
علم معاشیات کا قرآنی تصور

ابونصر فاروق: رابطہ:8298104514-6287880551
اسلامی علم معاشیات پر صرف وہی لوگ گفتگو کر سکتے ہیں جنہوں نے قرآن اور احادیث کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اسلام کے فلسفہ حیات و کائنات کو پوری طرح سے سمجھ لیا ہے۔علم معاشیات کا تعلق انسان کی دنیاوی زندگی سے ہے۔اس کائنات میں زمین، آسمان۔ ستارے،سیارے،آگ، پانی، ہوا، روشنی، اندھیرا،فضااور خلا وغیرہ موجود ہیں۔کائنات کی تخلیق ان عناصر سے کرنے میں کیا حکمت ہے اورانسان کو اس کائنات میں بسانے کی کیا ضرورت ہوئی، یہ ساری باتیں قرآن کے سوا کہیں نہیں ملیں گی۔انسان کی تخلیق، دنیا میں اس کی پیدائش، موت اور پھرآخرت کی حیات ابدی کے متعلق قرآن میں مکمل تفصیل کے ساتھ باتیں بیان کی گئی ہیں۔
مذکورہ بالا تصور کے تحت میں مندرجہ ذیل قرآنی آیات کے حوالے سے اسلام کے نظام معاشیات کی وضاحت پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔اگر کوئی اس سے اختلاف کرتا ہے تو اس کا ان باتوں کو نہیں ماننا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ، بلکہ اس کو بھی اسی طرح قرآنی آیات کے حوالے سے اس تصورکی تردید کرنی ہوگی جو یہاںپیش کیاجارہا ہے۔اس سے بڑھ کر یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ جو فرد ان امور کا انکار کرے گا اس کا ایمان و اسلام ہی مشکوک ہو جائے گا۔اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ایسا فرد مومن نہیں بلکہ کافر شمار ہوگا۔اوکافر و مشرک ہونا انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔
(01)دنیا کی حیثیتاِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلً (۷)وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْہَا صَعِیْدًا جُرُزًا (۸)واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ بھی سر و سامان اس زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کوآزمائیں ان میںکون بہتر عمل کرنےوالا ہے۔(۷)آخر کار ہم اس سب کو ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔(۸)(سورہ ٔالملک)
(02)زمین میں معیشت کے اسباب مہیا کئے گئے ہیں:وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰھَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ وَ اَنْـبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیئٍ مَّوْزُوْنٍ – وَجَعَلْنَاکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ-(الحجر:۱۹/۲۰)ہم نے زمین کو پھیلایا اس میں پہاڑ جمائے،اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کئے، تمہارے لئے بھی اور ان بہت سی مخلوقات کے لئے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو ۔قرآن کے اس بیان کے مطابق زمین پر جو کچھ ہے وہ انسان کی عارضی زندگی کی ضرورتوں کے لحاظ سے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ ان کو استعمال کر کے سہولت اور آرام کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کر سکے۔اس مضمون سے یہ باتیں سامنے آتی ہیں:
(۱) زمین پر جو کچھ ہے وہ انسان کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ رب العالمین کا بنایا ہو ا ہے۔
(۲) انسان نے اللہ کی دی ہوئی عقل و حکمت سے ان قدرتی چیزوں کو استعمال کرنے کا ہنر سیکھ کر ان کو ترقی دی ہے۔
(۳) انسان کی حیثیت زمین پر ایک مہمان کی سی ہے جسے میسر اسباب میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ استعمال کرنا ہے
(۴) مہمان جب تک مہمان رہتا ہے صرف اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے،مستقبل کے لئے کچھ جمع نہیں کرتا ہے۔
(۵) مہمان کو یہ عقیدہ اور ایمان رکھنا چاہئے کہ میزبان یعنی اللہ نے بہترین مہمانی کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ بندہ
یعنی مہمان میزبان یعنی اللہ کے قاعدے قانون کی خلاف ورزی نہ کرے اور بے ایمانی اور بد دیانتی سے کام نہ لے۔
(03) کسی کو کم کسی کو زیادہ ملا ہے:وَھُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضُکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتِ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآاٰ تٰـکُمْ ط اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ ز وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرُ الرَّحِیْمُٗ-(الانعام :آیت۱۶۵)وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دئے تا کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔
ان آیتوں میں کہا جارہا ہے کہ زمین پر جتنے مہمان آسمان سے بھیجے گئے ہیں ان کی حیثیت ایک جیسی نہیں ہے۔کسی کو ہوٹل کے ڈیلکس روم میں، کسی کو مڈل کلاس میں اور کسی کو معمولی درجے میں ٹھہرایا گیا ہے۔درجات اور حیثیت کی یہ تفریق مہمانوں کے برتر اور کم تر ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ آزمایا جائے کہ یہ مہمان ہر حال میں میزبان(اللہ) کے شکر گزار اور احسان مند رہتے ہیں یا شکوہ شکایت کرنے لگتے ہیں۔مہمانوں کو شکایت کرنے کی کوئی گنجائش اس لئے نہیں ہے کہ یہاں جو کچھ ملا ہے وہ ان کا حق نہیں ہے جو یہ سمجھیں کہ ہماری حق تلفی کی گئی ہے،بلکہ جو کچھ بھی مل گیا ہے وہ میزبان کا ہر حال میں احسان ہے۔
(04)رزق کی فراخی اور تنگی:اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ ط وَفَرِحُوْا بِالْحَیَاۃُ الدُّ نْیَاط وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّ نْیَا فِیْ الْآخِرَۃِ اِلَّامَتَاعُٗ،اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے،یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میںایک متاع قلیل کے سوا کچھ نہیں۔(الرعد:۲۶)
اگر وہ مہمان جو ڈیلکس کلاس میں ٹھہرائے گئے ہیں خود کو برتر اور معمولی درجہ والوں کو کمتر سمجھتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ڈیلکس کلاس والے معمولی درجے میںچلے جائیں گے اور معمولی درجے والے ڈیلکس کلاس میں پہنچا دیے جائیں گے۔ڈیلکس کلاس والوں کااپنی حیثیت پر فخر و غرور حماقت اور نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ چاہے وہ کسی درجے میں رہیں ایک دن ان کو اس جگہ سے باہر کر دیا جائے گااور سب کے سب برابر ہو جائیں گے۔ان میں خوش نصیب اور کامیاب وہ ہے جو ہر حال میں میزبان کا شکر گزاراور احسان مند رہا۔کیونکہ اس کا یہی رویہ آنے والے وقت میں اس کے کام آئے گا۔اور جو آنے والے وقت کو بھول کر اسی حقیر مہمان نوازی میںمست و مگن رہ کر ناشکر گزار اور احسان فراموش بن گیا وہ تو ناکام ونامراد ہو گیا۔
(05)معیشت ہم نے تقسیم کی ہے:کیا تیر ے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔اور تیرے رب کی رحمت(نبوت) اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو( ان کے رئیس )سمیٹ رہے ہیں۔ (الزخرف:۳۲)اس آیت میں کہاجارہا ہے کہ اللہ کی رحمت یعنی زندگی گزارنے کے سارے اسباب کیا انسان ایک دوسرے کو دینے کے مجاز ہیں کہ کس کو کتنا ملے گا ؟ یہ فیصلہ تو کائنات کے بنانے والے اور دنیا میں انسانوں کوپیدا کر کے بھیجنے والا اللہ کرتا ہے۔اور یہ جو کسی کوکم اور کسی کو زیادہ ملا ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر زمین پر نادار اور ضرورت مند لوگ نہیں ہوتے تو ایسی خدمات جو امیر و کبیر لوگ انجام نہیں دے سکتے ہیں ان کے لئے آدمی کہاں سے آتا۔ایسی تما خدمات جو معمولی یا حقیر یا نفرت انگیز سمجھی جاتی ہیں یا جن میں بہت زیادہ محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، کبھی زردار اور مالدار لوگ ایسی خدمات انجام نہیں دے سکتے ہیں۔حقیقت پسندی اور انسان دوستی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ مالدار اور زردار لوگ محنت کش مزدور عوام کی قدر کرتے، ان سے ہمدردی جتاتے،ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے لیکن یہ احمق اور نادان ان کا احسان مند ہونے کی جگہ ان کا استحصال کرتے ہیں، ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو زمین پر جینے کا حق بھی دینا نہیں چاہتے۔ ایسے زردار اور مالدار لوگ شریف اور اچھے انسان کیسے ہو سکتے ہیں جن کے دلوں میں انسانیت کا درد نہیں ہے۔
(06)معیشت پر اترانے والوں کا انجام:اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے،سو دیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے۔ آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔(القصص آیت۵۸)
زمین پر بسنے والے مالداروں اور زرداروں کو جو کچھ خالق کائنات نے بخشا تھا ، وہ اسے اللہ کی رحمت اور نعمت سمجھنے کی جگہ اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھنے لگے۔اس پر فخرو غرور میں مبتلا ہو گئے اور شیخیاں بگھارنے لگے۔یہ سب کچھ خدا فراموشی کے سبب ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک وقت خاص تک سنبھل اور سدھر جانے کی مہلت دی لیکن جب انہوں نے مہلت کا یہ وقت گنوا دیا تو پھر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈنڈا ان پر چلا اور ایسا چلا کہ صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا میں کیسی کیسی طاقتور، ہنر مند اور زبردست قومیں پیدا ہوئی تھیں لیکن آج ان کا کوئی اتا پتا زمین پر نہیں ملتا ہے۔یہ کہہ کر سمجھایاجارہا ہے کہ اگر تم بھی وہی رویہ اپناؤگے تو سمجھ لو کہ تمہارا بھی وہی انجام ہوگا۔
(07)فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں:اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْآ اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ط وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْراً-(بنی اسرائیل:آیت۲۷)فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ہوٹل میں ٹھہرائے گئے مہمانوں کا فرض یہ تھا کہ ضرورت کے مطابق چیزیں استعمال کریں اور باقی حصہ دوسروں کے لئے چھوڑ دیں۔لیکن انہوں نے کیا یہ کہ ضرورت سے زیادہ سامان لے کر برباد کرنے لگے۔ان کی اس فضول خرچی کی وجہ سے ہوٹل میں جو اسباب تھے ان کا تناسب بگڑ گیا اور دوسرے لوگوں کو ضرورت کی چیزیں ان کی ضرورت کے مطابق مہیا نہیں ہونے لگیں۔نظام تقسیم کی یہ خرابی اللہ نے نہیں انسانوں نے پیدا کر دی جس کا نقصان کمزور اور معمولی لوگوں کو ہونے لگا۔اس آیت میں سمجھایاجارہا ہے کہ زمین پر تمہارے ساتھ شیطان بھی آیا ہے جو تمہارا خطرناک دشمن ہے۔وہ کبھی تمہارا دوست نہیں بن سکتا ہے۔کبھی بھی اس کے بہکاوے میں نہ آنا۔شیطان اور اس کے ساتھی سب کے سب جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے۔زندگی کے کسی معاملے میں بھی فضول خرچی ایک شیطانی عمل ہے اور اس کا شمار رب کی ناشکری میں ہوتا ہے جو گناہ عظیم ہے۔
(08)ذکر الٰہی سے غفلت کا انجام:وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنَکاً وَّ نَحْشَرَھٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی-(طٰہٰ:آیت۱۲۴)اورجو میرے ذکرسے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔
اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ جو آدمی یا جو قوم یا گروہ دنیا میں مست و مگن ہو کر اللہ کے ذکر یعنی اس کی عبادت و بندگی، تسبیح و تحلیل، حمد و ثنا اور اس کا احسان ماننے کے ساتھ اس کی شکر گزاری سے غافل ہو جائے گا تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ ظاہری طور پر دنیا تو بہت زیادہ سمیٹ لے گا لیکن اس کی زندگی کی ایسی کیفیت ہو جائے گی وہ ہر لمحہ گھٹن کا احساس کرے گا، فراغت اور خوش حالی سے محروم رہے گا۔سب کچھ پالینے کے بعد بھی زندگی سچی خوشی، دل کے اطمینان اور دماغ کے سکون سے محروم رہے گا۔اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ قیامت کے دن وہ اندھا اٹھایا جائے گا جس کی وجہ سے وہ کچھ دیکھ ہی نہیں سکے گا۔ زندگی میں انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ نابینا ہو جائے اور دنیا کی رونق و رنگینی کو دیکھ ہی نہ سکے۔ان تمام آیتوں کے بغور مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زندگی میں انسان کو صرف مادی اسباب کی ہی ضرورت نہیں ہے۔اس کو اچھی زندگی گزارنے کے لئے سماج میں عزت چاہئے، لوگوں کی محبت چاہئے،انسانوں کی ہمدردی اور تعاون چاہئے،ضرورت کے وقت مددگاروں کی مدد چاہئے، دل کوچین اور دماغ کو سکون چاہئے،ایسی خوشی چاہئے جو اس کو باغ باغ کر دے۔ہر طرح کے خطرے اور نقصان سے بچاؤ کی تدبیر چاہئے۔ایسے رنج و غم سے پناہ چاہئے جو اس کی خوشی میں زہر گھول دیتا ہے۔
وہ اپنی کوشش سے مادی اسباب تو حاصل کر سکتا ہے لیکن ایک شاندار اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لئے جن دوسری چیزوں کی ضرورت ہے وہ خود سے مہیا نہیں کر سکتا ہے۔یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ انسانوں کو دیتا ہے۔مادی اسباب کے ساتھ ان روحانی نعمتوں سے زندگی میں شامانی کا سچا رنگ بھرا جاتا ہے۔یہ سب کچھ اس انسان کو ملے گا جو اللہ کا فرماں بردار اور وفادار بن کر دنیا میں رہے گا۔اس کو محبت دنیا اور اس کی دولت و اسباب سے نہیں اللہ تعالیٰ سے اس کے بھیجے رسول کے طریقہ زندگی سے ہوگا ۔ اس کی زندگی کو دیکھ کر صاف معلوم ہوگا کہ دنیا کا نہیں آخرت کا مسافر ہے۔یہی ہے اسلامی اور قرآنی معاشیات کا تصور۔اس کا عملی نمونہ مدینہ کے تیس سالہ دور نبوت اوردور خلافت میں دکھائی دیتا ہے۔