سلمان فارسیؓ اسکول میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے

سلمان فارسیؓ اسکو ل کےسربراہ مولانا محمد اجمل ندوی
سلمان فارسیؓ اسکو ل کےسربراہ مولانا محمد اجمل ندوی، (تصویر: معیشت)

ادارے کے سربراہ مولانا محمد اجمل ندوی کا کہنا ہے کہ ممبرا کوسہ میں بہت سارے ادارے ہیں جہاں تعلیم کا نظم قائم ہے لیکن جو تربیت ہم دے رہے ہیں وہ دوسروں کے یہاں خال خال ہی نظر آتا ہے

ممبرا(معیشت نیوز) ’’یہ کون نہیں جانتا کہ مسلمان تمام دنیائے انسانیت پر حکمراں تھے۔ انہیں یہ حکمرانی خاندانی وراثت کی بنا پر نہیں بلکہ ان کی قابلیت اور صلاحیت، تقویٰ اور خشیت الٰہی کی وجہ سے حاصل تھی۔ مختلف علوم وفنون کے وہ مالک تھے، ساری تہذیبیں، ثقافتیں ان کے اخلاق و عادات کا آئینہ دار تھیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان علم وہنر سے بیگانہ ہوئے، وقت کی قدر وقیمت سے نا آشنا ہوئے تو ارض الٰہی اپنی کشادگی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ باعزت زندگی گزارنے کیلئے ایک دوسرے سے سوال کررہے ہیں۔ لیکن کیا یہ عزت انہیں دست طلب پھیلانے سے حاصل ہوجائے گی۔ کیا ماضی کی عزت وجاہ دوبارہ لوٹ آئے گی۔اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ ہر گز نہیں، بلکہ اس کے لئے اپنے آپ کو ہر فن کا مرد میداں بنانا ہوگا‘‘۔ان خیالات کا اظہار ممبرا کے وفاپارک میں واقع سلمان فارسی اسکول کے سربراہ محمد اجمل سراج احمد نے نجی گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’موجودہ دور میں مدارس کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ ہر طرف سے یہ صدا بلند ہورہی ہے کہ تعلیم اس وقت کی سخت ضرورت ہے اور اس جانب غیر معمولی اقدامات کئے جارہے ہیں اور والدین شعوری طور پر اپنے گوشۂ جگر کو ان مدارس میں داخلہ دلوا رہے ہیں اس سے قطع نظر کہ یہ اسکول کس نظریہ و افکارکا حامل ہے۔ جب کہ بعض اسکول جو کھلم کھلا الحاد واباحیت کو رواج دے رہیں لیکن دُھن سوار ہے انگلش میڈیم کا، اس دُھن نے ان سے تعلیم دین کی ضرورت، اسلامی تہذیب وثقافت اور صحیح عقائد و خیالات کے شعور کو ختم کردیا ہے۔ نتیجتاًنئی نسلیں اخلاقی اقدار سے بے بہرہ ، اسلامی آداب وسلوک سے لاعلم ہیں، صوم و صلاۃ کی اہمیت سمجھیں، نہ ہی قرآن وحدیث کی عظمت جانیں۔ بڑوںاور بزرگوں کا ادب کریں، نہ ہی والدین کی اطاعت۔اس لئے ضرورت ہے اس بات کی کہ اسلامی ماحول میں تعلیم دی جائے، دین و دنیا دونوں کی تعلیم ساتھ دی جائے۔ نہ ہی اس کی شریعت میں ممانعت اور نہ ہی مذمت۔ بلکہ دنیاوی و دینی تعلیم دونوں ہی ملت کے امراض کی دوا اور مسلمانوں کے ارتقاء کا زینہ ہے‘‘۔انہوںنے کہا کہ ’’ سلمان فارسی اسکول درحقیقت اسی احساس کا پرتو ہےجس کا آغاز آج سے۵ سال قبل عمل میں آیا.یہ اسکول ممبرا وکوسہ کے چند نمائندہ اسکولوں میں سے ایک ہے جس کا قیام ۲۵؍مارچ ۲۰۰۷؁ء کو سلمان الفارسی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی سرپرستی میں ہوا اور اسی سال ماہ جون سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ اور الحمد للّٰہ اس سال چھٹی جماعت تک تعلیم کا مکمل بندوبست ہے۔ نیز انگلش میڈیم میں نرسری تا چوتھی جماعت تک کے تعلیم کا مکمل نظم ہے۔ فی الحال ۲۱ معلمین ومعلمات تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔دیگر ۳ اسٹاف ہیں‘‘۔
دار العلوم ندوۃ العلماء سے ۱۹۹۰؁ میںعالمیت اور پھر عربی زبان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ۱۹۹۴؁ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لینے والے محمد اجمل سراج احمدجنہوں نےامریکہ میں واقع یونائیٹڈ نیشن کے صدر دفتر میں قطری مشن پر ملازمت بھی اختیار کی ہے سلمان فارسی اسکول کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’۱۹۹۵؁ میں جب میں امریکہ گیا تو وہاں کے معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا لہذا ایک سال بعد ہی جب ۱۹۹۶؁ میں ممبئی واپس آیا تو جامعہ اسلامیہ نور باغ کوسہ میں درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگیااور پھر مسلسل دس برس تک تعلیم و تعلم سے جڑا رہا ۔لیکن ایک دن اچانک دینی و عصری تعلیم کے امتزاج پر گفتگو شروع ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ ایک ایسا جامع نصاب ترتیب دیاجانا چاہئے جو دینی و عصری تعلیم کے تقاضوں کو پورا کرسکے لہذا سلمان فارسی کی بنیاد رکھی گئی‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے اغراض ومقاصدمیں جہاں ’’ مکمل اسلامی ماحول اور پردہ میں تعلیم‘‘،’’ ماہر اساتذہ اور معلمات کی ٹیم‘‘،’’ نرسری سے قرآن کی تعلیم اس نہج سے کہ طالبعلم H.S.C تک مع ترجمہ قرآن کے اکثر اجزاء حفظ کر لے جائیں‘‘’’ توحید، حدیث، فقہ کی تعلیم اس انداز سے کہ بچہ اپنی زبان میں مفہوم ادا کرسکیں‘‘’’ سیرت انبیاء اور صحابہ کی سیرت کی روشنی میںصلاۃ کی عملی تعلیم نیز بچہ کی اسلامی کردارسازی، ’’بچوں کو اردوو انگلش میں طریقۂ خطابت ‘‘’’’’ عصری علوم کے تمام مضامین جیسے ریاضی، جغرافیہ، سائنس، آرٹ ، کرافٹ، انگلش وغیرہ‘‘’’ ایسی تعلیم کہ ہوم ورک سے نجات مل جائے‘‘کے ساتھ ساتھ ’’ نرسری کے بچوں کے کھیل کا انتظام‘‘ بھی کیا ہے تاکہ بچے چاک و چوبند رہیں۔‘‘مزید تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے مولانا محمداجمل ندوی کہتے ہیں ’’ سلمان فارسی اسکول کے نصاب تعلیم میں نرسری سے باقاعدہ عربی مضامین بھی داخل ہیں کہ اگر کوئی طالب علم صرف دینی تعلیم سیکھنا چاہتا ہے تو وہ دسویں کے بعد براہ راست عالمیت کے لئے کسی بھی مدرسہ کےمقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہوکر داخلہ لے سکے۔جبکہ بچوں میں ثقافتی رجحان پیدا کرنے کے لئے ہر ماہ ثقافتی پروگرام رکھا جاتا ہے تاکہ بچے لوگوں تک دین کی دعوت پہنچاسکیں ۔ان کے اندر تقریر کا ملکہ پیدا کیا جاتا ہے اور ہر ٹرم میں انہیں ایک تقریر یاد کرائی جاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بچوں میںجہاں اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں وہیںدیگر مذاہب کی تعلیمات سے بھی روشناس کرایا جاتا ہے۔ جیسے ہندومت، یہودیت، عیسایئت، بدھ مت، سکھ اور پارسی تاکہ قوم کے لوگوں کے درمیان اسلام کا صحیح تعارف کراسکیں اور دیگر مذاہب میں کیا خرابیاں ہیں اسلام میں کیا اچھائیاں ہیں باور کراسکیں‘‘
مولانا محمد اجمل ندوی کہتے ہیں ’’الحمد للّٰہ، سلمان فارسی اسکول اردو انگلش دونوں ذریعہ تعلیم کا حامل ہے اور اب تک جس کلاس تک تعلیم پہنچی ہے دیگر اسکولوں کے نتائج اور اس کے طلباء ہر اعتبارسے دیگر اسکولوں کے طلباء پر فائق رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سلمان فارسی اسکول کے کلاس خوبصورت دید ہ زیب اور آرام دہ ہیں ۔ نرسری کے بچوں کےلئے کھیلنے کے مختلف سامان بھی ہیں۔جبکہ بڑی بچیوں اور بڑے بچوں کے بیچ تعلیم کے دوران پردہ حائل رہتا ہے تاکہ اسلامی اصولوں کی پاسداری کی جاسکے۔‘‘
مولانا کہتے ہیں ’’ہم تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔ہمارے کیمپس میں کسی کی زبان سے ایسے الفاظ نہیں سن سکیں گے جس کی مہذب سماج اجازت نہیں دیتا ہے۔خراب ماحول میں بھی ہم بچوں کو اچھی تربیت دے رہے ہیں۔‘‘

مولانا اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ’’ممبرا میں تبدیلی آرہی ہے جسطرح کے لوگ یہاں آباد ہیں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت یقیناً جوئے شیر لان ہے۔لیکن اچھائی قبول کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ہم نے اسلامی ماحول برپا کرنے اور اسلامی ماحول میں تعلیم دینے کی جو سختی برت رکھی ہے اس کا اثر بھی یہ ہے کہ بچیاں جہاں نقاب میں آتی ہیں وہیں پردے کا مکمل اہتمام کرتی ہیں۔طلبہ بھی مہذب انداز میں پیش آتے ہیں ،کم از کم میں اس بات کی گارنٹی دے سکتا ہوں کہ جب تک طلبہ و طالبات ہمارے کیمپس میں رہتے ہیں وہ ہر طرح سے اسلامی ماحول میں ڈھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *