حاجی وارث علی شاہ دیوا سنستھان کے صدر حاجی صدیق وارثی کا کہنا ہے کہ درگاہوں کے مجاورو سجادہ نشین اگر عالم انسانیت کی بھلائی کے لئے کام کریں تو یہ بڑا کا م ہوگا
۶۰۰سالہ خاندانی تاریخ کے حامل حاجی وارث علی شاہ دیوا سنستھان کے صدر حاجی صدیق وارثی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نےاتر پردیش اقلیتی کمیشن کےڈپٹی چیرمین کا کار بھار سنبھالا ہے۔اترپردیش وقف بورڈ کے ساتھ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے ممبر صدیق وارثی اب ان لوگوں سے نالاں ہیں جو قوم کے نام پر بندر بانٹ میں پھنسے ہوئے ہیں اور قومی سرمائے کو نیلام کر رہے ہیں۔درگاہوں کے مجاور ہوں یا سجادہ نشین و خانقاہوں کے پیر حاجی وارث علی شاہ رحمہ اللہ علیہ کے وارث کا کہنا ہےکہ یہ تمام ادارے اب ذاتی منفعت کا مرکز بن گئے ہیں ،بہتری اسی میں ہے کہ لوگ خلق خد ا کی بھلائی کے لئے کام کریں اور جس طرح ہمارے بزرگوں نے لوگوں کو فیض پہنچایا ہے اسی طرح وہ عام انسانیت کو فیض پہنچانے کا باعث بنیں تو جہاں اسلام کا نام روشن ہوگا وہیںعام خلقت ان سے بھی متاثر ہوگی۔
دیوا شریف سے فون پر معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں’’حاجی وارث علی شاہ رحمہ اللہ علیہ کا پیغام لوگوں کے مابین محبت کو عام کرنا تھا ۔آج بھی ہم ’’Message of Love‘‘کے نام سے کتاب شائع کرکے ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو کسی بھی طرح سماج پر اپنے اثرات رکھتے ہوں۔دیوا شریف میں نہ نذرانہ وصول کیا جاتا ہے اور نہ ہی مجاوری ہوتی ہے بلکہ یہاں ان تمام مہمانوں کو جو حاجی وارث علی شاہ رحمہ اللہ علیہ سے محبت و عقیدت کی بنیاد پر تشریف لاتے ہیں نہ صرف تین روز تک مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہےبلکہ ان کی رہائش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ہمارے یہاں ٹرسٹ کمیٹی ہے جس میں مائناریٹی کمیشن کے سابق چیرمین وجاہت حبیب اللہ بھی شامل ہیں لہذا ہم نے دان پیٹی بنا رکھی ہے جو زائرین اپنی خوشی سے جو کچھ بھی دینا چاہیں دیں ہم کسی سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔وہ چادریں جو مزار پر چڑھائی جاتی ہیں ہم انہیں نہ صرف غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں بلکہ لوگوں سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ اپنا پیسہ ان چیزوں میں خرچ نہ کریں‘‘۔
چونکہ ہمارے یہاں سجادگی نہیں ہے کیونکہ وارث پاک نے اپنا سجادہ بنایا ہی نہیں ،ایک ٹرسٹ کمیٹی اور حلقہ فقراء وارثی آستانہ عالیہ کے نام سے ایک گروپ ہے جس کے والد صاحب سید رئیس شاہ وارثیصدرہوا کرتے تھے۔لہذا والد صاحب سید رئیس شاہ وارثی کے۲۰۰۴ میں پردہ (انتقال )فرمانے کے بعد سے اب ہم ہی لوگ ہیں جواس کے ذمہ دار ہیں۔ ہاں ہمارے یہاںرہبری کا سلسلہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے سلسلہ وارثیہ کو قائم رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ آخر جو نذرانہ ٹرسٹ کا درگاہ کو ملتا ہے اسے کن کاموں میں استعمال میں لایا جاتا ہے صدیق وارثی کہتے ہیں’’دیکھئے!دراصل میں نذرانے کے ہی خلاف ہوں کیونکہ یہی ہمیں برباد کر رہا ہے اورہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے،نذرانہ کے ذریعہ ہی ہمیں اپاہج بنانے کا کام کیاجارہا ہے۔کیونکہ جب آپ خدمت خلق کا کام کرتے ہیں تو یہی نذرانہ آڑے آتا ہے اور پھر کرپشن کا آغاز ہو جاتا ہے۔لہذا اس کی روشنی میں دیکھیں تو ہم نے اسکول اور اسپتال قائم کیا ہے جہاں غریبوں کی امداد کی جاتی ہے چونکہ ابھی ایک سو دس سال پرانا ہے جبکہ دوسری درسگاہیں ۶۰۰سال پرانی ہیں لہذا دوسری درگاہوں سے یہاں کے رفاحی کام کو مقابلہ نہیں کیا جانا چائے ۔ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہماری منیجمنٹ کمیٹی ہے اب منیجمنٹ کمیٹی میں سب لوگ اسمارٹ تو ہوتے نہیں ہیں،دس طرح کے مسائل ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہم اچھا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
صدیق وارثی کہتے ہیںسرکار وارث پاک کا فرمان ہے کہ ’’سنو سنو!سات فاقے سے بھی ہو تو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائو‘‘’’لہذاہمارے یہاں مانگنا حرام ہے،پورے ہندوستان میں یہی ایک درگاہ ہے جہاں لوگ ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں۔ہم بھی اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی دست سوال دراز نہ کرے ۔یقیناً بہت سارے کام ایسے ہیں جو آج بھی کئے جانے باقی ہیں امید کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بہتر کام لے لے‘‘۔