کام کررہے ابھینو نے بتایا “مندرکے ہال میں پہلے سے ہی ایک راحتی کیمپ چلایا جارہا ہے، ہم نے محسوس کیا کہ لوگوں کو نمازپڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں، اس لئے ہال کوعارضی عید گاہ کے طور پرتیارکرنے کے لئےعلاقے کے ہندو نوجوان آگے آئے”۔
ابھینو نے بتایا “لوگوں نے آس پاس کے گھروں سے نماز کے لئے چٹائیاں (جائے نماز) جمع کیں اور دیگرتمام انتظامات کئے، جس کے بعد تقریباً 300 لوگوں نے مندرمیں نماز پڑھی”۔ ایراوتورتریشورضلع کے سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ مقامات میں سے ایک ہے جہاں راحت کیمپوں اورآس پاس کے گھروں میں 3000 سے زیادہ لوگ قیام کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تین راحت کیمپ بنائے گئے ہیں۔
مندر کے ہال میں عیدالاضحیٰ کی نماز کی امامت جسیر دریمی نے کیا۔ اس دوران سیلاب متاثرین کےلئے خصوصی دعا بھی کی گئی۔
لیکن ایک دوسری خبر کے مطابق ایک ہندوبرہمن خاندان کو بچانے کے لئے جب ایک عیسائی مچھوارا گیا تو مذکورہ برہمن فیملی نے اسے حقارت سے بھگا دیا اطلاعات کے مطابق کیرلہ کے کولم میں جہاں ایک ہندو برہمن خاندان جس میں ۱۷افراد تھے سیلاب میں پھنے ہوئے تھے۔لہذا ۴۷سالہ مارین جارج Marion George جب ان کے پاس اپنی کشتی لے کر پہنچا تو انہوں نے اس کا مذہب دریافت کیا جب اس نے کہا کہ میں عیسائی ہوں تو ان لوگوں نے اسے حقارت سے وہاں سے بھگا دیامیڈیا رپورٹوں کے مطابق جب کئی گھنٹے بعد مارین جارج دوبارہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ لوگ مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔جارج نے دوبارہ اپنی خدمات پیش کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے اس شرط پر کشتی پر بیٹھنے میں رضامندی ظاہر کی کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ انہیں ٹچ نہ کرے۔جارج کے مطابق ’’وہ لوگ انتہائی حقارت سے میرے ساتھ پیش آرہے تھے حالانکہ میں ان کی حفاظت کے لئے فکرمند تھا۔