وطن کی محنت تا عمر راس آتی ہے جبکہ باہر کمائے ہوئے پیسے وقت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں

اے ون موٹرس کے مالک امام الدین کو ان کی آفس میں دیکھا جا سکتا ہے : تصویر معیشت
اے ون موٹرس کے مالک امام الدین شیخ کو ان کی آفس میں دیکھا جا سکتا ہے : تصویر معیشت

A-1موٹرس ایکسسیریزاینڈ پارٹس کے مالک امام الدین شیخ وطن میں ہی محنت مزدوری کو اہم تسلیم کرتے ہیں دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں بیرون ملک کی نوکری پر اظہار نکیر کرتے ہوئے اسے زندگی کا لاحاصل تصور کرتے ہیں ۔پیش ہیںاہم تفصیلات

ممبرا سے نوی ممبئی کی طرف جانے والی سڑک سے جب دوستی کامپلیکس سے آگے بڑھیں گے تو شیل پھاٹا سے متصل کوثر ہوٹل کے بالمقابل جس موٹر گیرج کو دوام حاصل ہوا ہے اسے A-1موٹرس ایکسسیریزاینڈ پارٹس کے نام سے جانا جاتا ہے ۲۰۱۱؁ میں سعودی عرب سے واپسی کے بعد جب امام الدین شیخ نے مذکورہ جگہ کو خریدا تھا تو انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ آئندہ اس جگہ پر سیکڑوں گاڑیاں ریپئر کے لئے بھی آیا کریں گی۔اپنے گیراج کی آفس میں انتہائی سکون کے ساتھ آٹوموبائل کی تجارت میں مشغٖول امام الدین کی زندگی بہت پرسکون نہیں رہی ہے۔وطن سے محبت اور غریب الوطنی کی داستان بیان کرتے کرتے وہ اپنی خوشگوار زندگی میں ضرور دو پل ٹھہرجانا چاہتے ہیں جب انہوں نے سعودی ریال کی کھنک سے دنیا خریدنے کی ٹھانی تھی تو دنیا بھی مہربان ہوکر ان کی گود میں آبیٹھی تھی ،لیکن اچانک زندگی نے ایسا رخ بدلا کہ آنے والی زندگی ہی بدل ڈالی۔معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’میری پیدائش اعظم گڈھ کے مشہور قصبہ شیخو پورمیں ایک کسان گھرانے میں ہوئی ہے ۔والد محترم نصر الدین شیخ مرحوم دن بھر کھیت میں کام کرتے اور ہمیں رزق حلال کھلاتے تھےچونکہ انہیں تعلیم سے لگائو تھا لہذا علاقے کے مشہور مدرسہ جامعۃ الفلاح میں میرا داخلہ کرادیا گیا جہاں میں نے دسویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کی۔چونکہ ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں لہذا والد محترم نے تمام لوگوں کو زیور علم سے آراستہ کیا ہےیہی و جہ ہے کہ ایک بھائی معین الدین شیخ سول انجینئرمقیم حال سعودی عرب جبکہ دوسرا بھائی حشام الدین شیخ فلاحی تبوک سعودی عرب میں مقیم ہے۔ دسویں تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میری مسیں بھیگنے لگیں تو مایا نگری ممبئی یا د آنے لگی۔آخر والد محترم نے ۱۹۸۴ ؁ میں جبکہ میری عمر محض ۱۵برس تھی (۳۰۰)تین سو روپیہ دے کر ممبئی روانہ کردیا۔‘‘

امام الدین شیخ گیراج کے باہرکو اپنی گیراج کے باہر دیکھا جاسکتا ہے : تصویر معیشت
امام الدین شیخ کو اپنی گیراج کے باہر دیکھا جاسکتا ہے : تصویر معیشت

اپنی دلچسپ داستان کےدریچے کھولتے ہوئے امام الدین کہتے ہیں ’’ممبئی آنے کے بعد مدنپورہ میرا مسکن قرار پایا لیکن کچھ کرگذرنے کا شوق مجھے ہمیشہ بے چین کئے رکھتا تھا،میکنیکل کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور جوکھم بھرے کام کرنے کی کوشش کرتا۔دریں اثنا ۱۹۹۰؁ میں سعودی عرب کی زمین نے مجھے یاد کیا اور میرا دانا پانی سعودی عرب میں لکھ دیا گیا۔چونکہ سعودی عرب میں ریال ریوڑیوں کی طرح بٹ رہا تھا اور مجھے زیادہ سے زیادہ ریوڑیاں بٹورنے کا شوق تھا لہذا دل لگا کر محنت کرتا اور خوب پیسے کماتا ۔جو کچھ کماتا اپنے بیوی بچوں کے لئے وطن بھیج دیتا ۔پختہ مکان ،شاندار گھر کے ساتھ میں نے ایک بیٹے اور دوبیٹی کو زیور علم سے آراستہ کیا ۔انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی اور سماج میں قابل قدر لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا شعور عطاکیا۔‘‘ چونکہ سعودی عرب کی اکیس برس کی زندگی سے میرا دل بھر چکا تھا اور وطن کی یاد ،بچوں کا ساتھ اور دوستوں کی محبت مجھے اس بات پر آمادہ کر رہی تھی کہ میں اپنی سرزمین پر اپنا لوہا منوائوں لہذا ۲۰۱۱؁ میں میں وطن واپس آگیا۔خوش گمانی یہ تھی کہ میں نے ۲۱برس کی جو قربانی دی ہے اس کاگھر و خاندان سے صلہ ملے گا اور لوگ باگ مجھے ہاتھوں ہاتھ لیں گے لیکن ‘تمام آرزوئیں محض ارمان رہ گئیں اور میں کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔‘‘
یہ پوچھے جانے پر کہ ’’یہ مشاہدہ ہے کہ جو لوگ خلیجی ممالک میں زندگی گذار رہے ہوں وہ یہاں واپسی کے بعد ایڈ جسٹ نہیں ہو پاتے لہذا آپ نے اپنے آپ کو کیسے ایڈجسٹ کیا امام الدین کہتے ہیں ’’یہ سوال ہر اس شخص کو کچوکے لگانے والا ہے جو خلیجی ممالک میں پیسہ کما رہے ہوں دراصل جو لوگ باہر جا کر پیسہ کماتے ہیں وہ گھر والوں کے لئے محض اے ٹی ایم مشین بن جاتے ہیں ۔بچے ،بیوی،رشتہ دار،دوست و احباب بس یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ بہت پیسے کما رہا ہے لہذا اس کا کام یہ ہے کہ یہ ہماری خواہشات کو پورا کرے ۔لہذا بیوی کی فریاد،بچوں کی خواہشات ،دوستوں کا خیال ان تمام باتوں میں اس کی زندگی کا اتنا بڑا حصہ گذر جاتا ہے کہ جب وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے تو پھر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔یہ ایسا ہی ہے کہ جب تک اے ٹی ایم مشین کام کرتی ہے اور ضرورتمندوں کو پیسہ دیتی ہے لوگ لائن میں اس کے پاس کھڑے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی مشین کے کل پُرزے جواب دینے لگتے ہیں لوگ پھر اس کی طرف رخ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔‘‘
امام الدین کہتے ہیں ’’میرا ماننا ہے کہ آدمی اپنےوطن میں خواہ چنا ہی کیوں نہ بیچے وہ سکھ میں رہتا ہے لیکن باہر جاکر کام کرکے سونے کی ڈلیاں بٹور کرلانے والا کبھی سکھی نہیں رہتا لہذا اب میں لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ جس کو دین و دنیا کی دولت کمانی ہو وہ چنا بیچ کر وطن میں رہے شاید اس کو دین بھی مل جائے اور دنیا کی دولت بھی کما لے‘‘۔
ممبرا آنےاور سکونت اختیار کرنے کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’سعودی عرب سے واپسی کے بعدجب ممبئی تو آیا تو مختلف تجارت میں قسمت آزمائی کرنے لگابالآخر میرے قریبی دوست محمد نفیس نے میرا ساتھ دیا اور ۲۰۰۲؁ میں مجھے ممبرا میں آباد کرنے کی کوشش کی۔چونکہ میرے پاس پیسہ تھا،ہنر تھا اور تجربہ بھی تھا لہذا شیل پھاٹا پرموجودہ زمین خریدی اور پھر اپنا کاروبار شروع کردیا۔شروع میں چونکہ میں بھی نیا تھا لوگ بھی نئے تھے لہذا تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جیسے جیسے تعلقات وسیع ہوتے گئے اور لوگ باگ میرے کام سے مطمئن ہونے لگے تو پھر یہ سلسلہ چل نکلا اب الحمد للہ ہر طرح کا کام ہمارے یہاں ہوتا ہے محض فون پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ہمارے بچے گاڑیاں لے آتے ہیں اسے درست کرتے ہیں اور پھر وقت پر ڈیلیوری بھی دیتے ہیں۔ہمارے یہاں کیسٹرول کار کیئر کی خاص فروخت ہے ۔گاڑیوں کی ہر طرح کی ریپیرنگ،مینٹیننس،واشنگ ۔کل پرزے کی درستگی یعنی چارپہیہ گاڑی سے متعلق کوئی بھی مسئلہ ہو ہم اسے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

غموں سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
ناکامیوں پر مجھے رونا نہیں آتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *