سید زاہد احمد علیگ اعظمی،کوسہ ممبرا
انسان کے اندر وہن نہ آ نے پائے اس کے لئے رب العالمین کا فرما ن ہے کہ اے نبی ﷺ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ ( سورۃ التّوبَۃ آیت نمبر ۲۴) یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ دنیا کے کاروبار، مال اور عزیز کی محبت کا اللہ کی محبت میں جہاد کرنے سے تجاوز کر جانا ہی وہن ہے، ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جہاد صرف ہتھیار لیکر جنگ کرنا نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں برائیوں کو مٹاکر نیکی کو ابھارنے کی کوشش ہی اصل جہاد ہے۔ اگر رسول ﷺ کی اس حدیث کو پیش نظر رکھا جائے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ ہر امت کے لئے ایک فتنہ ہے، اور میری امت کے لئے مال فتنہ ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضرمیں ملت اسلامیہ کو مال کے فتنہ سے بچانا سب سے افضل جہاد قرار پائے گا۔ مال کے فتنہ میں سب سے خطرناک سودی کاروبار رہا ہے جسے اللہ نے ہمیشہ سے حرام رکھا ہے۔سود سے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات میں فرما یا گیا کہ کیا اْنہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اورتنگ کرتا ہے۔ بیشک اس میں ایمان لانے والوں کے لئے نشانیاں ہیں، تو اہلِ قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو۔ جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں یہ اْن کے حق میں بہتر ہے۔ اور یہی لوگ نجات حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو اور اْس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دو چند سہ چند کرنے والے ہیں ، خدا ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تمہیں مارے گا۔ پھر زندہ کرے گا۔ بھلا تمہارے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کر سکے۔ وہ پاک ہے اور ان کے شریکوں سے بلند ہے (سورۃ الروم ۔ ۳۷ سے ۴۰) اس کے بعد بھی جب لوگ نہیں مانے تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ڈرانے کی غرض سے دوسری آیت نازل فرما کر کہاکہ غرض اِن یہودی بن جانے والوں کے اِسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا، اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور جو لوگ اِن میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے، (سورۃ النِسَاء ۔ ۱۶۰ سے۱۶۱) یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ آخر کیوں دور حاضر کے ہندستانی مسلمانوں کے لئے گائے کا حلال گوشت قانوناً حرام قرار پایا ہے؟ اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر لوگوں کو سود سے توبہ کرنے اور رضا ئے الٰہی میں اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دلانے کی غرض سے جو آیات نازل کی اس میں فرمایا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے، اْس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے مہیا کی گئی ہے ، اور اللہ اور رسول کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ، دوڑ کر چلو اْ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اْس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اْن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی، جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں، اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو ، او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ، ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے ۔ ( سورۃ آل عمران ۔ ۱۳۰ سے ۱۳۶)
لوگوں کو انفاق کے لئے ابھارنے کی غرض سے اللہ نے فرمایا کہ ـلوگ پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو! اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔ (سورۃ ابقرۃ۔ ۲۱۹ ) دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرنے سے مرادیہ ہے کہ جو مال بھی اللہ نے انسان کو دیا ہے اس سے وہ پہلے اپنی دنیاوی زندگی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے ، اس کے بعد جو بھی رقم بچ رہے اسے راہ خدا میں خرچ کر کے دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ذخیرہ آخرت بھی تیار کرتا رہے۔ خبر رہے کہ دنیاوی ضرورتوں میں گھریلو اور کاروباری تمام طرح کی ضرورتیں شامل ہیں۔ اگر کسی کو گھر یا گاڑی خریدنا ہو یا پھر صنعت یا تجارت میں سرمایہ بڑھانا ہو یا پھر تعلیمی اور طبی ضروریات کے لئے رقم جمع کرنا ہو، سب کچھ شامل ہیں۔ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو رقم بچے اسے ہی راہ خدا میں خرچ کرنا چاہئے نہ کہ سب کچھ راہ خدا میں وقف کر کے انسان بذات خود دوسروں کا محتاج بن جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد انسان غنی رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی متواتر ۳۶ اور ۳۷ ویں رقوع میں صدقہ اور خیرات سے متعلق اہم ترین آیات نازل کی ہیں۔ ان میں سے ایک آیت میں اللہ نے صاف کر دیا کہ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے، اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اْسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی، اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں (سورۃ البقرۃ ۔۲۶۸ سے ۲۶۹)۔ اس لئے ایمان والوں کو مفلسی سے نہیں ڈرنا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ جس اللہ نے صدقہ کے لئے مال دیا ہے وہی اس دنیا میں صدقہ کے بدلہ مال میں افزائش بخشتا ہے اور آخرت میں اس کا اصل بدلہ عطا کرے گا، جہاں نیک عمل کے علاوہ کسی اور کمائی کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔ اس کے بعد سورۃ البقرہ کی ۳۸ویں رقوع میں اللہ تعالیٰ نے سود سے متعلق سخت ترین آیات نازل کرتے ہوئے فرما دیا کہ جو لو گ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اْن کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں، مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اْ ن کا حال اْس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو اور اس حالت میں اْن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: “تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے”، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام، لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا ، ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اْن کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے، اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو ، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے، تمہارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اْسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو، اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا۔ ( سورۃ البقرۃ ۔۲۷۴ سے ۲۸۱) اس کے بعد اگلی رقوع میں اللہ تعالیٰ نے احکامات نازل کر کے یہ واضح کر دیا کہ کاروباری ضرورتوں کو پورا کرنا ہو تو کس طرح ادھار اور رہن وغیرہ کا معاملہ کیا جائے۔
اُوپر کے مضامین پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے صاف کر دیاکہ اس نصیحت کے بعد بھی جو سود کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے۔ لیکن اس کے بعد جو بھی احکامات نازل کئے اس میں خطاب مسلمانوں سے ہے ، سود سے توبہ نہیں کرنے والوں کے خلاف جنگ کااعلان ہو یا توبہ کرنے والوں کا اپنا اصل واپس لینا، یا پھر تنگ دست قرضدار کو مہلت دینا یا پھر قرض کو معاف کر دینا، یہ سارے احکامات مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم کے گناہ کی سزا کے لئے آخرت ہے، لیکن اگر مسلمان سود سے توبہ نہیں کرے گا تو اس کے خلاف اللہ کی جانب سے اسی دنیا میں جنگ کا اعلان ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اللہ نے جس قوم کو خیر امت بنا کر اٹھایااور خود ان کا ولی بنا، اسی قوم کے سود خوروں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا! بات در اصل یہ ہے کہ نبی ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آنے والا اور قیامت تک یہ مسلمانوں کی ذمہ داری قرار پائی ہے کہ وہ اللہ کے دین پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ اس کے لئے جان اور مال سے جہاد بھی کریں ۔ اس کے خلاف اگر مسلمان احکام الٰہی کے ساتھ کفر کر تے ہوئے ضرورتوں سے بچی رقم کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی بجائے اسے سودی کاروبار میں لگائیں گے تو ان کے خلاف اللہ کی جانب سے اعلان جنگ ہے۔ اس پر ریسرچ کیا جاناچاہئے کہ ہندستان میں ڈوبنے والی حلال انویسٹمنٹ کی کمپنیوں میں کتنے ایسے لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنی آمدنی میں لوگوں کے حقوق سے بے پرواہ ہوکر بچت کی رقم ان کمپنیوں میں لگایا تھا؟ ا گر یہ انداز ہ ہو کہ حلال انویسٹمنٹ کے کاروبار کی وجہ سے مسلمانوں میں وہن پیدا ہورہا ہے اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچی ہوئی رقم کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی بجائے حلال منافع کی لالچ میں انویسٹ کرنے لگے ہیں ، تو پھر ہمیںایسے کاروبار سے توبہ کر نا چاہئے ۔ رہا سوال کہ بیت المال کی عدم موجودگی میں کس طرح مسلمانوں کو غیر سودی مالیات کی فراہمی کرائی جا سکتی ہے تو وہ تبھی ممکن ہو سکے گا جب لوگ اپنی بچت کی رقم راہ خدا میں مالی جہاد کے جذبہ سے غیر سودی اداروں میں جمع کرائیںگے۔ ورنہ جب تک لوگ اپنی بچت کی رقم سے حلال منافع کمانے کی لالچ میں انفاق کی بجائے سرمایہ کاری کا مزاج رکھیں گے، قوم کے حالات بد سے بدتر ہونے کا اندیشہ بنا رہے گا۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے۔ مسلم قوم کا تاریخی جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک مسلمان طیبات (حرام رزق سے اجتنا ب کرتے ہوئے مالی عبادات ) پر عمل کرتے رہے، اللہ نے انہیں دنیا میں غلبہ بخشا، لیکن بعد میں جس قدر مسلمان طیبات سے بے پرواہ ہوتے گئے اللہ نے بھی ان کے لئے مغلوبیت مقدر کر دیا۔ دنیا میں جب تک مسلمان نقد مالیات کو وقف کرتے رہے، ان کے لئے سود سے بچ کر کاروبار کرناممکن رہا۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب خلافت عثمانیہ بھی جاتی رہی تو سودی بینکنگ کے نظام کو دنیا میں پھیلنے کا موقع مل گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں نے سودی نظام کے متبادل کے طور پر جس اسلامک بینکنگ کا طریقہ ایجاد کیا، اس میں سود سے بچنے کی گنجائش تو پائی جاتی ہے لیکن اس میں انفاق کو فروغ دینے کا کوئی مزاج نہیں ہے ، جس کی وجہ سے حلال سرمایہ کاری کو تو فروغ ملتا گیا لیکن مجموعی طور پر قوم کے دلوں میں انفاق کے جذبہ کی بجائے وہن بڑھتا گیا۔ غور کرنے کی بات ہے کہ آج بھی جہاں مسلمان سود سے بچتے ہوئے انفاق پر عمل کر رہے ہیں، وہا ں کے مسلمان امن و امان سے زندگی گزار رہے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملیشیا میں وقف فنڈ کا نظم قائم ہے جہاں لوگ ہر مہینے اپنی آمدنی کا ایک حصّہ وقف فنڈ میں جمع کراتے ہیں۔ ان ملکوں میںوقف فنڈ کے ذریعہ نہ صرف لوگوںکو سود سے بچایا جا رہا ہے بلکہ سرکاری پروجیکٹس تک فائنانس کئے جا رہے ہیں۔ کیا وہاں کے مسلمان ہم سے زیادہ امن میں نہیں ہیں؟ کیا ہی بہتر ہوگا اگر ہندستان کے غیر سودی ادارے بھی اپنے یہاں کچھ اس طرح کا نظم قا ئم کریںکہ لوگ کھاتا کھلا کر وقف کی نیت سے اس میں رقم جمع کرا سکیں۔ ان جمع شدہ رقومات سے غیر سودی اداروں کو تقویت ملے گی اور وہ صحیح معنٰی میں غریبوں کو مالی استحصال سے بچا سکیں گے۔ اگر لوگ وقف کے ذریعہ راہ خدا میں اپنے مال سے جہاد کا حق ادا کر سکیں گے توامید ہے کہ اللہ ان کو وہن سے پاک کر دیگا اور قوم اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکے گی۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...