صحت مند معاشرہ کے لئے مثبت سوچ کو پروان چڑھانا انتہائی ضروری ہے

اتحاد بلڈرس اینڈ ڈیولپرس کے منیجنگ پارٹنر شبیر خان
اتحاد بلڈرس اینڈ ڈیولپرس کے منیجنگ پارٹنر شبیر خان

ممبرا میں تجارت کے ساتھ تعلیم و تعلم،اسپورٹس و مارشل آرٹ کو فروغ دینے والے شبیر خان مذکورہ علاقے کو مثالی علاقہ بنانے میں کمر بستہ ہیں۔ معیشت کے مدیر دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں وہ ان تمام گوشوں کو کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں جو یہاں کے نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا کرسکے۔

تھانے سے آتے ہوئے اگر آپ نے ہائی وے کا راستہ اختیار کیا ہو توممبرا کی سہیادری پہاڑیوں کانظارہ کرتے ہوئے جیسے ہی کوسہ کی طرف مڑیں گے ٹی جنکشن سے پہلے ہی آپ کی نظر ایس کے ریسیڈنسی کی خوبصورت عمارت پر پڑے گی اور چند منٹ کے لئےہی سہی آپ کی گاڑی کی رفتار ضرور کم ہوجائے گی۔پہاڑی کے دامن میںہرے بھرے باغیچہ کی ٹھنڈی ہوائیں ایسی فرحت عطا کریں گی کہ اگر آپ فلیٹ کے خریدار ہوں تو اتحاد بلڈرس کے آفس میں جانا اپنی اولین ضرورت محسوس کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ تھکے ماندے ہوں اور محض دو پل سکون کے گذارنے کے لئے آفس میں چلے گئے ہوں تو بغیر کچھ دریافت کے فوری طور پر ایک گلاس پانی اور ایک کپ چائے سے آپ کا خیر مقدم کیا جائے گااس کے بعد ہی کوئی آپ سے دریافت کرے گا کہ آپ کے آنے کا مقصد کیا ہے۔دراصل اعظم گڈھ کی یہی وہ میزبانی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔اور اسی میزبانی نے شبیر خان کو ممبرا میں ممتاز کیا ہے اور لوگ اتحاد بلڈرس کے ساتھ اپنے رشتے کو استوار کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔
دراصل اترپردیش کے مردم خیز خطہ اعظم گڈھ کے گوچھاں گائوں میں ۱۹۶۹؁ کو سراج الدین خان کے گھر آنکھیں کھولنے والے شبیر خان نے زندگی کی ان تمام صعوبتوں کو برداشت کیا ہے جو متوسط طبقے کے حصہ میں اکثر آتا ہے۔والد محترم نے پان کی دکان کھولی تو سراج بھائی پان والے سے مشہور ہوئے اور اپنی اسی آمدنی سے انہوں نے پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں کی پرورش کی ۔شبیر خان کہتے ہیں ’’والد محترم کو علم سے بڑا لگائو تھا اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے وہ ہرجتن کیا کرتے تھے۔اپنے تمام بچوں کو جہاں انہوں نے حافظ ،عالم ،مفتی بنایا وہیں عصری تعلیم بھی دلوائی ۔لہذا جب میں ممبئی آیا تو ابتدائی تعلیم ناگپاڑہ میونسپل اسکول میں حاصل کی اور پھر صابو صدیق میں داخل ہوگیا۔سول انجینئرنگ میں تعلیمی سلسلہ جاری تھا لیکن تعلیم کا شوق ہوتے ہوئے علاقائی روایات کی پاسداری میں ۲۶ جنوری ۱۹۹۰؁ کو میری شادی کردی گئی اور پھر کسب معاش کے لئے سعودی عرب چلا گیا اور پھر۱۴،۱۵ برس گذارنے کے بعد ۲۰۰۶؁ میں ممبئی واپس آگیا‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اعظم گڈھ کے مکینوں میں خلیجی ممالک میں زندگی گذارنے کا بڑا شوق پایا جاتا ہے ۔خلیجی ممالک کی نوکریاں اس خطے کے لوگوں کو بڑا راس آتی ہیں بہت کم لوگ ہیں جو وہاں کی ملازمت سے ناطہ توڑ کر اپنی سرزمین پر واپس لوٹتے ہوں اور اپنا کاروبار شروع کرتے ہوں۔ شبیر خان کہتے ہیں ’’میری ملازمت کا آغاز بطور لیبر ہوا تھا اور بعد میں مجھ پر دوسری ذمہ داریاں ڈالی گئیں۔دراصل جب میں نے کام کا آغاز کیا تو خواہش یہ تھی کہ بہتر سے بہتر کام کروں اور اچھا معاوضہ حاصل کرلوں لیکن میرےکام نے جب لوگوں کو اطمینان بخشنا شروع کیا تو میری استعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا ،لوگ مجھ پر مزید ذمہ داریاں ڈالنے لگے اور بالآخر مجھے سیلس ڈپارٹمنٹ میں بھیج دیا گیا۔اس وقت میری تنخواہ تقریباً ۹۰۰۰ہزار ریال تھی۔زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں ۔لیکن اچانک ذہن میں یہ خیال آیا کہ جب میں غیر ممالک میں جہاں کی زبان ،تہذیب ،طرز معاشرت جدا ہے ، رہ کر اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرسکتا ہوں تو پھر اپنے وطن میں کیوں نہیں؟یہ بات اس قدر اسٹرائک کی کہ میں وطن واپسی کے لئے پر تولنے لگا۔اور پھر ۲۰۰۶؁ میں فائنلی ممبئی واپس آگیا ۔ممبئی آنے کے بعددو ماہ تک میں مختلف تجارتوں کا جائزہ لینے لگا ۔چونکہ ممبرا میں میری سسرال تھی اور عادل خان اعظمی میرے بچپن کے دوست تھے لہذا یہ جگہ مجھے راس آگئی اور یہیں سے کاروباری زندگی کا بھی آغاز کردیا‘‘۔
کھرڈی روڈ میں گلوریس پارک تعمیر کرنے والے شبیر خان معیشت سےکہتے ہیں ’’ممبرا میں پہلا کام مجھے روتاڑا مارکیٹ کو ڈیولپ کرنے کا ملا تھا جو میری آنے والی زندگی کا اسٹارٹ اپ تھا۔پھر مکانات کی تعمیرات کا کام شروع کیااور ۲۶جنوری ۲۰۱۷؁ کوکھرڈی روڈپرانتہائی خوشنما گلوریس پارک تعمیر کیا جس کی لوگ مثال پیش کرتے ہیں۔‘‘یقیناً ایک کم آباد علاقے میں انتہائی پر فضا پروجیکٹ کی تکمیل نے شبیر خان کے حوصلے کو مزید بلند کیا اور انہوں نے فوری بعد ہی ایس کے ریسیڈنسی کا کاروبار سنبھال لیا۔
تعلیمی میدان میں السراج ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی صدارت ہو یا العصر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی سرپرستی ، کھیل کے میدان میں دی لیجنڈ آف آل مارشل آرٹس ایسو سی ایشن ہو یا ورلڈ بوڈو مارشل آرٹ کا زمام کار ان تمام کاموں کے ساتھ شبیر خان ٹی آر ایف روٹری کلب آف ممبرا الیٹ کے بھی صدر ہیںاور خاص حلقوں میں اپنی علحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ممبرا میں کھیل کود کو فروغ دینے کے مزاج پر گفتگو کرتے ہوئے معیشت سے کہتے ہیں’’بچپن میں مجھے بہت کچھ کھیلنے کی خواہش تھی لیکن ان خواہشات کی تکمیل کوئی نہیں چاہتا تھا اور میں اپنی خواہشات کو دبائے پروان چڑھتا گیا ایسے میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر کسی کے اندر کوئی صلاحیت ہے تو اسے پروان چڑھانا چاہئے کیونکہ میرا ماننا ہے کہ صحت مند معاشرہ کے لئے صحت مند انسان کی ضرورت ہےاور صحت مندی کے لئے ورزش کی ضرورت ہے لہذا جب آپ کھیل میں سرگرم ہوتے ہیں تو جسمانی طور پر صحت مند ہوتے ہیں اور پھر مثبت سوچتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ کسی پر کوئی چیز نہ تھوپی جائے بلکہ جس کا جو شوق ہو اس شوق کو پروان چڑھایا جائے۔اس کی خوبیوں کو تلاش کیا جائے اور اسے موقع فراہم کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ میں ممبرا اسپورٹس کلب کا نائب صدر ہوں اور ممبرا میں والی بال کو بھی فروغ دے رہا ہوں‘‘۔
تعلیمی ترقی،جسمانی ورزش کے ساتھ شبیر خان سماجی ضرورتوں کا بھی پاس و لحاظ رکھتے ہیں ۔مسلمانوں کے بیچ پولس و انتظامیہ کی جو شبیہ ہے اسے پبلک فرینڈلی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔جبکہ پولس والوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا کہ مسلم قوم کے ساتھ بھی بہتر سلوک پولس و انتظامیہ کی ذمہ داری ہےماحول کو چست درست رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔شبیر خان کہتے ہیں’’یہ ۲۰۱۴؁ کی بات ہے کہ جب میں پولس فورس میں تعینات مختلف عہدوں کے ذمہ داران کے ساتھ ملا تو محسوس ہوا کہ ان کے مسائل حل کرنا بھی ہماری اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی دوسروں کی، لہذا میں نے پولس میراتھن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کو قریب سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ان کے مسائل کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہ ایک مستقل کام ہے جس میں ہمیں ہمیشہ حصہ لینا چاہئے لہذا افطار پارٹی ہو یا کسی اور طرح کی کوئی تقریب ہم ان کے ساتھ ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی شخص کوئی نیک کام کرتا ہے تو اس کی تشہیر بھی چاہتا ہےلیکن شبیر خان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اس سے کوسوں دوررہتے ہیں ۔ممبرا میںاس وقت ایک بڑا سیاسی ہنگامہ قبرستان کے حوالے سے برپا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے مختلف کام کر رہی ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ شبیر خان ان ہنگامہ آرائیوں سے دور لوگوں کے لئےایک الگ قبرستان کو قابل استعمال بنا رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں ’’جب مجھے محسوس ہوا کہ ممبرا کوسہ کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور لوگوں کو قبرستان کے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا تو میں نے ڈائولہ گائوں میں آٹھ ایکڑ کے قبرستان کو قابل استعمال بنانے کی کوشش کردی۔اس وقت جبکہ اس عنوان پرسیاسی لڑائیاں چل رہی ہیں الحمد للہ ہمارا قبرستان قابل استعمال بن چکا ہے ،وہاں دو کمرے تعمیر کردئے گئے ہیں جبکہ پانی وغیرہ کے ساتھ گورکن کا بھی انتظام کردیا گیا ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت ترقی کی معراج پر پہنچتا ہے جب معاشرے میں موجود اچھے افراد اس کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔شبیر خان نے ممبرا کے بھلے کاموں میں جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اس سےیقیناً نئے ممبرا کو نئی شناخت ملے گی۔
ایس کے ریسیڈنسی : تکمیلی مراحل میں مکینوں کا منتظر
بجٹ فلیٹس کی اصطلاح گوکہ کارپوریٹ تعمیراتی کمپنیوں میں زیادہ مستعمل ہے لیکن اس کی عملی تعبیر صرف نوی ممبئی سے متصل ضلع تھانے کےشہر ممبرا کوسہ میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاںمڈل کلاس شہری بآسانی اپنی استطاعت کے مطابق رہائشی مسائل حل کر سکتا ہے۔ممبرا وکوسہ کی آبادی میں روز افزوں ترقی بھی دراصل اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ ممبئی و نوی ممبئی کے بعد شہر ممبرا ہی وہ واحد مسکن ہے جہاں مسلمان اپنی مکمل شناخت کے ساتھ اپنی جیب خرچ کے مطابق خوبصورت زندگی گذار سکتےہیں۔
دراصل گذشتہ تین چار برس کے عرصے میں جبکہ گرام پنچایت کی زمینوں پر تعمیری کام بند ہوچکا ہے اب صرف تھانے میونسپل کارپویشن کی اجازت سے بننے والے پروجیکٹس ہی لانچ ہو رہے ہیں۔لہذا ٹی ایم سی پروجیکٹ میں ان تمام اصول وضوابط کی پاسداری کی جاتی ہے جس کا کہ کارپوریشن نے التزام کیا ہو لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب ٹی ایم سی کے پروجیکٹ بھی ایسے آنے لگے ہیں جس میں مطلوبہ تمام قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کی جاتی اور محض تعمیری کام شروع کر دیا جاتا ہے لیکن اتحاد بلڈرس اینڈ ڈیولپرس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہمیشہ ضوابط کی پابندی کی ہے۔
اتحاد بلڈرس اینڈ ڈیولپرس کے منیجنگ پارٹنر شبیر خان معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ٹی ایم سی پروجیکٹ پر ممبرا کوسہ میں کام کرنے والے تمام بلڈرس اچھا کام کر رہے ہیں ۔مال ،مٹیریل و دیگر تعمیراتی کاموں سے متعلق نکات پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لگا سکتا لیکن وقت کی پابندی کے معاملے میں بیشتر افراد غچہ کھاجاتے ہیں اورپارٹی کو وقت پر اس کی چیز نہیں دے پاتے نتیجتاً اکثر بلڈرس کے خلاف وقت کے معاملے میںناراضگی پائی جاتی ہے۔لیکن الحمد للہ ہماری یہ پہچان ہے کہ ہم نے جو وقت متعین کیا ہے اور فلیٹ خریدنے والوں کو جو وقت دیا ہے اکثر و بیشتر اس سے پہلے ہی پروجیکٹ کی تکمیل کر لی ہے اورفلیٹ مالکان کو اس ضمن میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
اتحاد بلڈرس اینڈ ڈیولپرس کی طرف سے لانچ کئے گئے ایس کے ریسیڈنسی پروجیکٹ پر گفتگو کرتے ہوئے شبیر خان معیشت سے کہتے ہیں’’ مذکورہ پروجیکٹ ٹی ایم سی کے مکمل قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے ۔ ہم نے خریداروں کے لیے جو وقت متعین کیا تھا اس سے پہلے ہی اس کی تکمیل کردی گئی ہے اور لوگ باگ کے آنے کا انتظار ہے یہ تذکرہ ضروری ہے کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے علاقے کا ماحول انتہائی خوبصورت ہوگیا ہے۔‘‘شبیر کہتے ہیں’’ممبرا میں کام کرنے والے بلڈرس عموماً اپنی بلڈنگ اور اس سے حاصل ہونے والے منافع پر ہی نظریں گڑائے رہتے ہیں ،کسی پروجیکٹ کی وجہ سے اطراف پر کیااثرات مترتب ہوں گے اس پر توجہ نہیں دیتے، لیکن یہ ہماری پہچان ہے کہ ہم بلڈنگ کے ساتھ اطراف کے ماحول کو بھی خوبصورت بناتے ہیں۔‘‘
ایس کے ریسیڈنسی کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے شبیر کہتے ہیں’’ہائی وے سے متصل اس پروجیکٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ہائی وے ہے وہیں رشید کمپائونڈ سے پٹرول پمپ تک تقریباً تین کلومیٹر تک سروس روڈ تعمیر ہو رہا ہے لہذا جو لوگ ممبرا کی ٹریفک سے بچ بچا کر فوری طور پر گھر پہنچنا چاہتے ہوں ان کے لیے یہ جگہ انتہائی مناسب ہے ۔بلڈنگ کے سامنے ہی جہاں خوشنما پارک ہے وہیں ہم نے گارڈن کے لیے بھی اچھی خاصی جگہ رکھی ہے جہاں بچے شام کے وقت کھیل سکتے ہیں تو صبح کے وقت نرم نرم گھاس پر چہل قدمی کرکے اپنی صحت کو تندرست و توانا بنا سکتے ہیں‘‘۔
شبیر خان کہتے ہیں’’ایس کے ریسیڈنسی محل قوع کے لحاظ سے جہاں اہم ہے وہیں رعایتی قیمت پر عام خریداروں کی پہنچ کے اعتبار سے تعمیر ہوا ہے جب ہم نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تھا تو اس قدر جلد ہم اسے مکمل کر لیں گے یہ سوچا نہیں تھا لیکن الحمد للہ پروجیکٹ مکمل ہوچکا ہے ۔نہ صرف تمام فلیٹس فروخت ہوچکے ہیں بلکہ جو دوچار بچے ہیں اس کے لئے بھی لائن لگی ہوئی ہے۔اب ہم اسے جلد از جلد یہاں مکینوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خوبصورت ماحول میں اپنی زندگی کو خوشگوار بناسکیں‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *