فیشن شو‘ کیسینو اور تہذیبوں کا ٹکرائو

زکوۃ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹرسید ظفر محمود
زکوۃ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹرسید ظفر محمود

ڈاکٹر سید ظفر محمود

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ انجنیرنگ میںایکس ٹیسی(Xtacy) نام کا ایک سالانہ پروگرام ہوتا رہا ہے جس کے متعلق اس کی فیس بک پر لکھا ہے کہ یہ ایک پلیٹ فارم ہے جہاں طلبا کے تکنیکی شعور و ہنرمندی کو فروغ کا موقع فراہم ہوتا ہے‘ اس کا مرکز نگاہ ہے ٹکنالوجی کی مدد سے انسانی زندگی کو بہتر بنانا۔ اس تقریب سے بظاہر نا مناسبت کے باوجوداس کے حصہ کے طور پر مجوزہ ’حسینوں کا کیسینو ‘ نامی جوے کے کھیل اور’ طرز لباس‘ نامی فیشن شو کی امسال کچھ طلبا نے مخالفت کی تو انگریزی میڈیا کے مطابق وہاں کی ایک کلمہ گو طالبہ نے کہا کہ یونیورسٹی پہلے سے ہی اپنے اقلیتی کردار کی وجہ سے دقیانوسیت کے لئے جانی جاتی ہے اور اس طرح کے واقعات اس تصور کو مزیدسہارا دیں گے کہ جامعہ رجعت پسند ہے اور یہاں کے طلبا جمہوری طرز کو اختیار نہیں کرتے ہیں۔ فیشن شو اس تقریب کو کہتے ہیں جو کوئی فیشن ڈزائنر اس لئے منعقد کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ذریعہ ڈزائن کئے گئے کپڑوں کی نمائش اس طرح کر سکے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنھیں ماڈل کہا جاتا ہے ان کپڑوں کو پہن کرتنگ چوڑائی والے اسٹیج پر ایک خاص انداز میں چل کر دکھائیں اور وہاں بیٹھے لوگ تالیاں بجائیں۔یہ ایک ثقافتی پروگرام کے طور پر بھی کیا جانے لگا ہے ‘ جیسے کہیں نمائش لگی ہو وہاں لوگوں کو گرویدہ کرنے کے لئے ایک فیشن شو بھی رکھ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھیڑ بڑھ جاتی ہے ‘ جیسے بڑے بڑے کھیلوں میں ٹکٹ زیادہ بکیں اس کے لئے سومنگ کا مقابلہ ضرور رکھا جاتا ہے ۔ فی الوقت دنیا میں مشہور ترین سالانہ فیشن شو پیرس اور نیو یارک کے علاوہ لندن‘ برلن اور ملان میں ہوتے ہیں۔ شو کے دوران تیزی میں ماڈلوں کو بار بار کپڑے بدلنے ہوتے ہیںاور میک اپ کروانا ہوتا ہے۔اس کام کے لئے ماڈل ٹی وی انٹرویو دے کر اپنا پورٹ فولیو پیش کرتے ہیں جس کے دوران بھی مخصوص جسمانی وضع قطع والے یہ لڑکے لڑکیاں مختلف لباسوں یا کم لباسی میں کیمرے کے سامنے آتے ہیں۔یہ لڑکے لڑکیاں ساتھ ہی اپنا فیشن ڈزائن کا کام شروع کر دیتے ہیں اور کچھ فلموں میں چلے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ماڈلنگ کا مارکٹ پیدا کرنے کے لئے 1969 میں برطانیہ کے اخبار ’دی سن‘ نے صفحہ تین پر جنسی شہوت کی تشہیر والے رسالوں سے منسلک ایکٹروں کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں‘ پھراس کے ہم چشم اخباروں نے بھی یہی رنگ روپ اختیار کر لیا۔تبھی سے دنیا میں سمنتھا فاکس‘ وکٹوریا سلوسٹڈ‘ پمیلا اینڈرسن‘ اینا سمتھ وغیرہ گلیمر ماڈل لڑکیاں منظر عام پر آ کر کپڑوں و خرید فروخت والی دیگر اشیا کے تاجروں کی آمدنی میں اضافہ کا باعث بننا شروع ہو گئیں۔
1990 کی دہائی میں مردوں کے الگ میگزین بھی شائع ہونا شروع ہو گئے جن میں ماڈل لڑکوں اور لڑکیوں کے باہمی رسم و راہ کے قصے بھی آنے لگے‘ اکیسویں صدی میں یہ لوگ ٹی وی چینلوں پر چھانے لگے‘ زنانے جسمانی اعضاء کی نمائش میں اضافہ ہوتا ہی گیا‘ کرکٹ فٹ بال کے میچوں میں لڑکیاں چئیر لیڈر کا رول کرنے لگیں‘غرض کہ انسانی جسم کی نمائش تجارتی سوداگری کے مالی فروغ کے لئے ہونے لگی ۔جامعہ کی طالبہ بچی کو سمجھنا ہو گا کہ در اصل یہی مخفی ایجنڈا ہے تہذیبوں کا ٹکرائو‘ورنہ مذہب تو سب ہی ایک ہی تعلیم دیتے ہیں۔بائبل میں بھی یہی لکھا ہے کہ جنت میںخدا داد حدود سے جب تجاوز کیا گیا تو مجرم کو جو سز ادی گئی وہ تھی اس کو بے لباس و برہنہ کر دینااور تب دونوں مجرموں کواپنے قصور کا احساس ہوا اور انھوں نے شرم سے پانی پانی ہو کر جنت کے دریچوں سے شاخیں توڑ کر اپنے کو ڈھکنا شروع کر دیا۔اب آئیے لفظ کیسینو (Casino)کی تحقیق کریں‘ اس کی لسانی بنیادملک اٹلی کی ہے اس کے معنی ہیں مضافاتی کلب ‘ انیسویں صدی میں اس کے معنی میں شامل ہو گئیں وہ تمام عمارتیں جہاں مسرت بخش پر لطف سرگرمیوں کا انتظام ہوخصوصاً موسیقی‘رقص وجواوغیرہ۔ لیکن آج کی دنیا خوب جانتی ہے کہ کیسینو کہتے ہیں جوے کو۔ دنیا کے درجنوں شہروں میں سیکڑوں کیسینو ہیں جن کو چلانے والوں کی کل عالمی سالانہ آمدنی 200 ارب ڈالر ہوتی ہے۔ادھر جن لوگوں کی جوے کی عادت پڑ جاتی ہے ان کی ذاتی زندگی اکثر تباہ ہو جاتی ہے ‘ وہ ادھار کے زیر بار رہتے ہیں ‘ گھر کے اثاثہ کو انھیں گروی رکھنا پڑتا ہے‘لوگ دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتے ہیں‘اسی لئے قرآن کریم میں جوے کو صریحاً حرام قرار دیا گیا ہے‘ اصول یہ ہے کہ جو اشیا حرام کر دی گئی ہیں ان کی قلیل ترین مقدار بھی حرام ہے ‘ لیکن کیونکہ جوے کا کارو بار کرنے والے مال کما رہے ہیں اس لئے وہ لوگ ان سماجی خرابیوں سے آنکھ بند کر کے اس کو عوام میں فروغ دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ یہی اب تہذیبوں کا ٹکرائوبن گیا ہے۔
اس ناموافقیت کے باوجودوجہ تسلی بھی ہے۔ ابھی حال میں نیو زی لینڈ کی مساجد میں دہشت گردانہ حملہ کے بعد وہاں کی خیر اندیش وزیر اعظم حجاب میں ملبوس ہو کر مسلمانوں سے ملیں ‘ اسلامی اسکول کے بچوں کو انھوں نے کہانیاں سنائیں‘ انھوں نے صدر ٹرمپ کو رائے دی کہ تمام مسلمانوں سے پیار محبت کا معاملہ کیا جانا چاہئے‘ پوپ نے خاموش عبادت کی اور کہا کہ وہ مسلمانوں سے خاص قربت محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں اسلامو فوبیا کے موجودہ دور کی تحلیل کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو صرف اپنی تہذیب پر فخر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس پر عمل کے لئے اصرار بھی کرنا چاہئے۔ تجارتی مفاد کے لئے اگر کچھ لوگ انسانیت کی بنیادکو تلے اوپر کرنے میں لگ گئے ہیں تو اس کے مطلب ہرگز نہیں ہیں کہ ہم بھی اسی دھارا میں بہنے لگیں‘ بھیڑ سے الگ ہٹ کے جو انسان اپنے کردار پر اعتماد کرتا ہوا تنہا کھڑا رہے دیر رس جیت اسی کی ہوتی ہے‘یہی قدرت کا قانون ہے۔ ملک برونائی کے فرمانروا نے ہم جنسی کے جرم کے ارتکاب پر سزا کے احکامات جاری کر دئے ہیں‘ اس کی مخالفت میں ہالی وڈ ایکٹر جارج کلونی اور فلم ساز ڈسٹن لانس بلیک نے دنیا میں برونائی کی ملکیت والے ہوٹلوں کا بائی کاٹ کرنے کے لئے کہا ہے‘یہ ہے تہذیبوں کا اصل ٹکرائو۔یہاں ہے اصل امتحان کہ کون انسان اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا حق نبھا رہا ہے اور کون عارضی ذاتی فائدہ کی قربان گاہ میں انسانیت کی بنیادی اقدار کو بلی چڑھا نے کے لئے راضی ہے۔ اب سے چار دہائی قبل سول سروسز میں کامیابی کے بعد راقم السطور متعدد صوبوں میںحکومت کے سینئر عہدوں پر تعینات رہا ‘ سروس کی شروعات میں ہی ایک محفل میں افسر لوگ شراب نوشی میں مبتلا تھے مجھ سے اصرار کیامیں نے معافی مانگ لی‘ کسی نے مجھ پر دوبارہ زور دیا تو محفل کے بزرگ ترین افسر نے زور سے کہا کہ وہ مسلمان ہے ‘ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ ہمیںسماجی و ملکی اخلاقیات اور ذاتی اخلاقیات میں بیجا تفریق نہیں کرنی چاہئے‘ یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اگر بچی ہماری ہے تو اس کے لئے بہترین حدود مقرر ہیں لیکن جب عوام الناس سے متعلق گفتگو ہو رہی ہو تو اس کے لئے ہمارا پیمانہ خم دار ہو جائے‘ دوسرے کی بچی بھی ہماری بچی ہے‘ عدل و احسان کا جو معاملہ ہم اندرون خانہ کریں وہی عوام کے لئے بھی ہونا چاہئے۔ جامعہ ملیہ کی اس سالانہ تقریب کے نام ایکس ٹیسی کی بھی تحقیق کر کے اس کی مناسبت پر نظر ثانی کر لی جائے تو بہتر ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *