امامت کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں مسجد اقصیٰ تنور نگر کے نائب پیش امام

انتہائی کم اجرت لے کر مسجد کی خدمت کرنے والے حافظ آفتاب عالم خان ان خوش نصیبوں میں ہیں جنہیں اچھے ٹرسٹیز کی محبت حاصل ہے
ممبرا: یہ عام تاثر ہے کہ مسجدوں میں ائمہ کرام اور موذن حضرات کو معقول تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ ٹرسٹیوں کا رویہ بھی دوستانہ نہیں رہتا۔ضروریات زندگی کے لئے جہاں وہ کسمپرسی کی زندگی گذارتے ہیں وہیں معاشرہ بھی انہیں کچوکے لگاتا رہتا ہے لیکن ضلع تھانے کا مسلم اکثریتی علاقہ ممبرا کے تنور نگر کی مسجد اقصٰی کے ٹرسٹیان کے ساتھ وہاں کے نائب امام مسجد نے اس تاثر کو غلط ثابت کردیا ہے۔مسجد کی دیکھ ریکھ اور امامت کے ساتھ انہوں نے جس طرح علحدہ اپنی تجارت کو فروغ دیا ہے وہ بیشتر لوگوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ امبیڈکر نگررامپور ٹانڈہ اترپردیش سے ۲۰۰۵ میں ممبرا آئے حافظ آفتاب عالم خان نے جب مسجد اقصیٰ کی ذمہ داری سنبھالی تھی تو اسی وقت انہوں نے ٹرسٹیان مسجد کے گوش گذار کردیا تھا کہ وہ مسجد کی دیکھ ریکھ ،موذن کے فرائض کے ساتھ اپنی علحدہ تجارت بھی کریں گے تاکہ خود کفیل ہو سکیں۔شاید ابتدا میں ہی انہوں نے جس صاف گوئی کا مظاہرہ کیا تھا اس کا ہی یہ اثر تھا کہ ٹرسٹیان جناب عبد الرشید اور اکبر خان نے ہمت کی داد دی اور اس قدر حوصلہ افزائی کی کہ آج وہ کامیاب تاجروں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہیں۔ مدرسہ قاسم العلوم نریائوں پرانا بازار اعظم گڈھ سے ۱۹۹۲ میں حفظ قرآن مکمل کرنے والے آفتاب نے ۱۹۹۴ میں مدرسہ ریاض العلوم گرینی سے محض یک سالہ عالمیت کا کورس کیا تھا اور پھر ۱۹۹۵ میںحیدر آباد روانہ ہوگئے جہاں انہیں امات و خطابت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔لیکن حیدر آباد قیام کے دوران ٹرسٹیان مسجد کے رویہ نے انہیں اس قدر برگشتہ کردیا کہ وہ مسجد کی خدمت سے ہی دست بردار ہونے کی کوشش کرنے لگے اور عملی طور پر اپنے آپ کو پیش امام کی ذمہ داریوں سے علحدہ بھی کرلیا لیکن ایک برس کی کسمپرسی والی زندگی نے انہیں دوبارہ اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کسی ایسی مسجد کی خدمت کریں جہاں ٹرسٹیان کا رویہ معاندانہ یا جاہلانہ ہو بالآخر ۲۰۰۵ میں ممبرا کا سفر کیا اور مسجد اقصیٰ میں بطور موذن اپنی خدمات انجام دینے لگے۔

دس سالہ دکھ بھری زندگی کا ہی احساس تھا کہ جب انہیں اچھے ٹرسٹیان کی معیت حاصل ہوئی تو انہوں نےاپنی زندگی کے کاروبار کو وسعت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور چھوٹے چھوٹے کاروبار میں مصروف ہوگئے۔معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ آفتاب عالم خان کہتے ہیں ’’جب مجھے ٹرسٹیوں کی طرف سے کاروبار کی اجازت ملی تو میں نے جنرل اسٹورس کے آئٹم سپلائی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔شروع میں پیدل ہی وٹھل واڑی سے سامان لاتا اور مختلف دکانوں میں دے دیا کرتا پھر ۷۰۰روپئےمیں ایک پرانی سائیکل خریدی جس سے سپلائی کا کام کرنے لگا۔جب تھوڑا کام بڑھا تو ایم ایٹی اسکوٹرلے لیا اب الحمد للہ سامان ڈھونے والاٹیمپو ہے جس سے ہول سیل سپلائی کا کام کرتا ہوں ۔یقیناً اس عرصے میں حافظ ادہم علی فلاحی اورعبد الرشید صاحبان کا تعاون رہا جنہوں نے ہر مرحلے پر بھر پور حوصلہ افزائی کی۔‘‘جب کام کرنے کا حوصلہ تھا تو کام بھی بہت ملنے لگالہذا ایک کارپوریٹ کمپنی نے پانی باٹل سپلائی کا کام دیا جبکہ کولڈرنسک کی سپلائی بھی کرنے لگا لیکن جب فائدہ نہیں ہوا تو اسے چھوڑ دیا۔البتہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ بہت ساری کارپوریٹ کمپنیوں کے ذمہ داران آنے لگے اور مجھے مختلف پروڈکٹس کی ایجنسی دینے لگے۔بالآخر میں نے دار العلوم حیدر آباد سے فارغ التحصیل بھائی آفاق عالم خان کو اپنے پاس بلا لیا اور چاند نگر میں رحمت جنرل اسٹور کی زمام کار اسے سونپ دی ۔اب ہم دونوں بھائی مل جل کر کاروبار چلا رہے ہیں جبکہ اپنے دیگر رشتہ داروں کو بھی میں نے مختلف تجارت میں مصروف کردیا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے والدین کےاور تین بھائیوں کے ساتھ بہتر زندگی گذار رہا ہوں‘‘۔
ائمہ کرام ،مساجد میں کام کرنےوالے دیگر لوگوںکو مشورہ دیتے ہوئے آفتاب عالم خان کہتے ہیں ’’اگر آپ امامت و خطابت کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی برکت عطا فرماتا ہے۔میں بطور اجرت مسجد سے محض دو ہزار روپیہ لیتا ہوں وہ بھی اسلئے کہ ذمہ داری کا احساس باقی رہے لیکن وہ رقم بھی کسی بہانے مسجد کو ہی لوٹا دیتا ہوں کیونکہ اب مجھے اس رقم کی بہت زیادہ ضرورت نہیں رہی۔‘‘اپنے تجارتی اصولوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حافظ صاحب کہتے ہیں ’’کھانے پینے کی چیزیں اگر خراب ہورہی ہوں تو پھر ہم اسے باہر نکال دیتے ہیں تاکہ کسی کوخراب مال نہ چلا جائے اسی طرح میں تاجروں کو مال کے پیمنٹ کی ادائیگی کے لئے مہلت دیتا ہوں ،کسی کو اگر کوئی تکلیف ہے یا وقت پر رقم ادا نہیں کر رہا ہے تو اسے پریشان نہیں کرتا اسی طرح پیمنٹ کے سلسلے میں مجھے بھی کوئی پریشان نہیں کرتا۔ میری خواہش ہے کہ میں تمام ائمہ کرام کو جمع کروں اور ان سے کہوں کہ وہ بھی تجارت کی فیلڈ میں آئیں اور امامت و خطابت کے ساتھ تجارت کریں یقیناً اللہ تعالیٰ اس کا بہترین بدلہ دے گا‘‘۔