ہندوستان کاجمہوری دستور:دنیا کا سب سے طویل آئین
از:عطاء الرحمن نوری ،مالیگائوں(ریسرچ اسکالر)
ہندوستان، 15؍ اگست 1947ء کو برطانوی تسلط سے آزاد ہو ا، اور 26؍ جنوری 1950 ء کو ہندوستانی آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ایک خود مختار ملک اور ایک مکمل طور پر ری پبلکن یونٹ بن گیا، جس کاخواب ہمارے رہنمائوں نے دیکھا تھا، اپنے خون جگرسے گلستاں کی آبیاری کی تھی اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لیے جام شہادت بھی نوش کیاتھا۔ چنانچہ آئینی نفاذ کے دن کے طور پر 26؍ جنوری کوبطور یاد گار منایا جاتا ہے ۔ یہ دن، آزاد اور جمہوری ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے، لہٰذا اس دن ہمارا ملک ’’ایک جمہوریہ‘‘ ہونے کے ناطے اسے بطورتقریب مناتاہے۔ اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا منسوخ کر کے اس دن دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور دستور ہند کی عمل آوری ہوئی۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور ہند کو 26 نومبر 1949ء کو اخذ کیا اور 26 جنوری 1950ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی۔ دستورِ ہند کی تنفیذ سے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت ہے۔
٭ جمہوریت کی تعریف:
جمہوریت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں،چند ایک درج ذیل ہے:
(1)لوگوں کی رائے نظام ترتیب دینے کا نام جمہوریت ہے ۔
(2) اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں ۔
(3)عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے سے موسوم ایسا طرز حکومت جس میں سیاسی نمائندوں کے انتخاب سے لے کرعوام کے لیے وضع کی جانے والی پالیسیوں پر بھی عوامی خواہشات اثر اندازہو، اسی کا نام جمہوریت ہے۔
(4)سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن نے یوںتعریف کی: ’’لوگوں کے لیے ،لوگوں کے ذریعے،لوگوں کی حکومت ۔‘‘
(5) مشہور یونانی مفکر ہیرو ڈوٹس نے کہا: ’’ایسی حکومت جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرہ کو حاصل ہو ۔
اس کے علاوہ بھی دیگر اصحاب قلم نے جمہوریت کی تعریفیں اپنے اپنے طریقے سے کی ہیں ۔ سقراط نے جمہوریت کے بعض نقصانات کو بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا، اسی لیے کہا تھا :’’حکومت چننے کا حق صرف ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو اچھے برے کی تمیز رکھتے ہوں ۔ڈاکٹر اقبال نے کہاہے ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال ایسی جمہوریت کے سخت مخالف تھے جس کے پردہ میں آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہو ،سرمایہ دارانہ اور مغربی نظام ہو ،ایسی جمہوریت کو وہ آزادی کی نیلم پری نہیں بلکہ جمہوری قبا میں ملبوس دیو استبداد سے تعبیر کرتے ہیں ؎
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین واصلاح ورعایات وحقوق طب
مغرب میں مزے میٹھیاثر خواب آوری
[خضرراہ]
ڈاکٹراقبال یہیں پر نہیں رکے اور مزید فرمایا ؎
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
٭ آئین ساز اسمبلی کا قیام :
کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز کے مطابق نومبر1946ء میں حصول آزادی سے پیشتر ہی قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی۔اس کے ارکان کو بالواسطہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیا گیا۔برٹش انڈیا کی 296نشستوں میں سے 211؍نشستوں پر کانگریس اور 73؍نشستوں پر مسلم لیگ کی فتح ہوئی۔اس طرح اسمبلی نے ایک خود مختار ادارے کی شکل اختیار کرلی جو اپنی مرضی کے مطابق اپنا پسندیدہ آئین وضع اختیار کرسکتی تھی۔اسمبلی کا پہلا اجلاس 9؍دسمبر 1946ء کو ہوا،11؍دسمبر1946ء کو ڈاکٹر راجندر پرشاد اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔14/15؍اگست 1947ء کی درمیانی شب میںآ ئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کرلیاگیا اوراس حیثیت سے انھوں نے جواہر لال نہرو کو ہندوستان کے اولین وزیر اعظم کا حلف دلایا۔ ان کی مجلس وزرا کے دوسرے اراکین کو بھی حلف دلایا گیا۔ اس کے بعد اسمبلی کا کام باقاعدگی سے شروع ہوا،آئین کو وضع کرنے کے لیے بہت سی کمیٹیاں قائم کی گئی تھیںاور ان کمیٹیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈاکٹر امبیڈکر کی چیئرمین شپ میں 19؍اگست 1947ء کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی۔فروری 1948ء میں اس قانون کا مسودہ (ڈرافٹ )شائع کیا گیا۔26؍نومبر 1949ء کو آئین کو منظوری دے دی گئی اور اس کا اطلاق 26؍جنوری 1950ء کو ہوا۔1950ء سے اب تک اس آئین میں تقریباً92؍ترامیم ہو چکی ہیں۔
آئین ساز اسمبلی میں دوسرے اراکین کے ساتھ آئین سازی کے عمل میں مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبدالغفار خاں، محمد سعداللہ، عبدالرحیم چودھری، بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی شامل تھے۔ اس دستاویز پر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کیے۔ اسمبلی کا آخری اجلاس24؍دسمبر 1949ء کو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان کا اولین صدر جمہوریہ منتخب کرلیاگیا اور آئین کو26؍جنوری1950ء کو نافذ کردیاگیااور اس طرح ہندوستان کو ایک ’’مقتدر اعلیٰ جمہوری جمہوریہ‘‘ میں منتقل کردیاگیا۔
آزاد ہندوستان کا یہ آئین دنیا کے تمام دساتیر میں سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ اس میں دنیا کے بہت سے دساتیر کے بہترین نکات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ریاستی حکومتوں سے متعلق تفصیلات بھی واضح کردی گئی ہیں۔ اس میں بنیادی حقوق، بنیادی فرائض، ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصول، مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مابین تعلق، صدر جمہوریہ کے ہنگامی اختیارات، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ پبلک سروس کمیشن، الیکشن کمیشن، فائنانس کمیشن جیسے اہم اداروں کی تفصیلات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔
آئین میں ہندوستان کو ’’ریاستوں کی یونین‘‘ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے جس کا مطلب وفاقی طرز حکومت ہے۔ اس نظام حکومت میں ایک تحریری آئین کا ہونا لازمی ہے جس کے ذریعہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم عمل میںآ ئی ہے اور عدلیہ آزاد ہوتا ہے۔ ہندوستان ان شرائط پر پورا اترتا ہے۔ یہاں آئین نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے اختیارات کی وضاحت کردی ہے اور عدلیہ کو پوری آزادی عطا کی ہے۔ ویسے عام دنوں میں یہ وفاقی نظام حکومت کی حیثیت کا حامل ہے لیکن ہنگامی صورت حال میں یہ وحدانی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اسی لیے کچھ ماہرین اسے نیم وفاقی کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔آئین ہند ملک میں پارلیمانی طرز حکومت قائم کرتا ہے۔ اس کے مطابق عاملہ، مقننہ کے تئیں ذمہ دار ہے۔ مقننہ عاملہ پر نگرانی رکھتی ہے لیکن جب مقننہ عاملہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کردیتی ہے تو عاملہ کو مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ صدر جمہوریہ سربراہِ ریاست ہے جب کہ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہے۔ صدر جمہوریہ حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔
٭ہندوستانیوں نے جمہوری نظام کاانتخاب کیوں کیا؟
ہندوستان شروع سے مختلف حکمرانوں کی آماجگاہ رہا ہے ۔مختلف سلطنتوں نے اس ملک کے جغرافیہ پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں،یہاں کے باشندوں نے موروثی ،آمرانہ اورشاہانہ حکومتوں کے خدوخال دیکھے تھے،اوربرطانیہ کے قبضے کے بعد سے برطانوی پارلیمانی طرز حکومت کا مشاہدہ کررہے تھے، دراصل برطانوی سامراجیت کے دور میں ہندوستانی رہنما برطانوی پارلیمانی طرز حکومت سے متاثر تھے۔ تحریک آزادی کے زمانے میں انھوں نے برطانوی حکومت سے ہندوستان میں بھی اسی طرز حکومت کو رائج کرنے کے مطالبات کیے تھے۔ اسی لیے حصول آزادی کے بعد آئین سازوں نے ہندوستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آئین نے ہندوستان میں موروثی حکومت کی جگہ عوامی جمہوریہ قائم کیا ہے۔اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں مروجہ موروثی طرز حکومت کا خاتمہ ہوگیا اوراب ہندوستان کا صدر عوام کے ذریعہ منتخب شخص ہوتا ہے جس کی مدت کار 5؍ سال ہے۔ اسی طرح آئین نے وفاقی طرز حکومت کی تیسری شرط پوری کرتے ہوئے عدلیہ کو مکمل طور سے آزادی عطا کی ہے اوراسے آئین کا محافظ قرار دیا ہے اور بنیادی حقوق کی نگہبانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کو عدالتی نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے۔
٭آئین کے مقاصد:
آئین کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں:
(۱) اوّل یہ کہ کسی ملک کا طرز حکومت کیا ہے ۔
(۲) دوئم یہ کہ حکومت اور شہریوں کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ یعنی انہیں کون کون سے حقوق حاصل ہیں۔
دراصل ہرآئین اپنے ملک کے شہریوں کو کچھ حقوق عطا کرتا ہے۔ امریکہ، فرانس اور روس کے دساتیر نے ان حقوق کو درج کیا ہے، اسی لیے ہندوستان کے آئین سازوں نے بھی اپنے آئین میں 6؍ بنیادی حقوق عطا کیے جواس طرح ہیں:
(1) برابری کا حق (2) آزادی کا حق (3) استحصال کے خلاف حق
(4) مذہبی آزادی کا حق (5) تعلیمی و ثقافتی حق اور (6) آئینی چارہ جوئی کا حق
آ ئین کی چالیسویں ترمیم کے تحت ہندوستان کے قانون میں بھی شہریوں پر بھی چند بنیادی فرائض عائد کردئیے گئے۔اس قانون کے تحت ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ
(1) آئین کے مطابق عمل کرے۔ اس کے احکام، اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانہ کا احترام کرے۔
(2) ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ، اتحاد اور اس کی سا لمیت کا تحفظ کرے۔
(3) ملک کا دفاع کرے اور وقت ضرورت اس کے تئیں قومی خدمت سر انجام دے ۔
(4) عوام کے سبھی طبقوں میں اتحاد و اخوت کے جذبات کو فروغ دے اور خواتین کے تئیں تحقیر آمیز سلوک کو روانہ رکھے۔
(5) مخلوط ثقافت کی وراثت کی قدر کرے اور اس کا تحفظ کرے۔
(6) قومی ماحولیات کا تحفظ کرے اور اسے بہتر بنائے ۔
(7) سائنسی خراج، انسانیت چھان بین اور اصلاح کے جذبہ کو فروغ دے۔
(8) عوامی املاک کی حفاظت کرے اور تشدد کو ترک کرے۔
(9) افراد اور اجتماعی سرگرمی کے سبھی میدانوں میں برتری حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ مستقل طور سے حصولیابی کی بلندیوں کو چھوتی رہے۔
ان کے علاوہ آئین میں ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے تحت ملک کو ایک فلاحی ریاست سے ہمکنارکیاگیا ہے۔ شہریوں کو بالغ رائے دہندگی کا حق دیاگیا ہے۔ صدر جمہوریہ کوہنگامی صورت حال سے مقابل ہونے کے لیے اختیارات دئیے گئے ہیں اور ترمیم و تنسیخ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اب تک آئین میںبہت سی ترمیمات ہوچکی ہیں۔ یہی وہ تمام خصوصیات ہیں جوہمارے آئین کو دوسرے ملکوں کے دساتیر میں ممتاز مقام کی اہل بناتی ہیں۔ہندوستانی دستور کی بنیاد جمہوریت پر ہے اور ہر شہری کو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اور یہ دستور ہندوستان میں رہنے والے ہر باشندے کو اپنے اپنے مذاہب اور عقائد کے اعتبار سے اپنے مذہبی عقائد اور اعمال کو بجا لانے کی کھلی چھوٹ دیتاہے جوہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ہر ایک کو (فریڈم آف اسپیچ اینڈ اکسپریشن)اپنی بات کہنے اور اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مذہبی عقائد کو مجروح کرنے کی قطعا ًاجازت نہیں دیتا ہے۔
٭ بھارت کے آئین کی خصوصیات :
جمہوری دستورکی چند درج ذیل خصوصیات ہیں:
(1) آئین ہندنے ہندوستانی عوام کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کے لیے خود مختار بنایا ہے اور ہندوستانی عوام کوسرچشمۂ اقتدار و اختیار مانا ہے، جسے صاف الفاظ میںدستورکی تمہیدمیں بیان کر دیا گیا ہے۔
(2) دستور نے پارلیمانی طرزکی جمہوریت کے سامنے کابینہ کواپنے فیصلے، قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لیے جواب دہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت‘‘ میں پرو دیے گئے ہیں۔
(3)جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کابھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، دستورکی 42؍ ویں ترمیم کی روسے اسے ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔
(4) مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا ئے گا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پور ا موقع ملے گا۔
(5) آئین کی رو سے ہر ہندوستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔
(6) ہر شہری کو آزادیِ رائے، آزادیِ خیال اور آزادیِ مذہب حاصل ہے۔
(7)اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علاحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب، تمدن، زبان کو قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں۔ اس غرض کے لیے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کے لیے مجبورنہیں کیا جا سکتا، جو کسی مذہب کی تبلیغ و اشاعت پر خرچ کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اوقاف، مساجد، مدارس کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ اسی طرح شخصی آزادی کاتحفظ، متعدد دفعات کے ذریعہ کیا گیا ہے۔
(8) قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کسی شخص کو صرف اسی وقت سزادی جاسکتی ہے کہ لگایاگیا الزام، قانون کی نگاہ میں جرم بھی ہو۔ چنانچہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے اورصفائی پیش کیے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔
(9)یہ وفاقی بھی ہے اور وحدانی بھی۔
(10)اندرونی طور پر لچیلا پن تاکہ نوعیت کے اعتبار سے ترمیم کی جا سکے۔
(11)ہندوستانی آئین میں بنیادی حقوق اور آئینی چارۂ کار کا حقوق کے مکمل تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ۔
(12)بھارت کے آئین میں عدالتی نظر ثانی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا بہترین امتزاج ہے ۔
(13)بالغ راے دہی کا حق۔
(14)پارلیمانی طریقۂ حکومت۔
(15)بین الاقوامی امن وسلامتی کا فروغ۔
(16)دنیا کا سب سے طویل آئین ۔