رمضان رحمتوں کا موسم ہے اس سے مستفید ہونے کی کوشش کریں

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514

سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ’’رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری روزہمیں خطاب فرمایا:لوگو ایک بابرکت عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا ہے۔اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ نے اس کا روزہ فرض اور رات کا قیام نفل قرار دیا ہے۔جس نے اس میں کوئی نفل کام کیا تو وہ اس کے علاوہ باقی مہینوں میں فرض ادا کرنے والے کی طرح ہے اور جس نے اس میں فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اس کے علاوہ مہینوں میں ستر فرض ادا کئے۔وہ غم گساری کا مہینہ ہے۔اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا اور جہنم سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے بھی اس(روز ہ دار) کی مثل ثواب ملتا ہے اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ہم نے عرض کیا،اللہ کے رسولﷺ ہم سب یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ہم روزہ دار کو افطار کرائیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما دیتا ہے جو لسی کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے۔ اور جو شخص کسی روزہ دار کو شکم سیر کر دیتا ہے تو اللہ اسے میرے حوض سے (پانی) پلائے گا،پھر اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔اور وہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول(عشرہ) رحمت ، اس کا وسط (بیچ)مغفرت اور اس کا آخر جہنم سے نجات ہے۔ اور جو شخص اس میں اپنے غلام سے رعایت برتے گا تو اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے جہنم سے آزاد کر دے گا۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح)اس حدیث کے مطالعے سے ہمیں درج ذیل باتوں کا علم ہوتا ہے:
پہلی بات یہ کہ رمضان ایک بابرکت عظیم مہینہ ہے۔اس کو سال کے باقی مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ گویا اس مہینے کو عام مہینوں کی طرح گزار دینابد نصیبی کی بات ہے۔جس طرح کوئی تاجر تجارت کے خاص موسم میںعام دنوں سے زیادہ محنت و مشقت کرتا ہے اور اپنا سامان زیادہ سے زیادہ بیچ کر منافع کمانے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح بندۂ مومن کو اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکی کے کام کر کے اجر و ثواب سب سے زیادہ کمانے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس مہینے میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں کی جانے والی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔یہ رات شب قدر کہلاتی ہے جو آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔۲۱،۲۳،۲۵،۲۷ اور ۲۹ رمضان کی راتوں میں اس رات کو تلاش کرنا چاہئے۔شب قدر کی عبادت یہ ہے کہ آدمی سحری سے اتنی دیر پہلے اٹھے کہ اطمینان سے تہجد کی آٹھ رکعتیں اور وتر کی تین رکعتیں پڑھ سکے اور وقت بچ رہے تو قرآن پڑھے یا دعائیں کرتا رہے۔غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے اس رات میں سوئے رہنا اور عبادت سے محروم رہنا کافر و مشرک کی پہچان ہے۔حالانکہ مسجدوں میں بھی رمضان میں تہجد کی نماز جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور جماعت کا ثواب تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ ہے تاہم شب قدر میں تہجد کی یہ عبادت تنہا ہی کرنی چاہئے۔تنہائی میں بندہ اللہ کو جس محبت اور توجہ سے پکارے گا جماعت میں یہ کیفیت نہیں پیدا ہوگی۔گھر میں عبادت کرے گا تو گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کرائے گا۔ مسجد چلا جائے گا تو گھر والے سوئے رہ جائیں گے۔یہ بھی بتایا گیا کہ اس مہینے میں نفل عمل کا ثواب عام دنوں کے فرض عمل کے برابر ملتا ہے۔فرض عمل پانچ وقت کی نماز اور وہ اعمال ہیں جن کا حکم قرآن وحدیث میں دیا گیا ہے۔مگر ایسا عمل جو فرض نہیں کیا گیا ہے مگر ہے نیکی کا کام اس کو اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ کرنا چاہئے تا کہ قیامت کے دن جب اعمال تولے جائیں تو نیکی کا پلہ جھک جائے اور بدی کا پلہ اوپر اٹھ جائے اور جنت میں جانا آسان ہو جائے۔چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے سے بھی اس مہینے میں غافل نہیں رہنا چاہئے۔جب تک نیکی کرنے اور ثواب کمانے کا شعور نہیں پیدا ہوگا یہ عمل نہیں ہو سکے گا۔اس مہینے میں رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔اس سے عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آمدنی بڑھ جاتی ہے۔ نہیں ضروری نہیں ہے کہ آمدنی بڑھے، لیکن جو کچھ میسر اس کو استعمال کرنے میں عام دنوں کے مقابلے میں اس مہینے میں زیادہ لذت اور تشفی و اطمینان نصیب ہوگا۔یہی رزق کا بڑھ جانا ہے۔سب لوگ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس مہینے میں غریب سے غریب اور نادار آدمی بھی اچھا کھا پی لیتا ہے۔اللہ کے اہل خیر بندے اس مہینے میں دل کھول کر صدقہ و خیرات کرتے ہیں یہ رقم ضرورت مندوں تک پہنچتی ہے اور ان کی روزی بڑھ جاتی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جو اونچی کوٹھی والے لوگ ہوتے ہیں وہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی جگہ اداروں کو اپنی زکوٰۃ و صدقات کی رقم دے دیتے ہیں جو بیچاے ان فقیر و نادار لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔اور ان کی بے توجہ کی وجہ سے ان کو اس خرچ کا ثواب نہیں مل پاتا ہے۔جہاں صدقہ و خیرات کرنا ایک نیکی ہے وہیں ضرورت مند کو تلاش کر کے اس تک اس رقم کو پہنچانا بھی فرض ہے۔رمضان آنے سے پہلے ہر فرد کو ایک اپنے خاندان اور محلے پڑوس کے ضرورت مندوں کی ایک فہرست بنا لینی چاہئے کہ ہر فرد یا خاندان کو اتنی رقم یا غلہ یا کھجور دی جائے گی۔جن ادروں کو زکوۃ و صدقات کی رقم دی جاتی ہے وہ اس کو اپنے پروگرام میں خرچ کرتے ہیں، ضرورت مندوں تک نہیں پہنچاتے۔امت کی بہت بڑی رقم ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔باشعور لوگوں کو اس خرابی سے بچنا چاہئے۔ہر خوش حال کھاتا پیتا خاندان سحری ، افطار اور کھانے کا اچھا سے اچھا انتظام کرتا ہے اور بہترین چیزیں کھاتا ہے جو مفلس و نادار لوگوں کو میسر نہیں ہوتیں۔اگر یہ خوش حال لوگ اپنے افطار کا کچھ حصہ غریب رشتہ داروں یا محلہ کے محتاجوں تک بھی پہنچایا کریںتو ان کے ایک روزے کے ثواب کے ساتھ درجنوں روزے کا ثواب ان کو اور ملے گا۔نیکی کمانے کا ایسا موقع رمضان کے سوا سال بھر نہیں ملنے والا ہے۔روزہ رکھنے والے نادار خاندانوں کے لئے سحری، افطار اور کھانے کا انتظام کرا دینا گویا ان کو افطار کرانا ہے۔یہ حدیث یہ بھی بتاتی ہے کہ روزہ دار کو اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی آسانی اور سہولت کا اس مہینے میں خیال رکھنا چاہئے۔ان کے کام کا بوجھ ہلکا کر دینا چاہئے تاکہ وہ بھی اس رحمت کے مہینے کی برکت محسوس کر سکیں۔اپنے ملازموں اورخدمت گاروں سے رعب کے ساتھ باتیں کرنے کی جگہ نرم لہجے میں بات کرنی چاہئے تاکہ وہ بھی رمضان کی رحمتوں کا لطف لے سکیں اور رمضان کی عظمت کا انہیں بھی احساس ہو۔حسن سلوک اور نرم لہجے میں باتیں کرنا اپنے آپ میں ایک نیکی ہے۔ رمضان میں اس نیکی کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔جو آدمی اس مہینے میں بھی بدسلوکی اور بد زبانی کرتا رہے اس کے سارے روزے رائگاں اوربرباد ہو جائیں گے۔اس کا پہلا عشرہ رحمت کا بتایا گیا ہے۔رحمت کے مضمون کو سمجھنے کے لئے ان حدیثوں کا مطالعہ کیجئے:’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا، پھراس میں سے نناوے حصے اپنے پاس رکھے اورصرف ایک حصہ زمین پر اتارا۔یہ اسی حصے کی برکت ہے جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں،یہاں تک کہ اگر ایک جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھر اٹھاتا ہے تا کہ اسے نقصان نہ پہنچ جائے ،تو یہ بھی در اصل اسی رحمت کے حصے کا اثر ہے۔مگر جو چیز انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی ہے۔(بخاری)’’خدا اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘(بخاری)خاندان،محلہ،گاؤں،بستی اور سماج میں وہی آدمی دوسروں کے لئے بہتر، فائدہ مند اور کارآمد ہوتا ہے جس کے دل میں رحم کاجذبہ موجود ہو۔ جو دوسروںکی تکلیف دیکھ کر تڑپ جاتا ہو اوراپنے دل کی نرمی کے سبب ان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہو۔رحم دل ہونا ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی صفت ہے جس سے حیوان بھی محروم نہیں ہوتے۔مگر بعض انسانوں کی بد نصیبی دیکھئے کہ وہ انتہائی سنگ دل اور شقی القلب ہوتے ہیں۔دوسرو کی تکلیف اور پریشانی کو دیکھ کر انہیں ذرا بھی رحم نہیں آتا۔ وہ اس پر ذرا بھی ترس نہیں کھاتے۔جہاں تک جذبہ رحم کا تعلق ہے ، اس کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نمو نہ ماں کی ذات میں دکھائی دیتا ہے۔ایک خوش حال گھرانے کی دوشیزہ جس نے زندگی میں تکلیف اور پریشانی نہیں دیکھی ہے ، جب اس کی شادی ہوتی ہے تو کچھ دنوں کے بعد وہ ماں بنتی ہے اور ایک نیا وجود اس کی گود کی زینت بنتا ہے۔اس وجود کے آنے سے جہاں ایک طرف اس کو خوشی ہوتی ہے اور اس کو اپنے عورت ہونے کی عظمت کا احساس اور اعتماد ہوتا ہے وہیں اس کو غیر معمولی اور نامعلوم اذیت، پریشانی اور مصیبتوں کا سامنا اور تجربہ بھی ہوتا ہے۔دن بھر کا تھکا ماندہ انسان رات کو آرام کی نیند سونا چاہتا ہے،لیکن وہ دوشیزہ جو اب تک رات بھر آرام سے سوتی آرہی تھی اب سو نہیں سکتی ہے کیونکہ اس کا بچہ جاگ رہا ہے اور جب تک وہ سو نہیں جائے ماں نہیں سو سکتی ہے۔بچے کو تکلیف ہے ، اس کی تکلیف سمجھ میں نہیں آرہی ہے، بچہ تکلیف سے مستقل رو رہا ہے۔ ماں اس کو گود میں لے کر بہلانے اور چپ کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ماں کی مامتا دنیا میںاللہ کی رحمت کی بہترین نشانی اور مثال ہے۔رمضان رحمتوں کا موسم بہار ہے ۔ذرا اپنا محاسبہ کیجئے۔کیا آپ رحم دل ہیں ؟ آپ کے دل میں سوز و گداز ہے ؟ کیا آپ کسی کی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں ؟ اگر یہ سب کچھ ہے تو کیا رمضان میں آپ کی اس کیفیت میں کوئی نمایاں ترقی ہوئی ہے ؟ اگر ہاں تو مبارک باد۔ اور اگر نہیں تو اپنی بدنصیبی کاتصور کیجئے کہ رمضان جیسے رحمت کے مہینے میںبھی آپ سنگ دل رہ کر اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائیں گے۔رسول اللہﷺرمضان کے مہینے میں عام دنوں سے زیادہ شفیق، رحم دل اورخلق خدا کے خدمت گار بن جاتے تھے۔کیا آپ کو اپنے رسول رحمتﷺ سے محبت نہیں ہے ؟ کیا آپ اپنے نبیﷺکی اس سنت کے پیروکار نہیں بنیں گے ؟ یاد رکھئے رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ جو اللہ کے بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ آپ خود بے رحم بن کر اللہ کی رحمت سے اس ماہ رحمت میں محروم رہ جائیں گے۔
قسمت کی خرابی ہے اعمال کی بربادی-رحمت کے مہینے میں محروم کرم رہنا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *