دو سو سے زائد افراد کی شرکت،اہم اداروں کو ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا
ممبئی : ممبئی کے اسلام جمخانہ میں معیشت میڈیا کے دس سالہ سفر کی تقریب کی مناسبت سے آٹھواں کل ہند تجارتی و معاشی اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے دو سو سے زائد افراد نے شرکت کی جبکہ اہم کمپنیوں کو ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں ہند نژاد امریکی سرمایہ کار مشہور تاجر فرینک اسلام نے کہا کہ ’’دانش ریاض کا شکریہ کہ انہوں نے اس خاص تقریب پر مجھے دعوت دی اور اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ آپ کی قائدانہ صلاحیت اور ویژن کا بھی شکریہ کہ آپ نے معیار کو بلند رکھا اور ایک مثال قائم کی۔ آپ تبدیلی کے نقیب ہیں اور تاریک راہوں کےمشعل بردار ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’جب دانش نے مجھے اس پروگرا م میں شرکت کی دعوت دی تو میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کو قبول کرلیا اور اس کی تین وجوہات ہیں؛
1.معیشت نے جس چیز پر فوکس کیا ہے یعنی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی ضروریات وہ انتہائی اہم ہے۔اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تاجر ہندوستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کررہےہیں۔ ان میں ملک اور دنیا کا نقشہ بدل دینے کی صلاحیت اور طاقت دونوں ہے۔ 2.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس اجلاس میں صرف اقلیتوں کے بزنس پر بات ہوگی کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی انہیں لوگوں میں سے ہوں جو ہر طرح کےتعصب اور دشمنی کا شکار ہوا لیکن یہ تمام چیزیں ایک کامیاب تاجرکے سفر کو کھوٹا نہیں کرسکیں۔3.یہ ایوارڈ پروگرام ان لوگوں کے لیے ہے جونمایاں کام کرتے ہیں لیکن ان کی قابل ذکر پذیرائی نہیں ہوتی اور وہ غیر مرئی رہتے ہیں۔یہ کچھ بنیادی وجوہات تھیں جو میرے یہاں آنے کا سبب بنیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’قبل اس کے کہ میں اپنے اصل موضوع پر آؤں میں ان ایوارڈ یافتہ گان سے کہنا چاہوں گا کہ یہ دن آپ کا دن ہے۔ میں ان تمام لوگوں کو جو آج شام یہاں ایوارڈ حاصل کر رہے ہیں کومبارک پیش کرتا ہوں۔آپ خدائی کام کررہے ہیں ۔ آپ عوامی کام کررہے ہیں۔وہ لوگ بھی جنہیں آج یہاں ایوارڈ نہیں مل رہا ہے ، یہ دن ان کا بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس اجلاس میں عنقریب آپ کو بھی اسی طرح نوازا جائے گا۔ سامعین میں سے وہ لوگ جو تجارت کے شعبہ سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں ان سے میرا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ آئیے۔ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ آپ کے دیگر ساتھیوں کو آپ کی ضرورت ہے اور ملک کو بھی آپ کی ضرورت ہے‘‘۔اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یقینا ملک اور دنیاکو اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تاجرانہ قیادت اور شہری حقوق کے کاموں میں شراکت ہے۔ میری گفتگو پانچ حصوں میں تقسیم ہے:پہلا حصہ: تاجر اور تجارت،دوسرا حصہ: تجارتی سفر،تیسرا حصہ: تاجرانہ قیادت،چوتھا حصہ: شہری کاموں میں شراکت،پانچواں حصہ: اقلیتوں کےامپاورمنٹ پر توجہ
انہوں نے کہا کہ ’’مزید کسی تاخیر میں اب پہلے حصے یعنی تاجر اور تجارت پر بات کروں گا۔پہلا حصہ: تاجر اور تجارت
تاجر کون ہے اور وہ کیا ہے؟ اس کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں۔ جس تعریف نے مجھے سب سےزیاد متاثر کیا اس کے مطابق” ایسا شخص جو منظم کرتا ہے، منصوبہ بناتا ہےبطور خاص کسی بزنس کا، عام طور پر نفع ونقصان کی معقول امید کے ساتھ۔”
مجھے یہ تعریف پسند ہے کیوں کہ یہ ہر طرح کے کام پر محیط ہے اور یہ تعریف صرف بزنس تک ہی محدود نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی طرح کےکاروبار یا تنظیم میں مہم جو ہوسکتا ہے بشرط کہ وہ ان ذمہ داریوں کو نباہنے کا ارادہ کرے اور مذکورہ کام یا کام کے جس حصہ کی اسے ذمہ داری دی جائے، کی سمت متعین کرنے میں قائدانہ کردا ر ادا کرے۔ اور اس اجلاس کے ایوارڈ اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کسی کو نامزد کرنے کے لیے کئی زمرے دیئے گئے تھے مثلا جواہرات و زیورات، میڈیکل اور حفظان صحت، مینجمنٹ کالج/ ادارہ، بلڈرس اینڈ ڈیولپرس اور سائنٹفک ٹکنالوجی۔اور مختلف میدانوں کے تاجروں کی ہاں پر موجودگی اس حقیقت پر گواہ ہے۔اس سلسلے میں Entrepreneurship کی ایک تعریف جو کہ ہارورڈ بزنس اسکول کے پروفیسر ہوورڈ اسٹیونسن نے تقریبا 40 سال پہلے کی تھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا ” Entrepreneurship کامطلب موقع کی تلاش اور تعاقب یہ دیکھے بغیر کہ فی الحال کتنے وسائل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں Entrepreneurship میں کافی وسعت ہے یہ لفظ محدود نہیں ہے۔
اب میں ان دونوں تعریفوں کو ملا کر ایک بناتا ہوں۔ دراصل یہ ایک ایسا خواب ہے جو ہمت دیتا ہے۔ اور Entrepreneur وہ ہوتا ہے جو بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے، خطرات کا اندازہ لگاتے ہوئے کوئی کاروبار شروع کرتا ہے اور مستقبل کے لیے ملازمت کےمواقع پیدا کرتا ہے۔اور آپ سب نے یہ منازل طے کی ہیں اس لیے یہاں آج موجود ہیں۔ آپ تمام بے خوف تاجر ہیں۔ ایک تاجر کے طور پر آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ تاجر بننا اپنے آپ میں ایک سفر ہے۔ آپ نے سفر شروع کیا جو ابھی تک جارہی ہے۔
دوسرا حصہ: تجارتی سفر
ہوسکتا ہے کہ آپ کے سفر میں یکسانیت لگے لیکن ہر سفر منفرد ہوتا ہے۔ گفتگو کے دوسرے حصہ میں آپ سےاپنےسفر کے بار ے میں کچھ بات کروں گا۔
یہ چھ مرحلوں پر مشتمل ہے۔
• اچھی تعلیم کا حصول
• انٹرن شپ کرنا
• تاجر بننا
• ایک مضبوط اور ذہین ٹیم بنانا جو میرےجیسے ویژن اور خیالات کی حامل ہو
• عزم مصمم ، جہد مسلسل
• تجربہ حاصل کرنا
میں ہندوستان سے امریکہ اپنے امریکی خواب کی تعبیر ڈونڈھنے گیا تھا۔میں نے یونیورسٹی آف کولوراڈو سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ اس سے مجھے وہ علم حاصل ہوا جو کوئی بزنس شروع کرنے کے لیے ضروری تھا۔ جب مجھے اڈوانس ڈگری بھی مل گئی اس وقت میں کسی بزنس کو ذاتی طور پر شروع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ بزنس کیسے کیا جاتا ہے۔ کالج جانے سے پہلے مجھے بزنس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اپنا خود کا بزنس شروع کرنے سے پہلے تجربہ ضروری ہے۔ لہذا میں نے واشنگٹن ڈی سی کی انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ کی دو بڑی کمپنیوں کےساتھ حکومت کے ساتھ بزنس کے نشیب وفراز سمجھنے کے لیے تقریبا ایک دہائی تک کام کیا ۔اس کے ذریعہ مجھے معلومات اور زمینی حقائق کا علم ہوا جو میرے اپنے بزنس شروع کرنے کے لیے ضروری تھیں۔
1994 میں اپنی انٹرن شپ کے بعدمیں نے QSS گروپ کو 45ہزار ڈالر میں خرید لیا۔جب میں نے کمپنی خریدی تو اس وقت اس میں صرف ایک ملازم یعنی میں تھا لیکن 13سال کی مدت وہ کمپنی مینجمنٹ ٹیم کےبشمول 3000 ملازمین پر مشتمل ہوگئی جس کی آمدنی تقریبا 300 ملین ڈالر تھی۔یہ کاروبار کی ایک شاندار اٹھان تھی۔ اور اس کامیابی کے حصول میں میرا کردا ر تھا۔ لیکن جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیسے کامیا ب ہوا تو میرا جواب ہوتا ہے کہ میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ وہ جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوپایا۔ یعنی ذہین سینئر مینیجر پر مشتمل میری ٹیم نے ہر کام میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بزنس میں کامیابی ٹیم پر مشتمل ایک گیم ہے۔
قبل اس کے کہ میں اپنی تقریر کے اس حصہ کو ختم کروں مجھے صبر اور استقامت پر ضرور بات کرنی چاہیے۔ یہ دونوں کسی بھی کام میں جمے رہنے کے بنیادی اجزاء ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھے کیوں کہ یہ میرا سفر کسی بالکل سیدھی سمت میں نہیں تھا۔ یہ ہمیشہ آسان بھی نہ تھا۔ اور آخری فیصلہ موہوم تھا۔ ابتدائی سالوں میں بہت سارے مسائل سے جوجھنا پڑتا تھا۔ مثلا: کیا مجھے یہ کنڑیکٹ مل پائے گا؟ کیا مجھے بینک لون ملے گا؟ کیا میں ملازمین کی تنخواہ دے پاؤں گا؟
کچھ ایسے دن بھی تھے جب 24 گھنٹہ کام کرنا پڑا اور راتوں کی نیند حرام کرنی پڑی۔بزنس کے کئی سالوں تک میں نےہفتہ کے ساتوں دن کام کیے۔ جس چیز نے مجھے اس سفر پر گامزن رکھا وہ میرا خود پر اور پنے آس پاس کے لوگوں پر بھروسہ تھا اور وہ مواقع جن کو میں نے امریکی خواب کے تحت پایا تھا۔کامیابیوں نے مجھے آگے بڑھنے کا راستہ سکھادیا۔ اسی طرح ناکامیوں نے مجھے یہ سکھایا کہ کبھی پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔جب سے میں نے اپنا بزنس شروع کیا تب سے میں یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ مجھے آگے بڑھنا ہے اور اگر میں آگے نہیں بڑھ سکا تو میرا سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ لہذا، ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔سال 2007 میں میں نے اپنی کمپنی پیروٹ سسٹم کو فروخت کردیا۔ اور اس سے میں نے پرائیوٹ فاؤنڈیشن قائم کیا جس سے امریکہ ، ہندوستان اور دنیا کے مختلف علاقوں میں تعلیمی ، تہذیبی اور ثقافتی میدانوں میں مختلف کاموں میں مدد کی جاتی ہے۔
یہ میرے سفر کی روداد تھی اور اب میں ایک نئے مرحلے میں ہوں اور وہ ہے مخیرانہ سرگرمیاں۔ اور میں پوری ایمانداری کے ساتھ آپ سے عرض کررہاہوں کہ میری زندگی کا یہ سب سے کارآمد وقت ہے۔
تیسرا حصہ: تاجرانہ قیادت
میں نے اپنے پورے اس سفر میں صحیح کام کرنے کی کوشش کی۔ ایک پرانی امریکی کہاوت ہے کہ مینیجر چیزوں کو صحیح کرتے ہیں اور لیڈر صحیح کام کرتے ہیں۔ یہ ایک امتیازی چیز ہے جس پر میں اپنی گفتگو میں آگے زور دینا چاہتاہوں جس میں مختصرطور پر تاجرانہ قیاد ت پر بات کی جائےگی۔ تاجرانہ قیادت کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے ہر مرحلہ میں صحیح کام کیا جائے۔ تاجرانہ قائد وہ ہوتا ہے جو اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ تاجرانہ قائد بننا ایک سفر ہے اور اس سفر کو بامقصد بنانے کے لیے وقت درکار ہے اور لمبے سفر کو کانٹ چھانٹ کر چھوٹا نہیں کرنا ہے۔ میرا پورا یقین ہے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ لیڈر بنائے جاتے ہیں پیدائشی نہیں ہوتے۔
میری اہلیہ ڈیبی اور میرا ماننا ہے کہ تاجرانہ قیادت ہندوستان کے مستقبل کے لیے مرکزی اہمیت رکھتی ہے ۔ اسی لیے ہم نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فرینک اینڈ ڈیبی اسلام مینجمنٹ کمپلکس کو فنڈ کرنے کافیصلہ کیا۔ اس موقع سے میں نے کہا تھا:
ہماری اس مینجمنٹ کمپلکس کو بنانے میں بہت زیاد ہ دلچسپی اس لیے ہے کیوں کہ اے ایم ایو کے اندر یہ ایک جگہ ہوگی جہاں تجارتی لیڈر تیار کیے جائیں گے۔ جن کی نت نئی سرگرمیوں سے ہندوستان اور دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کے لیے ملازمت اور نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ میں جب اس کمرے میں آپ تمام سامعین کی طرف دیکھتا ہوں ، گرچہ اس میں سے اکثر کی تعلیم اے ایم یومیں نہیں ہوئی ہے ،لیکن مجھے پتہ ہے کہ میں بہت سارے تجارتی قائدین سے گفتگو کررہا ہوں۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کیوں کہ اجلاس میں تاجروں کو ایوارڈ حاصل کرنےکے لیے جن خصوصیات کا ہونا ضروری تھا ان میں:
ملازمت کے مواقع پیدا کرتے ہوں
ملک و ملت کی فلاح وبہبو دکے لیے سرگرم رہتے ہوں
حکومت ہند کی طرف سے طے کیےگئے اصول وضوابط پر عامل ہوں
معاشی اور سماجی مساوات
رواداری، انصاف اور حقوق انسانی
یہ خصوصیات یقیناصحیح اور اچھا کام کرنے سے متعلق ہیں۔ یہ ایک ایسے تجارتی لیڈر سے تعلق رکھتی ہیں جو سماجی مسائل میں بھی دلچسپی رکھتا ہو۔
چوتھا حصہ: شہری کاموں میں شراکت
اب یہاں سے میں اپنی گفتگو کے چوتھے حصے پر بات کروں گا۔ تجارتی لیڈر شپ کا ایک پہلو شہر ی اور سماجی کاموں میں دلچسپی اور شرکت ہے۔ اس طرح کے کاموں میں دلچسپی اور حصہ لینا ہم ان تمام کے لیے ضروری ہے جو ہندوستان اور دنیا کےمستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
شہر ی کاموں میں حصہ لینے کی سب سے اچھی تعریف جو میں نے اب تک دیکھی وہ Civic Responsibility and Higher Education نامی کتابوں کے ایک مجموعہ کو پڑھنےسے حاصل ہوئی۔ اس تعریف کے مطابق:
شہر ی کاموں میں حصہ لینے سے مراداپنی کمیونٹی کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے کام کرنا اور اس تبدیلی کے لیے علم ، ہنر، اقدار اور ترغیب کے امتزاج سے کام کرنا۔اس کا مطلب کسی بھی کمیونٹی کے معیارزندگی کو سیاسی اور غیر سیاسی دونوں عمل سے بلند کرنا ہے۔
میرے حساب سے شہری اور سماجی کاموں میں شمولیت کی پانچ بنیادی شکلیں ہیں:
انفرادی¬ ــ ذاتی طور پر اچھے رہنا اور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا
تنظیمی ــ گروپ کی کامیابی کے لیے کوشش کرنا (بزنس ، مذہب، تنظیم) جس سے بھی تعلق ہو
سیاسی ــ ان سرگرمیوں میں حصہ لینا جس سے حکومت کی ساخت اور نوعیت تشکیل پاتی ہو
کمیونٹی ــ اپنا محلہ اور اپنی دنیا جہاں ہم رہتے ہیں کو بہتر رہنے کی جگہ بنانے کے لیے مل جل کر کام کرنا
سماجی ــ انصاف اور سب کے لیے یکساں برتاؤ اور مواقع کی تبلیغ کرنا
جب میں نے اپنی تعلیم شروع کہ اور پھر اپنا بزنس شروع کیا یا زندگی کے دوسرے مرحلوں کا آغاز ہوامیں نے ان کو شہری اور عوامی کاموں میں شمولیت اور شرکت کے طور پر نہیں دیکھا۔ اب جب میں واپس مڑکر دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایسا تھا اور یقینا تھا اور ہم تمام اس زمین پر ایک اعلیٰ مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
پانچواں حصہ: اقلیتوں کےامپاورمنٹ پر توجہ
میں اپنی گفتگو کے آخری حصہ میں مقصد پر بات کرنا چاہوں گا۔ میں ذاتی طور پر بہت سارے رفاہی کاموں میں شریک ہوں ۔ بلکہ میں اس کو امریکہ ، ہندوستان اور دوسرے بہت سارے مقامات پر ‘سرمایہ کاری’ کہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ضروریات بہت ہیں لہذا یہ زیادہ اہم نہیں ہے کہ ہم کہاں اور کیسے اپنے آپ کو شہری اور عوامی کاموں میں شریک کرتے ہیں ۔ اہم یہ ہے کہ ہم اس کام کو کرنے لگیں۔ مجھے پتہ ہے کہ اس اجلاس میں ایوارڈ پانے والےافراد پہلے سے ہی اس کارخیر کو کررہے ہیں۔ لیکن میں اپنی گفتگو کے آخر میں آ پ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں اور وہ درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی توجہ کو اقلیتوں کے امپارومنٹ پر اور زیادہ مرکوز کرنے کا عزم کریں۔ امپارومنٹ کئی طرح سے ہوسکتا ہے۔لیکن میرا خیا ل ہے کہ اس کےبنیادی اجزائے ترکیبی جنہیں میں نے 3-E’s کا نام دیا ہے وہ ہے تعلیم ، ملازمت اور ترقی۔ تعلیم اور ملازمت تو واضح ہیں۔ میں ترقی کے تصور کی تھوڑی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
ترقی سے اقلیتی فرقہ کا فرد جو تعلیم یافتہ ہے اور برسر روزگارہے سےاس بات کی بہتر امید کی جاسکتی ہے کہ اسے ادراک ہوگا کہ کوئی چیز ناممکن نہیں ہے اور تعلیم اور ملازمت اس سفر کی بنیاد ہیں۔ یہاں پر موجود بزنس لیڈر اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہزاروں میل کی مسافت ایک قدم آ گے بڑھانےسے شروع ہوتی ہے۔یہ بات مجھے معلوم ہے اور آپ سب بھی اس سے واقف ہیں کہ آپ سب نے تبدیلی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو کھپایا ہے۔ آپ تبدیلی کے نقیب ہیں۔ اسی لیے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مسلسل ضرورت مندوں کو دینے والے بنیں ،لینے والے نہ بنیں۔ ان کی مدد کریں اور ان کو تعلیم، ملازمت اور ترقی کے ذریعہ تقویت بخشیں۔
ہاروڑ بزنس اسکول کے پروفیسرکلیٹون کرسٹنسن کے مطابق “میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ خدا جس میزان پر میری زندگی کا تجزیہ کرے گاوہ پیسہ نہیں ہوگا بلکہ وہ تما م افراد ہوں گے جن کی انفرادی زندگی پر میرے ذریعہ کچھ اثر ہواہو۔ ” وہ اپنے ایم بی اے کے طلبہ سے کہتے تھے “آپ نے ذاتی طور پر جو اہمیت حاصل کی ہے اس کو چھوڑ دیجئے ۔ آپ کو اس بات کی پرواہ ہونی چاہیے کہ آ پ نے کتنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنایا ہے۔”
میرا خیال ہے پروفیسر کرسٹنسن نے بالکل صحیح اور دو ٹوک بات کہی ہے۔ اور اسی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ اچھے سے تو کام کیجئے ہی لیکن اچھا کام کیجئے۔ آپ اچھے بزنس کیجئے تاکہ ہندوستان کی دوسری اقلیتوں کے لیے بہتری پیدا کرسکیں۔ دوسری اقلیتوں میں شراکت اور واپسی کی بنیاد پر سرمایہ کاری کیجئے۔ اپنی کامیابی کو ملک کی کامیابی بنائیے۔
میں اس موقع سے میڈیا کے رول پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور کمیونٹی کی ترقی کے فریم ورک کی تعمیر میں میڈیا کو ایک سیڑھی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے بزنس اور کاروبار کی کامیابی اور ناکافی کے اس دورانیے میں میڈیا کی بھی سرگرم شراکت داری ضروری ہے۔
میری تمنا ہے کہ آپ اپنے اس بزنس میں اور اس سفر میں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ آپ کے ساتھ گفتگو کرکے مجھے بہت خوشی ہے۔ آپ تمام کے لیے نیک خواہشات۔ اللہ آپ سب پر اپنا کرم فرمائے۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...