امید فائونڈیشن نے ممبرا والوں میں ’’امید ‘‘جگائی ہے لیکن علاقے سے کوئی ’’امید ‘‘وابستہ نہیں کی ہے

این جی او کے رہنما پرویز محمد علی نے معذوروں میں ایسی خوشیاں بکھیری ہیں کہ ہر آدمی دعا گو نظر آتا ہےمعیشت کے مدیر دانش ریاض فلاحی نے امید فائونڈیشن کا تفصیلی جائزہ لیا پیش ہے تفصیلی رپورٹ
کوسہ کے چاند نگر کی چھوٹی سی آفس میں امید فائونڈیشن کے سربراہ پرویز محمد علی اپنے متعلقین کے ساتھ ہمہ وقت اس خیال میں غلطاں رہتے ہیں کہ آخر معذورین کے اندر زندگی کے احساس کو برقرار رکھنے کا جو بیڑہ انہوں نے اٹھایا ہے اسے کامیابی کے ساتھ کیسے برقرار رکھا جائے۔۱۱،اگست ۱۹۷۸ کو وکرولی کی ایک چال میں محمد علی کےگھر پیدا ہوئے پرویز کا پوراگھرانہ والدین کے ساتھ تین بھائی اور دو بہنوں پر مشتمل تھا۔بڑے بھائی عبد القادر،منجھلے امتیاز اور سب سے چھوٹے عمران کےساتھ بہنیںفرزانہ و شبانہ نے اپنے بھائی کے اندر خدمت خلق کے جذبے کو دیکھا تھا جو کم لوگوں کے اندر ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ پرویز نے اپنےبڑے بھائی کے بچے کی حالت دیکھ کرہی پورے خاندان میں ’’امید‘‘ کی لو جلائی تھی جو آج ملکی پیمانے پر اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ وکرولی میونسپل اسکول سے یکم جماعت پاس کرنے کے بعد جب پوراگھرانہ ممبرا منتقل ہوگیا تو پرویز نے بھی درجہ دوم سے ممبرا میں ہی تعلیمی سلسلے کا آغاز کردیا۔پرویز معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’جب ہمارا خاندان ممبرا منتقل ہوا تو ہم نے درگاہ کے پاس مصطفیٰ چال میں رہائش اختیار کر لی۔غربت و کسمپرسی کے دور کو ہم نے قریب سے دیکھا تھا لہذا بارہویں کے بعد میں نے کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام سیکھا اور جیٹ کنگ میں نوکری کرنے لگا۔ملازمت کے دوران ہی میں نے ہندوستان اکیڈمی کی بنیاد رکھی اور وہاں مختلف لوگوں کو کمپیوٹر ٹریننگ دینے لگااور پھر اسی درمیان ۲۰۱۰ میں میں نے’’امید‘‘این جی او کا آغاز کیا ۔گوکہ اس کا رجسٹریشن ۲۰۱۱ میں ملا لیکن گھر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نے بہت پہلے ہی اسے شروع کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔‘‘پرو یزکہتے ہیں’’میرے بڑے بھائی کا بیٹا دماغی طور پر معذور تھا اس کی حالت کے ساتھ اس کے والدین کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اسی وقت یہ احساس ہوا کہ معلوم نہیں کتنے ایسے لوگ ہوں گے جن کے بچے معذور ہوں گے اور وہ ذہنی کرب میں مبتلا رہ کر زندگی گذار رہے ہوں گے ،کیا ہی بہتر ہو کہ ان لوگوں کے کرب کو کم کیا جائے اور بچوں کے ساتھ والدین میں بھی امید جگائی جائے‘‘۔پرویز کے مطابق ’’چونکہ ۲۰۰۰ سے ہی میں شیل پھاٹا پر اپنا ایک اسکول جسے رفیقہ ہائی اسکول کہا جاتا ہے چلا رہا تھا لہذا مجھے اس بات کا تو تجربہ تھا کہ تعلیمی نظام کیسے قائم کیا جائے لیکن اس بات کا علم نہیں تھا کہ معذوروں کا اسکول کیسے قائم کیا جاسکتا ہے۔لیکن کہتے ہیں جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ نکل آتی ہے لہذا جب ’’امید فائونڈیشن ‘‘کا آغاز ہواتو کالسیکر ٹرسٹ،خدمت ٹرسٹ،مہتا ٹرسٹ وغیرہ نے بھی اپنا تعاون دراز کیا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔‘‘

یقیناًقسمت کالونی کے انتہائی اخیر میں اقبال منزل نہ صرف معذور بچوں کا اقبال بلند کر رہاہے بلکہ مذکورہ مقام پر ان کی قسمت کو سنوارنے کا کام بھی بحسن و خوبی انجام پا رہا ہے۔۲۰۱۰ میں امید فائونڈیشن سے وابستہ ہوئیں۶۵سالہ نورالنساء جنہیں عرف عام میں نور جہاں کہا جاتا ہے معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’میں پہلے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی ،بیوگی کی زندگی جی رہی تھی کہ پرویز سر سے ملاقات ہوئی اور میں نے امید فائونڈیشن میں شمولیت اختیار کرلی ،آج کئی برس گذر گئے ہیں لیکن ان برسوں میں جس طرح ہم نے معذور بچوں کی خدمت کی ہے اس کی مثال ممبرا میں کہیں اور نہیں ملتی۔میں نے پرویز صاحب کو شروع سے دیکھا ہے ،بچوں کی تعلیم کے لئے ،ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وہ رات رات بھر سویا نہیں کرتے تھے لیکن الحمد للہ ان کی محنت اب رنگ لا رہی ہے۔طلاق شدہ اور بیوہ عورتوں کے لئے انہوں نے ٹریننگ سینٹر قائم کیا نہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کے لئے بلکہ غیر مذہب کے لوگ بھی یہاں آکر جس طرح خوشی محسوس کرتے ہیں یہ کم ہی دیکھنے کو ملا ہےـ‘‘۔نو رالنساء کہتی ہیں ’’جس وقت ہم لوگوں نے امید میں شمولیت اختیار کی تھی اس وقت غیر تربیت یافتہ تھے یہ پرویز سر کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں ٹریننگ دی گئی اور اب ہم اس ادارے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتے ہیں‘‘۔

مہا دیو مانے جنہوں نے ادارے میں ایک برس مکمل کر لیا ہے معیشت سے کہتے ہیں ’’جس وقت میں آیا تھا اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں یہاں رہ پائوں گا بھی یا نہیں لیکن اب سال گذرنے کے بعد نہ صرف بچوں سے محبت ہوگئی ہے بلکہ انہیں چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کرتا ہے‘‘۔Diploma in ugly children مکمل کرچکی رضیہ صدیقی گذشتہ چھ برس سے امید فائونڈیشن میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر معمور ہیں چونکہ پرویز صاحب نے ہی مذکورہ کورس کروایا ہے لہذا وہ ادارے کی خدمت بھی دل و جان سے کر رہی ہیں معیشت سے کہتی ہیں ’’معذور بچوں کو پڑھانا بہت آسان نہیں ہے لیکن جب یہ آپ سے محبت کرنے لگیں تو پھر انہیں چھوڑ کر جانا بھی آسان نہیں لگتا ۔میں نے 2015-16 میں ڈپلومہ کا کورس صرف اسی وجہ سے کیا کہ میں بچوں کو بہتر طور سے پڑھا سکوں اور ان کی تربیت کرسکوں۔‘‘۵ برسوں سے اپنی خدمات پیش کر رہی نسیمہ دھالویلکر جنہوں نے محض ایک ماہ کا کورس کیا ہے کہتی ہیں ’’میں صبح میں دماغی معذور بچوں کو پڑھاتی ہوں جبکہ شام میں نابینا بچوں کا کلاس لیتی ہوں ۔ ‘‘نسیمہ کی طرح شازیہ چوگلے جنہوں نے سائیکلوجی میں گریجویشن کیا ہے گذشتہ دو برس سے پڑھا رہی ہیں ۔اسی طرح ترپتی گالےجنہوں نے اسپیشل بچوں کی تعلیم کے لئے بی ایڈ کیا ہے ۱۰ویں اور ۱۲ویں کے بچوں کو پڑھا رہی ہیں جبکہ گائتری گوڑے جو فی الحال بی ایڈ کر رہی ہیں لیکن ایک برس سے امید فائونڈیشن میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں‘‘۔
معذور بچوں کی تعلیم و تربیت پر معمور اساتذہ سے گفتگو کرنے کے بعد جب آپ معذور بچوں اور ان کے والدین سے گفتگو کریں گے تو امید فائونڈیشن کی خدمات کا مزید اندازہ ہوجائے گا۔معذورین میں شامل دسویں کا امتحان دینے والا حمزہ اب امتحان کے لئے مکمل طور پر تیار ہے آٹو رکشہ چلانے والے والد یوسف خان اور والدہ فرحت خان اس بات سے انتہائی خوش ہیں کہ ان کا بچہ اب اس لائق تو ہوگیا ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں کم از کم ایک قدم ہی آگے بڑھ رہا ہے۔موچی کا کام کرنے والے محمد عارف اور شمشاد بانو کا بیٹا سعد عارف شیخ دو برس سے فائونڈیشن سے استفادہ کر رہا ہے ۔۱۵ سالہ مومن ثقلین اعجاز کے والد اعجاز احمد جو رکشہ چلاتے ہیں ۴برسوں سے ’’امید ‘‘کی خدمات سے مستفیدہو رہے ہیں۔۱۵ سالہ نبیل اسلم جو کبھی ہولی فاطمہ میں پڑھائی کر رہا تھا اور جسے اس بنیاد پر کہ ذہنی معذور ہے نکال دیا گیا تھا اب دسویں کے امتحان کے لئے تیار ہے۔ والدہ زرین پروین معیشت سے کہتی ہیں ’’اس کے والد اسلم اور میں اس بات سے پریشان رہا کرتی تھی کہ جب میرا بچہ عام بچوں کی طرح نہیں ہے تو پھر وہ اپنی زندگی کیسے جی پائے گا لیکن جب امید فائونڈیشن کی طرف سے چلائے جا رہے اسکول میں داخلہ کروایا تو مجھے یک گونہ سکون حاصل ہوا کہ یہاں میرا بچہ زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے ۔‘‘وہ کہتی ہیں ’’یہاں چونکہ تمام بچے معذور ہیں لہذا وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو سمجھتے ہیں اسلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں‘‘۔اپنے بچے کے متعلق بتاتے ہوئے عرفانہ کہتی ہیں ’’میرابچہ کچھ کام نہیں کرپاتا تھا عجیب خوف محسوس کرتا تھا جبکہ بولنے میں بھی اسے دشواری کا سامنا کرنا پرتا تھا لیکن یہاں آنے کے بعد نہ صرف وہ باتوں کو سمجھنے لگا ہے بلکہ ہر کام خود سے کرنے لگا ہے ،ہم لوگوں کو اس کی بات بھی سمجھ میں آنے لگی ہے جبکہ وہ ہماری بات بھی سمجھنے لگا ہے میں یہ سمجھتی ہوں کہ امید فائوندیشن کا یہ ادارہ یقیناً ہم جیسے لوگوں کے لئے ایک نعمت ہے۔‘‘۔
دلچسپ داستان تو فضل ایوب خان کی ہے جس کی والدہ نصیرہ ایوب خان کہتی ہیں ’’میرا بچہ دس برسوں سے اس ادارے میں ہے ۱۲ویں کی تعلیم بھی یہیں سے مکمل کیا ہے اور اب ریلائنس مارکیٹ میں ملازمت کے لئے منتخب ہوگیا ہے۔معذور ہوتے ہوئے اس نے جس شوق سے پڑھائی کی مجھے یقیناً اس کی امید نہیں تھی لیکن اب تو وہ کام کرنے اور پیسے کمانے والا بھی بن گیا ہے ۔یقیناً اللہ کا لاکھ کرم ہے کہ ممبرا جیسے علاقے میں امید فائونڈیشن جیسا ادارہ موجودہے۔‘‘۔فیزیو تھیراپی کے شعبہ سے وابستہ پروین شاہد خان جو دس برس سے معذور بچوں کی فیزیو تھیراپی کرا رہی ہیں معیشت سے کہتی ہیں ’’معذور بچوں کا ایک علاج فیزیو تھیراپی ہے ،ممبرا میں رہائش پذیر اکثریت ایسی ہے جو روزانہ فیزیو تھیراپی کے خرچ کو برداشت نہیں کرسکتی لہذا ہم نے اس سینٹر کا بھی آغاز کیا تاکہ وہ لوگ جو مفت میں ان خدمات سے استفادہ کرنا چاہتے ہوں وہ آئیں اور اپنے بچوں کی فیزیوتھیراپی کراوائیں۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ بہت سارے بچوں کو اس سے افاقہ ملا ہے۔‘‘
جب آپ معذور بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان سے مستقبل کے عزائم دریافت کریں گے تو کوئی ایسا بچہ نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ میں کچھ نہیں کرنا چاہتا بلکہ ڈاکٹر ،انجینئر ،سافٹ ویئر ڈیولپر،پولس آفیسرکے ان جدید پروفیشنل بننے کی تمنا کرنے والے بھی مل جائیں گے جو نارمل بچے بڑی مشکل سے کیا کرتے ہیں۔
پرویز کہتے ہیں ’’ہمارے پاس فی الحال ۴۸ بچے ہیں جس کی مکمل ذمہ داری فائونڈیشن اٹھا رہا ہے ،ہم جہاں The National Institute of Open Schooling (NIOS)سے تمام بچوں کو امتحانات دلوا رہے ہیں وہیں ان کی ملازمت کے لئے مختلف کمپنیوں سے بات بھی کر رہے ہیں ۔۲ بچے ۱۲ویں پاس ہوچکے ہیں جبکہ ۱۴بچے دسویں کا امتحان دے رہے ہیں ۔ایک بچہ ضمیر ڈھالےنے ریلائنس مارکیٹ میں ملازمت شروع کردی ہےجس کی ابتدائی تنخواہ سات ہزار متعین کی گئی ہے ۔یہ چیزیں ہم تمام لوگوں کے لئے حوصلہ افزاء ہیں‘‘۔ممبرا میں مزید اسکولس کی ضرورت کا تذکرہ کرتے ہوئے پرویز کہتے ہیں ’’مسلمانوں کی آبادی جس قدر بڑھ رہی ہے اور معذورین کی تعداد میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس طرح کے ادارے مزید ہونے چاہئیں۔ہمارے یہاں مسائل کا انبار ہے لیکن کام کرنے والوں کی کمی ہے۔‘‘