دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صحیح حکمت عملی: جیسنڈا ارڈن کی مثال

جیسنڈا

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
دہشت گردی کے تعلق سے اکثر دو طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور کوئی رنگ نہیں ہوتا دوسرے یہ سہی ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے ہیں مگر جو دہشت گرد ہیں وہ سب کے سب مسلمان ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فوراً پٹری بدل کر مدرسوں اور مسجدوں کو دہشت گردی کی نرسری اور فیکٹری بنادیا جاتا ہے اور بہت اونچی آواز میں پوری عالمی میڈیا اور ذمہ دار افراد کے ذریعے اسے اسلامی دہشت گردی اور جہادی دہشت گردی کا نام دے کر اس کو ایک نظریاتی اور قومی کشمکش میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس وقت تہذیبی کشمکش کے نام پر جو ایک نئی سرد جنگ لڑی جارہی ہے، یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔ مثل مشہور ہے اگر ایک کتے کو پاگل قرار دے دیا جائے تو اس کے بعد اس کو گولی ماردیں تو سب لوگ کتے سے ہمدردی کرنے کے بجائے اس شخص کی تعریف کریں گے جس نے اس کتے کو مارا تھا، اس لیے کہ وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ کتا نہ جانے کتنے لوگوں کی جان لے سکتا تھا۔ لیکن کوئی اس بات کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ واقعی وہ کتا پاگل تھا یا نہیں یا کسی نے ظلماً اور تفریحاً اس کو قتل کردیا ہے۔ اگر وہ طاقت ور اور شریر آدمی ہے تب تو لوگوں کی زبانیں گونگ ہوجاتی ہیں۔ اگر وہ کمزور اور عام آدمی ہے تو کچھ لوگ اس کو لعنت ملامت کریں گے اور کچھ ممکن ہے اسے دوچار ہاتھ رسید بھی کردیں۔ یہی زمانے کا چلن ہے کمزور سے لڑجاؤ ، طاقتور سے ڈرجاؤ۔
دہشت گردی انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے ایک ظلم ہے۔ دہشت گرد ان سے نہیں لڑتے جو واقعی مجرم اور ظالم ہیں بلکہ اکثر ان کے شکار معصوم اور بے قصور مرد، عورت، بچے ، بوڑھے اور جوان ہوتے ہیں جو بازار میں، ٹرین میں، بس میں، اسکول میں، کالج میں، عبادت خانوں میں، کھیل کے میدان میں، ہوٹل یا تفریحی مقام پر ہوتے ہیں اور وہاں کوئی درندہ صفت فرد یا گروہ بم پھوڑ کر یا اندھا دھند گولی چلا کر ان کی جان لے لیتا ہے یا ان کو مجروح و زخمی کردیتا ہے۔ وہ چاہے جس مقصد اور جس محرک کی بنا پر یہ کام کرتا ہے یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ایسی دہشت گردانہ کارروائی سے کسی حکومت یا نظام کو وقتی طور پر تو پریشان کیا جاسکتا ہے لیکن اسے ختم یا بدلا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا یہ بڑی حماقت ہے جس کی کوئی ہوش مند آدمی تائید اور ہم نوائی نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ پاگل اور انتہا درجہ کا ظالم ہو جو کسی کے رنج و غم پر مسرور ہوتا ہے۔
یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ جو دہشت گرد ہیں وہ سب کے سب مسلمان ہوتے ہیں اور ان کی یہ دہشت گردی اسلام سے Inspiredہوتی ہے اور یہ اسلامی جہاد کا حصہ ہے۔ جو لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں وہ نہ تو اسلام سے واقف ہیں اور نہ اسلام کے فلسفۂ جہاد کو سمجھتے ہیں۔ بلکہ اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو نفرت اور بغض ہے اس کا یہ انتہائی بھونڈا اور گھناؤنا اظہار ہے۔
دہشت گردی اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، بودھ، عیسائی اور یہودی، سفید فام اور سیاہ فام، اور دنیا کی تمام قوموں، خطوں، ملکوں، رنگوں اور مذہبوں میں ایسے غالی عناصر موجود ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ اسٹیٹ اسپانسرڈ ہوتے ہیں اور بعض جگہوں پر نان اسٹیٹ ایکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں اور بعض ریاست پوری کی پوری اپنی بناوٹ اور طرزِ عمل میں دہشت گرد ہوتی ہے اور یہ اس کی اسٹیٹ پالیسی کا حصہ ہوتی ہے۔
اس وقت دنیا کا ہر ملک دہشت گرد ی کے خلاف سینہ سپر نظر آرہا ہے اور دو طرفہ تعلقات اور عالمی معاہدات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی منشور بن گیا ہے۔ مگر یہ مسئلہ ہنوز باقی ہے اور روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور ان ملکوں اور علاقوں میں بھی پھیلتا جارہا ہے جو نسبتاً دور دراز اور پرامن تصور کیے جاتے ہیں۔ 15مارچ2019کو عین جمعہ کی نماز کے وقت کرائس چرچ نیوزی لینڈ میں ہوا دہشت گردانہ حملہ جس میں پچاس سے زائد مرد، عورت اور بچے شہید ہوگئے، اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ دراصل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی بڑی وجہ حکومتوں اور عالمی طاقتوں کی منافقت ہے۔ جب تک آپ اپنے اور دوسرے دہشت گرد میں فرق کرتے رہیں گے اور اپنے دہشت گرد کو اچھا اور دوسرے دہشت گرد کو خراب مان کر دو پیمانے سے تولنے کی کوشش کریں گے اس مسئلہ پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔
نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا ارڈن نے جو رخ، رویہ اور پالیسی اپنائی ہے، وہی اس مسئلہ کا حل ہے۔ اس لحاظ سے وہ قابلِ مبارک باد ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کو نہ صرف ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے بلکہ نیوزی لینڈ کے سفارت خانے کوتہنیت کا پیغام بھیجنا چاہیے اور نوبل پرائز کمیٹی سے اس بار امن، باہمی خیرسگالی، انسان دوستی کا امن انعام جیسنڈا ارڈن کو دینے کی پرزور سفارش کرنی چاہیے۔ مظلوموں اور پسماندگان مجروحوںکے لیے ان کے ذریعہ کی گئی خیرخواہی، ہم دردی اور رواداری کا یہ ادنیٰ سا اظہارِ تشکر ہوگا۔ اس کے لیے نیوزی لینڈ کی عوام، پولیس فورس، ہاسپٹل اسٹاف، انتظامیہ، اپوزیشن پارٹی، اس کی پارلیمنٹ اور اس کی میڈیا سب قابل مبارک باد ہیں، جو ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ انسانیت زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔

Website: abuzarkamaluddin.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *