گرمیوں کا مقبول مشروب روح افزاہندوستانی مارکیٹ سے غائب

روح افزا

عوام الناس میں طرح طرح کی چہمگوئیاں،کمپنی کے داخلی تنازعات کا شاخسانہ
ممبئی:ہمدرد لیباریٹریز کی جانب سے تیار کردہ مقبول عام مشروب اب اس گرمی میں میسر نہیں آئے گا۔پورے ہندوستان میں مذکورہ مشروب آئوٹ آف اسٹاک ہے جبکہ پاکستانی امپورٹڈ روح افزا ہر جگہ موجود ہے۔اس سلسلے میں معیشت نے جب ہمدرد لیباریٹریز سے رابطہ کیا تو وہاں سے یہ جواب دیا گیا کہ تکنیکی بنیادوں پر فی الحال روح افزاء اسٹاک میں نہیں ہے لہذا یہ مارکیٹ سے بھی غائب ہے‘‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ آخر وہ تکنیکی معاملات کیا ہیں ؟ کہا گیا کہ ’’فی الحال ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے‘‘۔
واضح رہے کہ حکیم عبدالمجید کے ہمدرد دواخانے میں حکیم استاد حسن خان نے مذکورہ مشروب کا فارمولہ تیار کیا تھا جو خود بھی طبیب اور ادویہ سازی کے شعبے سے وابستہ تھے۔ ان کا تعلق اترپردیش کے شہر سہارنپور سے تھا، لیکن تلاش معاش میں وہ دہلی آ بسے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی چلےگئے۔ سن 2003ء تک وہ کراچی میں مقیم تھے، ان کی عمر غالبا 120 سال ہوگی۔ انہوں نے ہی ایک انٹرویو میں اپنی یادوں کے اوراق پلٹتے ہوئے روح افزا کی تیاری کی داستان سنائی تھی۔ یہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے روح افزا کا پہلا نسخہ ترتیب دیا تھا۔یہ سن 1907 کی بات ہے۔اس زمانے میں مختلف پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کے شربت انفرادی طور پر دستیاب تھے۔ مثلا شربت گلاب، شربت صندل، شربت انار، شربت سنگترہ، شربت کیوڑہ، وغیرہ وغیرہ، جو اپنی تاثیر اور ذائقے کے لحاظ سے مختلف تھے۔ ہمدرد دوا خانہ کے بانی چاہتے تھے کہ پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر ایک ایسا بےنظیر و بےمثال نسخہ ترتیب دیا جائے جو ذائقے اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہو، اور ایسا معتدل ہو کہ بچے سے بوڑھا تک ہر مزاج کا شخص اس کو استعمال کر سکے۔ یہیں سے روح افزا کی تیاری پر کام شروع ہوا۔ حکیم استاد حسن خان نے اپنی تمام حکمت اور خواص، جڑی بوٹیوں کا تجربہ روح افزا کے نسخہ و ترکیب میں سمو دیا۔ اگر صرف روح افزا کی تیاری پر ہی ان کو استاد کے لقب سے نوازا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ لیکن کیسی افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ یہ شخص گمنامی کی زندگی بسر کرگیا ورنہ بجا طور پر تمغہ حسن کار کردگی کا مستحق تھا۔ ہمدرد وقف دواخانہ و لیبارٹریز کی ویب سائٹ پر ان کا تعارف بحیثیت روح افزا کے اولین نسخہ ساز کی حیثیت سے درج ہے۔ ‎روح افزا میں شامل چیدہ چیدہ اجزا اپنی تاثیر میں بےمثل تھے۔ جڑی بوٹیوں میں حکیم صاحب نے تخم خرفہ، منقہ، کاسنی، نیلوفر، گاؤزبان، ہرا دھنیا وغیرہ، پھلوں میں سنگترہ، انناس، گاجر، تربوز، وغیرہ۔ سبزیوں میں سے پالک، پودینہ، ہرا کدو، وغیرہ۔ پھولوں میں گلاب، کیوڑہ، لیموں اور نارنگی کے پھولوں کا رس، خوشبو اور ٹھنڈک میں بےمثال خس اور صندل کی لکڑی وغیرہ۔ ان تمام اجزا اور عرقیات کو ایک خاص ترتیب سے ملا کر جو شربت تیار ہوا، وہ بلاشبہ روح افزا کہلانے کا ہی مستحق تھا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے طب مشرق پر چھا گیا، اور آج تقریبا 110 سال گزرنے کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ‎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *