انتہائی کم قیمت اور آسان قسطوں پر گھر مہیا کرانا میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں

ممبرا کے نوجوان بلڈر محمد عرفان خان معیشت کے آرزو شوکت علی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ غریبوں کو گھر مہیا کرانے والے بلڈر کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں
ممبرا:کوسہ کے ٹی جنکشن سے جیسے ہی آپ کالسیکر اسپتال کی طرف مڑیں گے پہلی آفس المنتشاء ریئلٹی کی ملے گی جہاں ایک نوجوان اپنی خوبصورت مسکراہٹ لئے آپ کا استقبال کرتا نظر آئے گا۔انتہائی کم عمری میں تعمیرات کے بزنس میں شامل ہونے والے محمدعرفان خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہےکہ جب کبھی آپ فون کریں تو کال کے تیسرے بیپ پرہی السلام علیکم کی پیاری آواز سنائی دے گی اور پھر آپ کا دل یہ چاہے گا کہ مذکورہ شخص سے دیر تک باتیں کرتے رہیں۔دراصل۴فروری ۱۹۹۰ کو ممبرا میں محمد نسیم خان کے گھر پیدا ہوئے ہونہار بروے نے کم عمری میں ہی تجارت کے ان گُروں کو سیکھنے کی کوشش کی ہے جو کسی انسان کو کامیاب انسان کی فہرست میں لاکھڑا کرتا ہے۔تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے محمد عرفان کے دو بڑے بھائی محمد نسیم خان اور محمد جاوید خان بھی اپنا علحدہ کاروبار کرتے ہیں لیکن موصوف کی دلی خواہش یہ ہے کہ وہ تجارت میںکچھ ایسا کرجائیں جو لوگوں کی بیچ مثال قرار پائے۔۲۰۰۶ میں ممبرا کے(Angel Paradise School) اینجل پاراڈائز اسکول سے ایس ایس سی کرنے والے محمد عرفان خان کے والداترپردیش کے غازی پور سے جب ممبرا تشریف لائے تھےتو انہوں نے کپڑے کی تجارت میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیاتھایہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف جگہوں پر اپنا ’’ٹھیا ‘‘لگوانا شروع کیا اور بڑی تعداد میں تجارت کو فروغ دینے لگے۔عرفان نے اوائل عمری میں والدمحترم کا توبہت زیادہ ہاتھ نہیں بٹایا لیکن اپنے بہنوئی غیاث الدین صاحب کی تعمیراتی کمپنی میں ان کا دل خوب لگنے لگا ۔یہ ان کی شرافت ہی تھی کہ ممبرا کے امرت نگر میں بچپن گذارنے کے باوجود زندگی ان تمام عادتوں سے پاک رہی جس کا کہ اکثر بچے شکار ہو جایا کرتے ہیں ۔معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان کہتے ہیں ’’اچھے لوگوں کی صحبت اور پڑھے لکھوں کی سنگت نے مجھے ہمیشہ اچھائی کی طرف مائل رکھا ہے۔گھر کی تربیت کا اثر یہ تھا کہ امرت نگر جیسے علاقے میں میرا بچپن گذرا لیکن اوباش لوگوں کی کبھی سنگت اختیار نہیں کی ۔نوجوانی میں جبکہ دوستوں کی سنگت میں لوگ پان ،بیڑی سگریٹ کاشوق فرمایا کرتے ہیں میں نے اپنے آپ کو تمام چیزوں سے محفوظ رکھا ہے‘‘ ۔وہ کہتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ کرم ہے کہ بچپن سے ہی مجھے اچھے لوگوں کے ساتھ کچھ اچھا کرنے کی عادت رہی ہے۔ ۲۵یا ۲۶برس کی عمر میں میں نے اپنا پہلا پروجیکٹ مختلف پارٹنرس کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل کو پہنچایا جو گلوریس پارک سے مشہور ہے۔Vista Vallyاور سینٹرل ہائٹ کا کام شروع ہوچکا ہے ۔ان دونوں پروجیکٹس کے لئے کام کرنے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ اسے فضول میں ضائع کیا جائے‘‘۔
۲۹سالہ عرفان جنہوں نے ابھی تین پروجیکٹ میں ہی شرکت کی ہے تعمیراتی امور پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ممبرا غریب پروروں کا شہر ہے ۔یہاں وہی لوگ آتے ہیں جن کی مالی حالت قدرے مستحکم نہیں ہوتی یا یہ کہا جائے کہ جو لوگ ممبئی میں پیر سکوڑ کر سوتے تھے وہ ممبرامیں پیر پھیلا کر سونا چاہتے ہیںیعنی جو لوگ ۲۰۰یا ۳۰۰ اسکوائر فٹ کی جگہ پر ممبئی میں رہتے تھے وہ ممبرا میں ۷۰۰یا ۸۰۰ اسکوائر فٹ میں رہنا چاہتے ہیں۔لہذا ہم ان لوگوں کے حساب سے اپنا پروجیکٹ ترتیب دے رہے ہیں۔‘‘عرفان کے مطابق ’’ممبرا میں زیادہ تر لوگ ۱۵یا۱۶لاکھ کے درمیان اپنا گھر بک کروانا چاہتے ہیں اور زیادہ بڑی تعداد انہیں لوگوں کی ہے جو بالکل سستے گھر لینا چاہتے ہیں۔لہذا ہماری اولین ضرورت بھی یہی ہے کہ کیسے ہم اس آبادی کو گھر مہیا کرواکر دیں۔چونکہ آج کل سستے گھر کا ملنا انتہائی مشکل ہے لہذا لوگ غیر قانونی عمارتوں کا رخ کرتے ہیں اور گرام پنچایت کی بلڈنگوں میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں ۔لہذا ایسے لوگوں سےہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ غیر قانونی عمارتوں میں رہائش اختیار کرنے کی بجائے ٹی ایم سی کے پروجیکٹ میں بکنگ کروائیں اور اتنی ہی قیمت پر قانونی گھر حاصل کریں‘‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ آخر غیر مسلم بلڈرس کس طرح بہترین عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اور زیادہ سہولت بہم پہنچاتے ہیں جبکہ مسلم بلڈرس اس میں پیچھے نظر آتے ہیں عرفان کہتے ہیں کہ ’’طرز تعمیر ،بنیادی سہولیات کے حوالے سے گفتگو کریں تو مسلم بلڈرس بھی ان سے کم نہیں ہیں یقیناً بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جسے ہم چاہ کر بھی اپنی سماجی صورتحال کو دیکھتے ہوئے دے نہیں سکتے ۔مسلم معاشرے کو جن چیزوں کی ضرورت ہے ہم اس کا خیال کرتے ہیں جبکہ غیر مسلم بلڈرس اس کا لحاظ نہیں رکھتے وہ اگر سہولیات دیتے ہیں تو ان کے فلیٹس اس قدر تنگ اور چھوٹے ہوتے ہیں کہ اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔اسی طرح غیر مسلم بلڈرس عموماًسوسائٹیز اپنے ہاتھ میں ہی رکھتے ہیں، مکینوں کے حوالے نہیں کرتے جبکہ ہم لوگ فی الفور مکینوں کے حوالے کردیتے ہیں۔چونکہ سوسائٹیز کو اپنی دسترس میں رکھ کر وہ ان تمام چیزوں کے چارجیز وصول کرتے ہیں جسے کہ عموماً وصول نہیں کیا جانا چاہئے۔جبکہ اگر ان کے پاس کمیونیٹی ہال یا کوئی دوسری چیز ہو تو اس پربھی اپنی مونو پولی قائم رکھتے ہیں نتیجتاً ایک عام آدمی ایک چھوٹے سے پروگرام کے لئے بھی ان کا مرہون منت رہتا ہے جبکہ مسلم سوسائٹیز میں اس طرح کی چیزیں نہیں ہوتیں۔‘‘لوگوں کی مدد اور خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے عرفان کہتے ہیں ’’میں نے ذاتی کوششوں سے ایسے لوگوں کو آباد کیا ہے جن کے پاس مکمل رقم ادا کرنے کی سہولت نہیں تھی آج بھی اس بات کی خواہش ہے کہ ان لوگوں کو گھر مہیا کروایا جائے جو گھر کے لئے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔ایسی آسان قسطیں رکھی جائیں جسے کسٹمر کو ادا کرنے میں تکلیف نہ ہو جبکہ انتہائی خوشی کے ساتھ وہ اپنی تمام رقم ادا کرسکیں‘‘۔