صوفیانہ مزاج ہی موجودہ ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے

دیوا شریف کے احرام پوش شاکر شاہ وارثی کا خیال ہے کہ موجودہ ماحول میں وارث پاک کی تعلیمات ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں
مدھیہ پردیش کے شہر اندورکے علاقہ خضرانہ میں رہائش پذیر دیوا شریف کے احرام پوش شاکر شاہ وارثی ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے وارث پاک کی تعلیمات کی روشنی میں ہی زندگی کا سفر طے کیا ہے۔۱۹۷۷ کو بزرگوں کے خاندان میں آنکھیں کھولنے والے جواں سال بزرگ نے رشتے میں اپنے بڑے پاپااحرام پوش سید منظور شاہ وارثی جو برہان پور میں قیام پذیر تھےانہیں قریب سے دیکھا چونکہ بڑے پاپا ۱۹۷۹ یا ۱۹۸۰ میں احرام پوش ہوئے تھے لہذا جب انہوں نے شعور کی آنکھیں پائیں تو وارث پاک کا ہی نام ہر جگہ سنائی دیا ۔شاکر وارثی معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’جب میں سن شعور کو پہنچا تو بڑے پاپا احرام پوش ہوچکے تھے ان کے ساتھ وقت گذارتے ہوئے مجھے بھی روحانیت محسوس ہونے لگی مجھے یہ پتہ چل چکا تھا کہ وارثیہ سلسلہ کیا ہوتا ہے اور لوگ الگ طرح کا لباس پہن کر کس طرح احرام پوش ہوتے ہیں اور اپنی زندگی رضائے الہی کے حصول میں لگاتے ہیں ۔میں روحانی مجلسوں میں شرکت کے ساتھ ۱۹۹۵ میں پرنٹنگ کے کاروبار میں شامل ہوگیا۔اس کاروبار کے کرنے کے دوران ابوالعلئ سلسلہ کے خلیفہ محمد حسین قادری ملاقات ہوئی جن کے دادا پیر حضرت ابوالخبیر عباسی رحمہ اللہ تھے لہذا ان کے عرس کے پوسٹر کو اردومیں تیار کرنے کے لئے انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا جبکہ ایک روحانی علاج کی کتاب کو ہندی میں منتقل کرنے کے لئے بھی مجھ سے کہا گیا جس سے مزید رابطہ بڑھااور اس کتاب کی بعض چیزیں مجھے بھی مستحضر ہوگئیں،دریں اثناء ایک دوست کو ایسا بخار لاحق ہوا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا جب میں نے روحانی علاج کیا تو اللہ رب العزت نے شفاء دیا اور وہ ٹھیک ہوگیا اس کے فوری بعد ہی میرے ایک دوست کی بھتیجی بیمار پڑی اس پر فالج کا اثر ہوا دوا سے وہ ٹھیک نہیں ہوئی تو میں نے دعا کے ذریعہ اسے ٹھیک کیا ان چیزوں کی وجہ سے میرا حوصلہ بڑھتا گیا۔لیکن اسی دوران المیہ یہ ہوا کہ ۲۰۰۷ میں بڑے پاپاسید منظور شاہ وارثی کا پردہ (انتقال)ہوگیا جبکہ میں ۲۰۰۰ میں ہی اندور شفٹ ہوگیا تھالہذا یہاں ایک دوسرے احرام پوش فقیرحاجی جمیل شاہ وارثی سے ملاقات ہوئی جن کا گوالیار میں آستانہ ہے ۲۰۰۷ میں ان کا بھی پردہ ہوگیا۔لیکن انہیں کے ذریعہ میں باقاعدہ سلسلہ وارثیہ میں داخل ہوگیا۔دلچسپ بات یہ رہی کہ اسی درمیان مستانہ حضور مستانہ جمال شاہ وارثی جو وارثیہ سلسلہ میں ایک مشہور نام ہےجن کاہر طرف بڑا شہرہ تھا وہ رابطے میں آئے اور انہوں نے مجھے باقاعدہ احرام پوش بنایا‘‘۔شاکر کہتے ہیں ’’احرام پوشی میں اس لئے نہیں اختیار کیا کہ بابا بن جائوں اور بابا گیری کروں یا اس کے ذریعہ عزت و شہرت حاصل کروں بلکہ بچپن سے ہی والدین میرے اندر روحانی کیفیت محسوس کیا کرتے تھے۔سات برس کی عمر میں جب وہ کسی بزرگ کے پاس علا ج کی غرض سے لےگئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے اندر روحانی کیفیت ہے فی الحال تو میں اسے قابو میں کر لیتا ہوں لیکن بڑا ہوکر یہ روحانی کیفیت سے سرشار ہوگا اور اسی رخ پر اپنی زندگی گذارے گا۔‘‘

جب زندگی نے آگے کا سفر طے کیا اور میں کاروبار حیات میں شامل ہوا تو کوئی بھی کاروبار کرتا اس میںنقصان ہی برداشت کرنا پڑتا ، بار بار کے خسارے نے مجھے بالکل توڑ دیا تھالہذا میں ایک روز احرام پوش فقیرحاجی جمیل شاہ وارثی کے پاس گیا اور ان سے اپنا سارا احوال بیان کیا جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ میں احرام پوشسید منظور شاہ وارثی برہان پوری کا رشتہ دار ہوں تو انہوں نے مجھے بھی باقاعدہ سلسلہ میں شامل ہونے کی دعوت دی کیونکہ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ میں لوگوں کا روحانی علاج بھی کیا کرتا ہوں جس سے لوگوں کو شفا بھی ملتا ہےلہذااس کیفیت کو دیکھتے ہوئے احرام پوش فقیرحاجی جمیل شاہ وارثی اور ان کے صاحبزادے محبوب شاہ وارثی نے یہ کہتے ہوئے کہ میں بھی پیلے کپڑے زیب تن کرلوں مجھے باقاعدہ مفلر و چادر اوڑھایااور سلسلےکا فرد بنایا اور پھر میں وارثیہ سلسلہ کا ایک فرد بن گیا‘‘۔

شاکر گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں’’احرام پوشی کے بعد نہ صرف حالات تبدیل ہوگئے بلکہ معاشی مسائل بھی حل ہوگئے اور جن پریشانیوں میں میں مبتلا رہا کرتا تھا اس سے بھی نجات پا گیا۔حالات میں کشادگی محسوس کرنے کے بعدمیں ذکر و فکر میں مزید مشغول ہوگیا اور وارث پاک کے پیغام ’’سنو سنو محبت کرو محبت،محبت سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘’’جو ہمیشہ محبت کرے وہ ہمارا ہے چاہے وہ چمار ہو یا خاکروب،‘‘’’محبت عین ایمان ہے‘‘۔ان تعلیمات کو عام کرتے ہوئے میں خوشی محسوس کرنے لگے اور یک گونہ طمانیت محسوس ہونے لگی‘‘۔
شاکر کہتے ہیں’’موجودہ ماحول میں جو کشیدگی محسوس کی جارہی ہے اسے وارث پاک کے پیغام سے ہی کم کیا جاسکتا ہے ،حضرت قبلہ نے نہ صرف امن و آشتی کا پیغام عام کیا ہے بلکہ ایثار و قربانی کی مثالیں قائم کی ہیں۔اس وقت غیر مسلموں کو محبت کی دولت سے مالا مال کرنے کی ضرورت ہے جب آپ محبت کے پیغام کو عام کریں گے ایک دوسرے کاا حترام کریں گے اور ایک دوسرے کے مسائل میں دلچسپی لیں گے تو پھر ایسا ماحول پیدا ہوگا جہاں کشیدگی نہیں ہوگی ،جب ماحول پر امن ہوگا تو امن و محبت کی ہوا چلے گی اور لوگ جوق در جوق اسلام کی طرف مائل ہوں گے ۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ ماحول میں صوفیانہ فکر کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا ماحول بھی بہتر ہو اور ہر طرف امن و آشتی کا شور شہرہ ہو‘‘۔