مدینہ کی تاجر لڑکیوں نے فرینک اسلام سے سیکھے کامیاب بزنس کے اصول

واشنگٹنـ/نئی دہلی: “آپ نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا کا مستقبل ہیں اور مجھے آپ کے سفر اور کہانی نے بہت متاثر کیا”یہ الفاظ تھے ہندنژاد نامورامریکی تاجر ، لیڈر اور مخیر کے جب ان سے سعودی عرب کی نوجوان تاجر عورتوں کے ایک گروپ سے امریکہ میں ملاقات ہوئی۔ان دوشیزاؤں میں سے اکثر کا تعلق مدینہ سے تھا جسے اسلام میں دوسرے سب سے مقدس شہر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔15نوجوان عورتوں پر مشتمل یہ گروپ فرینک اسلام سے جنہوں نے کامیاب تجارت میں اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے، سعودی میں نئی تجارت کوشروع کرنے کے اصول سیکھنے آیا تھا۔ انہوں نے فرینک اسلا م سے اس موضوع پر ایک گھنٹہ تک دوبدو تبادلہ خیال کیا۔پچھلی تین دہائی میں فرینک اسلام کا اعظم گڑھ سے علی گڈھ اور امریکہ تک کا تعلیم اور پھر تجارت کا سفر جو کہ پہلے محض 500امریکی ڈالر سے شروع ہوا تھا اورمحض 13 سال کی مدت میں سالانہ 300ملین ڈالروالا کاروباربن گیا جس میں 3000لوگ کام کرتے تھے، نے بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا۔ مدینہ کی یہ نوعمر لڑکیا ں جنہوں نے حال ہی میں اپنا گریجویشن مکمل کیا ہے بھی اسی سب سے متاثر تھیں اور وہ فرینک اسلام سیبزنس کی مبتدیات سیکھنے آئی تھیں۔ اس بات چیت کا انعقاد گذشتہ ماہ واشنگٹن میں سعودی عرب اورہلسیون انکوبیٹر کے مشترکہ خصوی پروگرام کے ذریعہ عمل میں آیاتھا۔جس میں سعودی عرب میں نوعمر عورتوں کیذریعہ حال میں شروع کی گئی سات اہم کمپنیوں کو دوہفتہ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

ہلسیون کے ایک اہلکار کے مطابق اس مختصر ،خصوصی اوررہائشی کورس کے ذریعہ ان سویدی وینچرزکو اپنی تجارت پروان چڑھانے کے لیے نیا علم، صلاحیت ، ذرائع اور روابط کو فراہم کرنا تھا۔فرینک اسلام کو بھیجے گئے دعوت نامہ میں منتظمین نے لکھا تھا کہ ، ” فرینک !امریکن مسلم کمیٹی میں آپ کے مقام ، امریکہ اور ہندوستان میں سوشل انٹرپرائزمیں آپ کی دلچسپی اور حمایت اور ذاتی طور سے ایک کامیاب تاجر ہونے کے ناطے سعودی عرب سے آئے ہوئے اس گروپ سے آپ کا تبادلہ خیال کرنا انتہائی اہم اور عظیم ہوگا۔اپنے سفر اور امریکہ میں اپنے تجربہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرینک اسلام نے ان نوآموز تاجروں سے کہا کہ” میں یہاں محض 15سال کی عمر میں آیا تھامیں نے امریکہ کا ایک خواب سجائے سمندر پار کیااور اس وقت میرے پاس امریکہ کے تئیں میرییقین کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور مجھے اپنے امریکی خوا ب پر پورا بھروسہ تھا۔ ”
ایک کامیاب بزنس کھڑا کرنے کی شرائط اور ضرورتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا”بزنس کے لیے جوچیزیں درکار تھیں وہ مجھے پہلے سے میسر تھیں یعنی اچھی تعیم ، اچھا تجربہ، تاجر بننے کی لگن اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ایک ٹیم۔”انہوں نے کہاکہ”اپنی انتظامی صلاحیت، اپنی باصلاحیت افراد پر مشتمل ٹیم کو لے کر ہم نے ایک آدمی کی کمپنی سے 3000 افراد پر مشتمل کمپنی کا سفر کیا اور 13سال میں 300ملین امریکی ڈالر کا سالانہ کاروبار ہوا۔”اس موقع سے سعودی لڑکیوں نے فرینک اسلام سے سوالات بھی کیے۔انہوں نے کامیابی کے لئے چند اہم اصول گنائے:
ناکامیوں سے میں کبھی پیچھے نہ ہٹنا سیکھا۔
ہر لمحہ ہنسی خوشی گزارنا اور خطرات سے نہ گھبرانا۔
عام لوگ جسے چیلنج سمجھتے ہیں، تاجر اسیموقع تصور کرتے ہیں۔
کاروباری حریفوں سے اختلافات کے معیار کو بلند رکھنا۔
اپنے طور پر سب سے اچھا بننے کی کوشش کرنا۔
اپنی ساری صلاحیت کھپادینا۔
آخر میں فرینک اسلام نے نوجوانوں سے کہا کہ “بل گیٹس، سٹیو جابس اور فرینک اسلام کی طرح اپنی سمت سفر خود طے کیجئے۔ خو د کے لیے مخلص رہیے اور ایسے باصلاحیت اور عبقری لوگوں کے درمیان رہیے جو آپ کیمقاصد اور اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔”فرینک اسلام نے ایک تحفہ شرکا میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ”سب ملا کر میرے نزدیک سب سے اہم اصول یہ ہے کہ بڑی کامیابی کے لیے بہت زیادہ سوچنا نہیں چاہیے۔اور جب آپ کامیاب ہوجائیں تو دوسروں کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کے لیے ان کی مددکریں۔ہند نڑاد فرینک اسلام نے مدینہ کی ان لڑکیوں کی آنکھوں میں امید اور روشن خواب کو محسوس کیا اور انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار کچھ یوں کیا۔”آپ سعودی عرب اور پوری دنیا کا مستقبل ہیں۔اگر آپ کامیاب ہوتی ہیں تو ہماری جدوجہد کامیاب ہوگی، سعودی عرب اور پوری دنیا کو کامیابی ملے گی۔ آپ کل کی ایک امید ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والا کل پوری دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔”آخر میں فرینک اسلام اور ان کی اہلیہ دیبی ان لوگوں کو واشنگٹن شہر کے باہری علاقے میں لاکھوں ڈالر سے تیار اپنے گھر نارٹن مینور لے گئے۔ سعودی عرب کے اس گروپ میں اسماء عبد المحسن ، زینب حوسہ، نداء محمد سمان، ابتہال نائف المحمدی، ہبہ زاہد، بشریٰ الغامدی، سارہ جابر، عالیہ زیدان شامل تھیں۔