مال و دولت سے محبت اور موت کا خو ف مسلمانوں کی بد حالی کی اصل وجہ

سید زاہد احمد علیگ
سید زاہد احمد علیگ

آج بھلے ہی دنیا کا ہر چوتھا انسان مسلمان کہلاتاہو لیکن بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو متاثر کرنے والی پالیسیوں اور فیصلوں میں مسلمانوں کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم اکثریت والے ممالک بھی اپنے اندرونی معاملات پر آزادانہ فیصلہ نہیں لے پا رہے ہیں۔ کہیں کسی پر کوئی اقتصادی پاندی عائد کر دی جاتی ہے تو کہیں کسی پر کسی بہانے سے جنگ چھیڑ دی جاتی ہے۔اس دور میں امت مسلمہ کا حال دیکھ کر سنن ابی داود کی وہ صحیح حدیث یاد آ تی ہے جسے حضرت شعبان ؓنے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ٹوٹ پڑ نے کے لئے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جیسے لوگ کھانے کے لئے دسترخوان پر ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں ‘‘ کسی نے پوچھا ، کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ’’ نہیں ، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے ، لیکن تم سیلاب میں بہنے والے جھاگ اور کوڑے کرکٹ کے مانند ہو گے (یعنی تمہارا کوئی وزن نہ ہوگا)، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا ، اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا ‘‘ کسی نے پوچھا ، اللہ کے رسولؐ ! وہن کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ’’ یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے ‘‘۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کیوں کر خود ہی اپنے بندوں پر وہن ڈالے گا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جہاں شیطان کو آزادی دی کہ وہ انسانوں کو بہکائے، وہیں اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے رسولوں کے پاس حکمت سے بھرے احکامات بھیجے۔ اس کے بعد جو کوئی بھی اللہ کے احکامات کے مقابلہ شیطان کی پیروی اختیار کرتا ہے تو ان کے کفر کی وجہ سے اللہ خود ہی ایک شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیتا ہے، جو اسے راہ حق سے روکتا ہے اور وہ شخص سمجھتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے۔ ( سورۃ الزخرف آیت ۳۶ تا ۳۷) اپنے بندوں کو وہن سے بچانے کے لئے اللہ نے قرآن میں کئی مقام پر یہ صاف کر دیا کہ اس نے دنیا کو آزمائش کے لئے اور آخرت کو جزا و سزا کے لئے پیدا کیا ہے ، ساتھ ہی بتا دیا کہ اس دنیا میں مال اور اولاد کےذریعہ تمہیں آزمایا جائے گا اور پھر واضح طور پر وہن سے بچنے کے لئے ہدایت نازل کیا کہ پس اے محمدﷺ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اْن پر صبر کرواور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اْس کی تسبیح کرو ،سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ ، اور نگاہ اْٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اْس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے ، اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔ ( سورۃ طٰہٰ آیت۔ ۱۳۰ سے ۱۳۲) معلوم ہوا کہ وہن سے بچنے کے لئے اللہ نےبالکل واضح ہدایت دے رکھی ہے، اب اسکے بعد بھی اگر کوئی دنیا کی محبت میں اللہ کے احکامات سے نظر چرائے گا تو اللہ ایسے لوگوں پر وہن ڈال دے گا۔ایسا بھی نہیں ہے کہ جس پر وہن ڈال دیا جائے، وہ پھر کبھی وہن سے پاک نہیں ہو سکتا۔ اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ بندہ اگر توبہ کرے تو اللہ اسے گناہوں سے پاک کر دیتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے پیغمبرؐ میری طرف سے لوگوں کو کہدو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے بیشک وہی تو ہے بڑا بخشنے والا بڑا مہربان۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو ، اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اسکے فرمانبردار ہو جاؤ۔ ورنہ بعد میں تم کو مدد نہیں ملے گی۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آ جائے اورتم کو خبر بھی نہ ہو اس نہایت اچھی کتاب کی و تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری جانب نازل ہوئی ہے پیروی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس وقت کوئی شخص کہنے لگے کہ ہائے اس کوتاہی پر افسوس ہے جو میں نے اللہ کا حق ماننے میں کی اور میں تو ہنسی ہی کرتا رہا۔ یا یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں ہوتا۔ (سورۃ الزمر آیت ۔ ۵۳ تا ۵۷) جہاں قرآن مجید ایمان والوں کے لئے ہدایت ، رحمت اور شفاء ہے وہیں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں ہمارے لئے اسوہ ے حسنا موجودہے ۔ حضور ﷺ کا حال تو یہ تھا کہ کبھی دنیا کی دولت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہن کے ڈر سے اگر یہ خیال آ جاتا کہ گھر میں ایک سونے کی انگوٹھی موجود ہے تو اسے بھی صدقہ کر دیتے یہاں تک کہ پوری زندگی میں کبھی زکوٰۃ کے نصاب بھر بھی رقم جمع نہیں ہو نے دیا ۔ خود کے پاس کچھ نہ ہوتا تو قرض لیکر بھی ضرورت مندوں کی مدد فرماتے۔ جب بھی مال غنیمت آتا آپ ﷺ اسی دن تقسیم کر دیتے۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اتنا ترجیح دیتے تھے کہ انتقال سے قبل گھر میں جو کچھ بھی مال تھا، سب راہ خدا میں خرچ کر گئے اور انسانوں کی نجات کے لئے قرآن اور سنت کی ہدایت چھوڑ گئے۔

اگر ہم اس لائق نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی طرح زندگی گزار سکیں تو کم از کم صحابہ کرام کی زندگیوں سے سبق تو لے ہی سکتے ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے دین کے بقا کی خاطر اپنے کاروبار کی قربانی دیکر بیت المال سے ملنے والے معمولی وظیفہ پر خلافت کے فرائض کو انجام دیا۔ ایک دن کھانے پر میٹھا مل گیا تو اپنا وظیفہ کم کرا آئے کہ اس میںسے رقم بچا کر بیوی نے میٹھا بنایا تھا۔ اسکے بعد جب حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کا حال یہ تھا کہ ایک بار مال غنیمت کے ذخیرہ کو دیکھ کربے ساختہ رو پڑے، لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ رونے کاکیا محل ہے؟ فرمایاکہ جہاں دولت کا قدم آتا ہے، رشک و حسد بھی ساتھ آتی ہے۔ جس شخص کو اللہ نے لاکھوں مربع میل کی خلافت عطا کی تھی اسکا حال یہ تھا کہ ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے ،باہر آئے تو لوگ انتظار کررہے تھے،معلوم ہواکہ پہننے کو کپڑے نہ تھے اس لیے انہی کپڑوں کو دھو کر سوکھنے کو ڈال دیاتھا۔خشک ہوگئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔ ایک دن خطبہ میں فرمایاکہ ’’صاحبو! ایک زمانے میں ،میں اس قدر نادار تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر لادیا کرتاتھا وہ اس کے صلے میں مجھ کو چھو ہارے دیتے تھے وہی کھا کر بسر کرتا تھا‘‘ یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ منبر پر کہنے کی کیا بات تھی، فرمایا کہ میری طبیعت میں ذرا غرور آگیا تھا،یہ اس کی دوا تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہن سے کس طرح بچا جاتا ہے۔ اسی لئے تو جب خیبر فتح ہو اور ان کے حصّہ میں زمین کا ٹکڑا آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے مشورہ سے اس زمین کو اس شرط پروقف کر دیا کہ یہ زمین نہ بیچی جائیگی،نہ ہبہ کی جائیگی،نہ وراثت میں منتقل ہوگی ،جو کچھ اس سے حاصل ہوگا وہ فقراء ،ذوی القربی،غلام ،مسافر اور مہمان کا حق ہے۔ حضرت عمرؓ کی ہی بیٹی تھیں ام المومنین حضرت حفصہ ؓ جنہوں نے ۲۰ ہزار درہم کے زیورات اہلِ خطاب کے نام وقف کر کے ملت اسلامیہ کو یہ بتایا کہ صرف زمین ہی نہیں بلکہ سونا چاندی بھی وقف کیا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *