معروف سینئرصحافی کلدیپ نیروفات پا گئے،لودھی گارڈن شمشان گھاٹ میں آخری رسومات

نئی دہلی : سینئر صحافی کلدیپ نیرگذشتہ شب دہلی میں وفات پاگئے، وہ 95 سال کے تھے۔انہیں خراب صحت کی شکایت کے بعددہلی کے اپولواسپتال میں داخل کرایاگیاتھا،جہاں انہو ں نے آخری سانس لی۔ ان کی آخری رسومات جمعرات کو دوپہر ایک بجے لودھی گارڈن واقع شمشان گھاٹ میں ادا کی جائیں گی۔کلدیپ نیئر گزشتہ کئی روز سے علیل تھے اور اسپتال میں داخل تھے۔ کل رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے انتقال ہوگیا۔
۔کلدیپ نیئرکی پیدائش 14 اگست 1923 میں پنجاب کے سیالکوٹ (اب پاکستان) میں ہوئی تھی۔کلدیپ نیرنے لا کی ڈگری لاہورمیں لی تھی اوریو اے سی اے سے صحافت کی ڈگری لی تھی۔ انہوں نے فلسفہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک معروف صحافی، کالم نویس اور انسانی حقوق کے علم بردار تھے۔ وہ برطانیہ میں ہندستان کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں اور انہیں 1997 میں راجیہ سبھا کا ممبر بھی بنایا گیا۔
متعدد کتابوں کے مصنف رہ چکے مسٹر نیئر برسوں تک مرکزی حکومت میں پریس انفارمیشن افسر بھی رہے۔ وہ خبر رساں ایجنسی یونائیٹیڈ نیوزآف انڈیا ، انگریز ی اخبار ڈان ایکسپریس اور اسٹیٹس مین سےبھی منسلک رہے۔ انہوں نے لندن ٹائمز میں بھی بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ وہ 25 برسوں تک “دی ٹائمس لندن” کے نامہ نگاربھی رہے۔ انہیں ہندوستان میں ایمرجنسی کے وقت گرفتاربھی کیا گیا تھا۔
صحافت کے شعبہ میں قابل قدر خدمات انجام دینے والوں کو مسٹر نیئر کے نام سے ’کلدیپ نیئر صحافت کا ایوارڈ‘ بھی دیا جاتا ہے۔ صحافتی دنیا میں ان کی بہترین خدمات کے لئے 2015 میں انہیں رام ناتھ گوئنکا سمرتی ایوارڈسے بھی سرفراز کیا گیا۔
مسٹرنیر کا کالم “بٹوین دی لائنس” (بین السطور) کافی مشہورہوئی، جسے 80 سے زیادہ اخباروں نے شائع کیا تھا۔ وہ امن اورحقوق انسانی کو لے کراپنے رخ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
فیس بک پوسٹ پر غم کا اظہار کرتے ہوئے عمیر انس لکھتے ہیں’’جولائی ۲۰۰۵ میں جورج ڈبلیو بوش کا دورہ ہند تھا، منموہن سنگھ حکومت نیوکلیئر ڈیل کے ایجنڈے پر تیز رفتاری سے کام کر رہے تھے، لیکن دہلی کے بیشتر دانشور ملک کی سیادت کمزور ہونے اور عالمی سیاست میںہندوستان کے امریکی حلیف بن جانے کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے، ہندوستان کی مسلم طلبہ تنظیم ایس آئی او کی طرف سے بوش مخالف تحریک شروع کی گئی تھی، تمام لیفٹ جماعتوں کے ساتھ ملکر سرگرمیاں جاری تھیں، ایک اتوار جناب کلدیپ نیّر صاحب کو میں نے فون کیا کہ آپ کو ایس آئی او آفس میں جورج بوش کے دورے اور نیوکلیئر ڈیل سے متعلق ایک تقریر کرنی ہے، ایک طالب علم اپنے وقت کے بہترین صاحب قلم سے فون پر گفتگو کر رہا تھا، وہ شخص جو برطانیہ میں ہندوستانی ہائی کمشنر بھی ره چکا تھا، وہ شخص جو قلم کی آبرو کا رکھوالا تھا، جسکا قلم بے خوف، جسکا مزاج بے باک، جسکی زبان تعصب اور لالچ کے میل سے صاف، اس طالب علم سے اس عظیم شخصیت نے پدرانہ شفقت سے بات کی، اور دعوت قبول کی، ایس آئی او مرکز پر اپنی گاڑی سے تشریف لائے، سینکڑوں افراد جنہوونے کلدیپ نیّر کو صحافت کا دوسرا نام جانا تھا انہیں سننے کے لیے حاضر تھے، انکی تقریر نے بڑے خوبصورت طریقے سے ملک کی سب سے بڑی بحث پر اپنی مدلل گفتگو پیش کی، اور پھر واپس چلے گئے، کلدیپ نیّر کے نام میں ہی اتنی کشش اور اتنی عظمت تھی کی کوئی دوسرا انکا ہم نام ہونے کا بھی حق ادا نہ کر سکے گا، وہ دیپ یعنی چراغ بھی تھے، وہ نیّر بھی تھے اور وہ صرف اپنے ہی خاندان کے نہیں بلکہ اس ملک کے تمام انصاف دوست انسانوں کے چراغ تھے،آج وہ ستارہ غروب ہو گیا ہے لیکن اپنی روشنی ہمارے درمیان چھوڑ گیا ہے‘‘۔