Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کنواروں کی بیچارگی کا مرثیہ !

by | Apr 3, 2019

آئینہ

عمر فراہی

اب چونکہ گاؤں دیہات وغیرہ میں بھی لوگوں کے پاس ذاتی موٹر سائیکل اور کار کی سہولیات میسر ہو چکی ہے اس لئے کسی ناگہانی حالات میں گاؤں بازار اور رشتہ داروں تک رسائی اتنی مشکل نہیں ہے ورنہ تیس پینتیس سال پہلے کسی شادی، میت اور بیماری وغیرہ کے موقع پر لوگوں کو جو پریشانیاں اٹھانی پڑتی تھیں انہیں مشکلات کی وجہ سے قصبے کے لوگ دیہاتوں میں اپنی لڑکیوں کا رشتہ کرنے سے کتراتے تھے اور خود دیہاتوں کے لوگ‌بھی جہاں تک ممکن ہوتا آپس میں رشتے تلاش کر لیا کرتے تھے ۔اس طرح مسلم معاشرے میں لڑکیوں کے حق میں تو یہ بہت اچھی بات تھی کہ کانی کوتڑی گونگی اور کالی سب کی شادی ہوجاتی تھی۔طلاق کا تصور صفر تھا جبکہ کوئی کوئی مرد کنوارے بھی رہ جاتے تھے۔اسی کے ساتھ وہ بیٹیوں والے جنھیں اپنے گاؤں میں مناسب رشتہ نہیں ملتا دوسرے گاؤں کا بھی رخ کرتے۔ ان کے لئے اتنا ہی پتہ لگانابھی کافی ہوتا تھا کہ کس گاؤں میں ان کی برادری کے لوگ بستے ہیں ۔اس کے بعد گاؤں کی بازار اور چوراہے پر کسی نہ کسی کے ذریعے یہ بھی پتہ ہو جاتا کہ کس گھر میں شادی کے امیدوار نوجوان مناسب رشتے کے انتظارِمیں ہیں ۔مگر جہاں بازار ہی نہ ہوں وہاں اکثر کھیتوں میں کھیتوائی کرنے والے بزرگ یا کسی دوکان اور مسجد سے بھی یہ اطلاع مل جاتی تھی کہ فلاں فلاں کے گھر فلاں فلاں اپنے بیٹے کے رشتے کی تلاش میں ہیں ۔میں نے کچھ ایسے بھی دیہات دیکھے ہیں جہاں مسجد تو ہوتی ہے مگر شاید ہی پانچ وقت کی نماز ہوتی ہو۔بہت سے ایسے دیہاتوں کے لڑکے تیس تیس پینتیس پینتیس سال تک اس انتظار میں کنوارے رہ جاتے تھے کہ کوئی لڑکی کا باپ رشتہ لے کر آئے ۔
ہمارے یہاں بازار سے دور ایسے ہی ایک دیہات کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کے کنوارے نوجوان صبح کو کھیتوں اور کھلیانوں سے فرصت پا کر گاؤں کی طرف آنے والے راستے پر ایک پرانے بوڑھے شجر کے نیچے کچھ وقت ضرور گزارتے ۔جب کوئی نیا مہمان گاؤں میں داخل ہوتا تو یہ نوجوان بہت خوش ہو جاتے اور تاڑ جاتے کہ یہ مہمان ضرور کسی رشتے کی تلاش میں آیا ہے ۔ان میں سے ایک نوجوان خوشی خوشی مہمان کو اپنے گھر لے جاتا اور سارے کنوارے مل کر خوب خاطر داری کرتے ۔مہمان کو کوئی نہ کوئی لڑکا پسند آجاتا اور پھر شادی کی تیاری شروع ہو جاتی ۔اس دور کی شادیوں کی رونق بھی عجیب تھی۔سواریوں کی قلت اور سفری مشکلات کی وجہ سے بارات لڑکی کے دروازے پر ایک رات ضرور ٹھہرتی تھی ۔بارات آ‌نے سے تین دن پہلے کنوارے بچے لوگوں کے گھر سے بستر اور کھٹیا کا انتظام کرتے ۔باراتی بھی آج کی طرح موٹر سائیکل اور کار سے نہیں بلکہ بیل گاڑی اور ٹریکٹر سے راستے بھر جھومتے ہوئے آتے تھے ۔کنوارے نوجوان یہاں بھی باراتیوں کے آگے پیچھے یوں رہتے جیسے ہوائی جہازوں میں ائیر ہوسٹس اور ہوٹلوں میں ویٹر گراہکوں کی خدمت کیلئے ایک پیر کھڑے رہتے ہیں ۔کچھ کنوارے نوجوان اس طرح بھی باراتیوں میں موجود بزرگوں کو پسند آجاتے اور ان کا بھلا ہو جاتا۔
اب دور بدل چکا ہے۔گاؤں شہر میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔مکتب نے کالج کی شکل اختیار کر لی ہے ۔کچھ والدین کو کنواروں کے والدین سے بات کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔پچیس فیصد شادیوں کی بات لڑکے لڑکی پہلے آپس میں ہی کر لیتے ہیں والدین صرف رسم ادا کرتے ہیں ۔
اب کوئی باپ بچوں کے رشتوں کیلئے کسی مسجد بازار، دوکان اور گاؤں کا رخ نہیں کرتا ۔پہلے لوگ کنوارے نوجوانوں کو گاؤں کے باہر دہلیز پر وقت گزارتے ہوئے دیکھ کر اندازہ لگا لیتے کہ یہ نوجوان شادی کے متمنی ہیں۔موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے یہ کام اور آسان کر دیا ہے ۔گاؤں اب گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکا ہے ۔سوشل میڈیا پر کنواروں کی بھیڑ جمع ہو گئی ہے ۔فیس بک نے بوڑھے شجر کی جگہ لے لی ہے ۔فیس بک پروفائل اسٹیٹس کا باقاعدہ ایک کالم یہ بھی ہوتا ہے کہ کون شادی شدہ ہے کون سنگل ۔کچھ نوجوان اسی کالم میں In relationship بھی لکھتے ہیں تو کچھ نے Relationship disputed اور Separated بھی لکھنا شروع کردیا ہے تاکہ لوگوں کو ان کے کنوارے پن کا پتہ ہو جائے۔ابھی حال ہی میں ممبئی اردو نیوز کے کالم نگار نازش ہما قاسمی صاحب کی شادی ہو گئی تو دوستوں کو یہ اطلاع فیس بک سے پتہ چلی ادھر فیس بک پر کچھ ساتھیوں نے پوسٹ لگایا کہ Got Engaged خوشی کی بات ہے کہ فیس بک نے کنواروں کا بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے۔مگر جدید سائنسی ترقی اور معاشی فراوانی کے دور میں بھی بہت سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کنوارگی کی عذاب سے گزر رہے ہیں جن کی عمریں تیس کے بھی اوپر ہو چکی ہیں ۔افسوس کنواروں پر گاؤں نے بھی ظلم کیا نئے دور کے شہری حالات نے روزی روزگار نوکری اور رہائش کے دیگر مسائل کھڑے کر دئیے۔یہ نوجوان بھی کیا کریں تنہائی کو دور کرنے کیلئے گاؤں اور گاؤں کا بوڑھا شجر تو رہا نہیں سوشل میڈیا کے سائے میں دوستوں کے درمیان اپنے درد کو بھلانے میں مصروف ہیں ۔ اللہ اس دور کے کنواروں پر رحم کرے مسائل پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں !

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...