Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کیفی نامہ: کیفی کے فن اور عہد کا جشن

by | May 4, 2019

کیفی

کیفی اعظمی نے اپنی شاعری کے ذریعہ ظلم و جبر اور ناانصافی کی مخالفت کی۔
فیصل فاروق
ممبئی: این سی پی اے، ریلاینس انڈسٹری اور مِجواں سوسائٹی کے اشتراک سے لِٹریچر لائیو کے زیر اہتمام معروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر ممبئی میں ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اِس موقع پر معروف اداکارہ شبانہ اعظمی کی طرف سے تیار کی گئی ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ فلم کے ذریعہ شبانہ نے اپنے والد اور مشہور فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ سُمنترا گھوشال فلم کے ڈائریکٹر ہیں۔ ۹۰/منٹ کی اِس فلم کو معلوماتی بنانے میں مصنفہ رخشندہ جلیل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔’’کیفی نامہ: کیفی کے فن اور عہد کا جشن‘‘ میں کیفی اعظمی کی عوامی شاعری، فلمی شاعری، کمیونسٹ پارٹی سے اُن کی والہانہ وابستگی اور زندہ رہنے کی جدوجہد کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم بیاں کرتی ہے کہ کس طرح کیفی اعظمی نے اپنی شاعری کے ذریعہ ظلم و جبر اور نا انصافی کی مخالفت کی۔ اِس فلم میں کیفی کی کئی مقبول غزلیں اور نظمیں یکجا کی گئی ہیں۔ عورت کی شخصیت پر اور بابری مسجد کے انہدام پر لکھی گئی نظم کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ کیفی اعظمی، اُن کی اہلیہ شوکت اعظمی، محمد مہدی، علی سردار جعفری وغیرہ کے انٹرویوز کی مدد سے اِس فلم کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔واضح رہے کہ کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم پیدائش کا جشن پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے اور گزشتہ روز ممبئی میں منعقدہ مذکورہ تقریب بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اپریل کی شروعات میں اِس دستاویزی فلم کو لندن میں برطانیہ کے ایشیائی فلم فیسٹیول میں ورلڈ پریمیئر اسکریننگ کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا۔ شبانہ اعظمی نے کہا، یہ فلم محض کسی شخص کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اُس وقت کی، اُس زمانہ کی منظر کشی کرتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد اردو کو اسلام کے ساتھ منسلک کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی تھی۔ اردو شمالی ہندوستان کی زبان تھی۔ بہت سے غیر مسلم آج بھی نستعلیق اسکرپٹ میں لکھتے ہیں۔ویسے تو کیفی اعظمی نے متعدد فلموں کیلئے لکھا ہے۔ لیکن اُن کی ایک فلم ہیر رانجھا بیحد مقبول ہوئی۔ جس نے کیفی اعظمی کی شاعری کا لوہا دنیا کو منوا دیا۔ اُس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ کیفی اعظمی نے ہیر رانجھا کی عشق کی داستان کو شاعری میں اِس طرح پیش کیا کہ یہ فلم اپنے آپ میں شعری مجموعہ بن گئی۔ اُس فلم کے تعلق سے ڈاکیومینٹری میں ذکر کرتے ہوئے کیفی کے صاحبزادے بابا اعظمی نے بتایا کہ ہیر رانجھا کی ہندوستانی سنیما میں اپنی ایک انمٹ پہچان ہے۔ اُس جیسی دوسری فلم اب تک کوئی نہیں بنا سکا ہے۔ یہ کام صرف کیفی ہی کر سکتے تھے۔اسکریننگ کے اختتام پر زوردار تالیوں کی گونج کے درمیان ناظرین کھڑے ہوئے اور شبانہ کو مبارکباد دی۔ کیفی کی زندگی پر بنائی گئی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے بعد مصنف انل دھارکر اور ہدایت کار سُمنترا گھوشال سے گفتگو کے دوران فلم ساز شبانہ اعظمی نے ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، چونکہ شاعری کے ماحول میں میری پرورش ہوئی، میرے والد شاعر تھے، میرے خسر شاعر تھے اور میرے شوہر بھی شاعر ہیں۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا مَیں بھی شاعری کرتی ہوں؟ اور مَیں لوگوں کو کہتی ہوں کہ مَیں صرف حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔دورانِ گفتگو مزاح سے بھرپور اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے شبانہ نے محفل کو قہقہہ زار بنا دیا۔ شبانہ کہتی ہیں کہ بچپن میں مجھے اپنے ماں باپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے کچھ منفرد تجربے بھی ہوئے۔ جیسے کہ جس انگریزی اسکول میں میرا داخلہ کرایا جا رہا تھا وہاں شرط تھی کہ وہی بچے داخلہ پا سکتے ہیں جن کے ماں باپ کو انگریزی آتی ہو، اور کیونکہ میرے والدین انگریزی نہیں جانتے تھے۔ اِس لئے میرے داخلہ کیلئے مشہور شاعر علی سردار جعفری کی بیوی سلطانہ جعفری میری والدہ بنیں اور ابا کے ایک دوست مُنیش ناراین سکسینہ نے میرے ابا کا رول کیا۔داخلہ تو مِل گیا مگر کئی برس بعد میری وائس پرنسپل نے مجھے بُلا کے کہا کہ کل رات اُنہوں نے ایک مشاعرے میں میرے ابا کو دیکھا اور وہ اُن ابا سے بالکل مختلف نظر آ رہے تھے جو پیرنٹس ڈے پر اسکول آتے ہیں۔ ایک لمحہ تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی، پھر مَیں نے فوری طور پر کہانی گڑھی کہ گزشتہ دنوں ٹائیفائڈ ہونے کی وجہ سے ابا اچانک اتنے دُبلے ہو گئے ہیں کہ پہچانے ہی نہیں جاتے۔ بیچاری وائس پرنسپل مان گئی اور مَیں بال بال بچ گئی۔ کیفی کی زندہ جاوید یادوں کو جلا بخشتے ہوئے شبانہ اعظمی کے کلماتِ تشکر کے ساتھ تقریب کا اختتام ہوا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...