ممبرا میں معاشی و مالیاتی پروگرامس کی سخت ضرورت ہے

چارٹرڈ اکائونٹنٹ حنا پاوسکرکو ان بچوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جنہیں وہ ٹریننگ دے رہی ہیں:تصویر معیشت
چارٹرڈ اکائونٹنٹ حنا پاوسکرکو ان بچوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جنہیں وہ ٹریننگ دے رہی ہیں:تصویر معیشت

چارٹرڈ اکائونٹنٹ حنا پاوسکر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی ممبرا میں رہتے ہوئے تعلیم مکمل کی اور آج کامیابی کے ساتھ اپنی کنسلٹنسی چلا رہی ہیں۔معیشت کے مدیر دانش ریاض سے گفتگو کے دوران انہوں نے اس بات کی نفی کی کہ ممبرا میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ علاقے کے پوٹنشیل پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان مواقع کی طرف اشارہ کیا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے پیش ہیں تفصیلات۔

کوسہ میں ڈی سی بی بینک سے پہلے ہی نشیمن کالونی ہے جس میں مختلف ڈائیگنوسٹک سینٹر کھلے ہوئےہیں ۔اسی کے بالمقابل پرانی نشیمن کالونی ہے جس کے ای ونگ کا تیسرا منزلہ یوں تو رہائشی لگتا ہے لیکن جو لوگ ایمانداری سے تجارت کر رہے ہیں وہ باشماخ چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے اسی منزلے پر آتے ہیں۔دراصل تیسرے منزلے کی فلیٹ نما غلام گردشوں کے بیچ BASHMAKH & Co Chartered Accountants کی تختی نظر آجائے گی اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ حنا پاوسکراستقبال کے لئے تیار ملیں گی جنہوں نے مذکورہ فرم قائم کررکھی ہے۔دراصل ہال میںداخل ہوتے ہی یہ تو سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں فائنانس سے متعلق کچھ کام ہوتا ہے لیکن وہاں کام کرنے والوں کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ جو لوگ مختلف لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرس پر بیٹھے کام کررہے ہیں دراصل وہ ایسے طالب علم ہیں جنہیں حنا چارٹرڈ اکائونٹنٹس کی ٹریننگ بھی دے رہی ہیں۔ملک یمن سے ہجرت کرکے ہندوستان کو اپنا مرجع بنانے والےحنا کے خانوادے نے تعلیم و تعلم میں بیشتر وقت لگایا ہےیہی وجہ ہے کہ حنا پاوسکر معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’میرے دادا سالم باشماخ یمنی تھے جنہوںنےہندوستان ہجرت کیا اور مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کو اپنا مسکن بنایا میرے والد احمد باشماخ جنہوں نے ریاضی (میتھ میٹکس )میں اورنگ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے ممبئی کے مشہور استادوں میں شمار کئے جاتے تھے۔میری پیدائش ۲۶جون ۱۹۸۷؁ کو ممبئی کے نور باغ میں ہوئی جہاں ہم ہنسی خوشی زندگی گذار رہے تھے جبکہ میں حبیب انگلش اسکول میں داخل ہوگئی تھی کہ اچانک ۱۹۹۲؁ کا فساد پھوٹ پڑا اور ہمیں بس جان بچا کر ممبرا آنا پڑا‘‘۔ بچپن کی یادوں کو کھنگالتے ہوئے حنا کہتی ہیں’’ میرے گھر والے بتاتے ہیں کہ جب میں ڈھائی سال کی تھی اسی وقت میرا داخلہ حبیب انگلش اسکول میں کرادیا گیا تھا ۔لہذا جب ممبراکاگھر آباد ہوا تو میرا داخلہ کڈیز پاراڈائز اور پھر سمیہ انگلش اسکول میں کرادیا گیا۔دسویں اور بارہویں کی تعلیم میں نے بھارت انگلش اسکول سے حاصل کی جبکہ اس کے بعد سے ہی میرے سی اے بننے کی پریکٹس کا آغاز ہوگیا اور میں ممبرا سے باہر تعلیم حاصل کرنے جانے لگی‘‘۔
یہ دلچسپ ہے کہ جہاں ممبرا کے بچوں کے بارےمیں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سنجیدہ نہیں ہوتے اور مختلف غیر سماجی کاموں میں مشغول ہوتے ہیں حنا پاوسکر اپنے تعلیمی سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’اللہ کا شکر ہے کہ میرا پورا گھرانہ پڑھا لکھا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ والد محترم جہاں عصری تعلیم خاص کر ریاضی میں مدد کرتے وہیں والدہ قرآن و حدیث کی تعلیم دیتیں ،بارہویں کے بعد میرے دن بھر کا معمول یہ ہوگیا تھا کہ صبح بیدار ہونے اور ناشتہ سے فراغت کے بعد میں سات بجے کلاسیز کے لئے روانہ ہوجاتی دس بجے وہاں سے واپسی ہوتی تو ساڑھے دس بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک آرٹیکل شپ ٹریننگ حاصل کرتی اور پھر۶ بجے سے رات کے نو بجے تک گھاٹ کوپر کے سکھ ساگر کلاسیز میں بقیہ ٹاسک مکمل کرتی۔لہذا صبح سات بجے سے رات کے نو بجے تک پڑھتے پڑھتے ہم اس قدر تھک جاتے کہ پھر کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتالہذا نہ ممبرا یاد رہتا اور نہ ہی ممبرا کی منفی باتیں ،جب ہم دوسروں سے ممبرا کے بارے میں سنتے تو لگتا کہ کیا یہ لوگ اسی جگہ کی باتیں کر رہے ہیں جہاں ہم رہتے ہیں؟
اپنے طالب علمی کے زمانے کو یاد کرکے حنا کہتی ہیں “اس زمانے کو یاد کرتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کتنی ہی سہیلیاں ساتھ پڑھتی تھیں جنہیں اعلیٰ تعلیم کا بھی شوق تھا لیکن گھروں کی بندشوں کی وجہ سے وہ آگے نہیں پڑھ سکیں دراصل خواتین کو اعلیٰ تعلیم دلانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ممبرا میں ہائر ایجوکیشن کی للک تو ہے لیکن تیز طرار بچے بھی اپنی خواہشات کو اس لئے دبا جاتے ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے۔کئی برس قبل ایک خاتون آئی جس نے کہا کہ میں طلاق شدہ ہوں، کم عمری میں میری شادی کردی گئی تھی جبکہ میں پڑھائی کر رہی تھی اب جبکہ طلاق ہوچکا ہے میں کیا کروں مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے۔میں نے جب اس کے مارکس دیکھے تو وہ ہر کلاس میں ڈسٹنکشن مارکس لے کر آئی تھی اس کی خواہش تھی کہ وہ سی اے بنے لیکن کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کی رہنمائی کرسکے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایسے بچوں کی مدد انتہائی ضروری ہے ۔”
منوج کمار کنہیا لال کی مثال پیش کرتے ہوئے حنا کہتی ہیں ” ممبرا کا رہنے والا ایک ہونہار بچہ میرے پاس آیا کیونکہ سی اے کی ٹریننگ کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے وہ کئی لوگوں کے پاس گیا تھااور اپنی آپ بیتی بیان کی تھی لیکن کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیاتھالہذا جب وہ میرے پاس آیا تومجھے محسوس ہوا کہ اگر آج اس کی مدد نہیں کی گئی تو ایک ہونہار بچہ اپنی منزل کو نہیں پا سکے گا لہذا میں نے کئی لوگوں کو فون کیاجنہوں نےاس کی مکمل فیس کا انتظام کیااور آج الحمد للہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے‘‘۔
سماجی ذمہ داریوں سے پہلو تہی اختیار کرنے والوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حنا کہتی ہیں’’اس وقت لوگوں میں پیسہ کمانے کی ہوڑ تو لگی ہے لیکن اس پیسے سے دوسروں کی کیسے مدد کی جائے اس کی کوئی خواہش ان کے اندر نہیں ہوتی ،بس پیسہ کمانا ہے اور فضول میں اڑانا ہے یہی ہمارا شعار بنتا جا رہا ہے۔حالانکہ ممبرا کوسہ میں جتنے صاحب حیثیت لوگ ہیں اگر وہ چاہیں تو یہاں کے بچوں کا تعلیمی مسئلہ بخوبی حل ہو سکتا ہے۔اگر تمام صاحب حیثیت خاندان کے لوگ ایک ایک بچہ کی ذمہ داری بھی لے لیں تو بہت سارے بچوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘ قانونی ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے تجارت کرنے کی خواہش پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’یہاں کے لوگ قانونی طور پر تجارت تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ٹیکس ادا کرنے میں پریشانی محسوس کرتے ہیں لہذا جب آپ ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو اپنی کمپنی کو فروغ دینے میں بھی آپ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا،دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نہ تو کاغذات مکمل ہوتے ہیں نہ ہی انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود لون حاصل کرنے کے امیدوار رہتے ہیں۔جبکہ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جنہیں لون حاصل کرنا ہوتا ہے وہ اپنے کاغذات تو مکمل کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن فوری طور پر وہ تمام مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو تین چار سال کی کاغذی کارروائی کے بعد حاصل ہوا کرتا ہے۔ یعنی راتوں رات ITRبھی فائل ہوجائے اور راتوں رات لون بھی مل جائے ۔دراصل یہ مزاج بھی لوگوں کو آگے بڑھنے میں مدد نہیں کرتا۔اسی کے ساتھ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ جب آپ کے کاغذات ہی مکمل نہیں ہیں تو آپ ان تمام مراعات سے بھی محروم رہتے ہیں جو حکومت کی طرف سے دیا جاتا ہے مثلاً مدرا یوجنا،تعلیم سے متعلق اسکیم،راجیو گاندھی اسکیم وغیرہ وغیرہ ہم اسلئے حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ ہمارے پاس لیگل کاغذات مکمل نہیں ہوتے ہیں‘‘۔روٹری کلب آف ممبرا الیٹ کی ممبر حنا جہاں غریب بچوں کو ہائر ایجوکیشن کی طرف آمادہ کرنا چاہتی ہیں وہیں وہ غریبوں کا خیال بھی رکھتی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ کلب کی طرف سے جہاں کمبل ،کپڑے ،راشن تقسیم کیا جاتا ہے وہیں دیوی پاڑہ جیسے علاقوں میں کاغذات کی تکمیل بھی کرائی جاتی ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ حکومتی مراعات حاصل کرسکیں۔
اپنے تین بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی کے سفرمیں انجینئر ندیم پاوسکر کے قدم بہ قدم ساتھ دینے والی حنا پاوسکر ممبرا کے موجودہ تعلیمی ماحول پر کہتی ہیں کہ ’’ہمارے زمانے کے ماحول میں اور موجودہ ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔والدین اور بچوں کے درمیان جو مضبوط رشتہ ہونا چاہئے کہیں نہ کہیں اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔بچے یا بچیاں گھر سے نکلنے کے بعد کیا کررہی ہیں والدین اس سے بالکل بے پرواہ ہوچکے ہیں ،نہ تو وہ ان کے باڈی لینگویج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،نہ ہی اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ وہ کس کے ساتھ جا رہا ہے یا جا رہی ہے ،کس کی صحبت میں ہے اورکس کےساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہےیا رہی ہے۔بچے بھی والدین کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں لہذا ایک طرف غلط صحبت جہاں ان کے مستقبل کو تاریک کر رہا ہے وہیں دوسری طرف سماج بھی انہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا نتیجتاً ہمارے ہی معاشرے کے بچے بگڑتےجارہے ہیں اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تب ہمیں خیال آتا ہے کہ آخر یہ کیا ہوگیا‘‘۔
اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے حنا کہتی ہیں ’’مجھ سے جو کچھ بن پڑتا ہے میں حتی المقدور کرنے کی کوشش کرتی ہوں اس کے باوجود اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ تعلیمی میدا ن میں میں اس کی رہنمائی کرسکتی ہوں تو وہ آفس میں آکر مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔یقیناً میری کوشش ہوگی کہ میں اس کے مسائل حل کروں اور ایک ایسا معاشرہ بنانے میں کلیدی رول ادا کروں جہاں کوئی مجبور و مقہور نہ ہو۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *