
اقامت دین فرض ہے،مسلمان اس کے لئے کوشش کریں
احمد اقبال قاسمی
اقامتِ دین تمام فقہاے اسلام کے نزدیک متفقہ اور مسلّمہ فریضہ ہے۔ اس میں اختلاف اور تفرقہ حرام ہے۔ جس طرح دین کی تبلیغ، ہماری ذمہ داری ہے، دین کے احکامات پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل درآمد بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داریاں ہم نے ازخود نہیں لیں بلکہ ربِ کائنات جس نے ہم کو عدم سے وجود بخشا، وہ ہمارا مالک اور حقیقی ولی ہے، وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ وہ انسانی پیدائش کا مقصد بتائے اور اس کے لیے ضابطہ اور قانون بنائے۔ اس نے ہمیں انبیا ؑ کا وارث قرار دیا ہے۔ اس نے انبیا ؑ کی بعثت کا مقصد اقامتِ دین کو قرار دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا، لہٰذا یہ فریضہ اُمت مسلمہ کے سپرد کیا گیا۔ اس طرح ازخود اقامت دین ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ مقصدِ زندگی قرار دینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مقصد زندگی کا صحیح شعور حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنے اندر مطلوبہ اخلاق، اوصاف اور استعداد پیدا کریں۔اقامت دین کی فرضیت سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قرآن حکیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ جو درحقیقت ایک ہی چیز کے دو عنوان ہیں، کا جائزہ لینا ہوگا۔ فرق صرف علم اور عمل کا ہے۔ قرآن اللہ کے دین کو علمی صورت میں پیش کرتا ہے اور اسوۂ و سیرت اس کو عملی شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ فقہ میں دونوں کو کتاب و سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد صحابہ کرام اور تابعین اور تاریخِ اسلام کے بزرگوں کی سیرت و خدمات اور قربانیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
دین کسے کہتے ہیں؟
قرآن حکیم کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۴۰ سورتوں میں دین کا ذکر آیا ہے۔ تفصیل یہ ہے: ان آیات میں دین کو دین اللّٰہ دو جگہوں پر کہا گیا: الدین الحق پانچ جگہوں پر، یوم الدین ۱۳جگہوں پر، الدین القیم تین مرتبہ آیا۔ دین القیمہدو جگہوں پر، مخلصین لہ الدینچھے مقامات پر، مخلصا لہ الدینتین جگہوں پر، اخلصوا دینھم، النساء میں اتخذوا دینکم ھذوا ولعبا، المائدہ میں اتخذو دینھم لھوا، الانعام میں اتخذوا دینھم لھوا، الاعراف میں ایک ایک مرتبہ آیا ہے۔ مجموعی طور پر ۹۴ مرتبہ لفظ دین کا ذکر کیاگیا ہے۔ اہم رکن اسلام صلوٰۃ (نماز) کا بھی قرآن شریف میں ۹۴ مرتبہ ذکر آیا ہے۔
اقامتِ دین کی فرضیت
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط(البقرہ ۲:۳۰) ’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ فرشتوں سے کلام اور جنت میں قیام کے بعد یہ مرحلہ آتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کو حکم ہوتا ہے: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَھُمْ یَحْزَنُوْنَo(البقرہ ۲:۳۸) ’’ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ان آیات سے سب سے اہم حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ آسمان اور زمین اور ساری کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ رب العالمین کا ہے۔ وہی خالق اور وہی حاکم ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے ذمہ دار اس کے نائب انبیا علیہم السلام ہیں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے انبیاؑ خلافتِ الٰہیہ کے منصب پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منتخب فرمایا تھا اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوا کہ نبوت کا سلسلہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا تو اب خلافت رسولؐ کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا ،اور اس کے خلیفہ کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جو فریضہ انبیا ؑ اور رسولؐ کے سپرد ہوا تھا وہ اُمت محمدیہؐ کے سپرد کر دیا گیا۔ یہی اس اُمت کی وجۂ امتیاز ہے۔ کارِ نبوت کی ذمہ داری پوری اُمت پر عائد کی گئی۔
فرشتوں کے مکالمے سے حضرت آدم ؑ کے فائق اور برتر ہونے کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی کہ حضرت آدم ؑ کو معلم کا درجہ دیا گیا اور فرشتوں کوطالب علم کا۔ عبودیت مخلوق کی صفت ہے، خالق کی نہیں۔ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ علم کی وجہ سے آدم ؑ خلافت کے مستحق ہوئے، جب کہ فرشتے اہل نہ تھے۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)
ان آیات سے مقصدِ تخلیقِ آدم اور نسلِ انسانی کی کائنات میں حیثیت اور اس کے صحیح مقام کا علم حاصل ہوا، انسان محکوم ہے حاکم اور خودمختار نہیں۔ حدود اللہ کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے محدود اختیارات حاصل ہیں۔ خلافت الٰہیہ کے تقاضوں کی تکمیل اس کا مقصد زندگی ہے۔
فریضہ اقامت دین کی بحث میں ہمیں سب سے زیادہ رہنمائی سورۂ شوریٰ میں ملتی ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط(الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کودیا تھا اور جسے اے محمدؐ اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ‘‘۔ اس آیت کریمہ سے فریضہ اقامت دین کا قرآنی حکم عبارۃ النص (آیت کا مقصود) سے براہِ راست ثابت ہے، یعنی یہ آیت اسی مقصد کے بیان کے لیے نازل ہوئی ہے۔ قرآن کی یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئی تھیں۔معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ اقامت دین فرض ہے اور اس میں تفریق حرام ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ : ’’اس آیت میں دو حکم مذکور ہیں۔ ایک، اقامت دین۔ دوسرے، اس کا منفی پہلو، یعنی اس میں تفرق کی ممانعت، جب کہ جمہور مفسرین کے نزدیک اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ میں حرف اَنْ تفسیر کے لیے ہے تو دین کے معنی متعین ہوگئے کہ مراد وہی دین ہے جوسب انبیا ؑ میں مشترک چلا آرہا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دین مشترک بین الانبیا اصول عقائد، یعنی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان، اور عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی ہے، نیز چوری، ڈاکا، زنا، جھوٹ، فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذا دینے وغیرہ اور عہدشکنی کی حرمت ہے جو سب ادیانِ سماویہ میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں‘‘۔ (معارف القرآن، ج ۷، ص ۶۷۸)مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ عقائد اور اصول دین میں تمام متفق رہے ہیں۔ سب انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم ہوا ہے کہ دین الٰہی کواپنے قول و فعل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح تفریق یا اختلاف کو روا نہ رکھیں۔مولانا مودودی نے سورۂ شوریٰ کی اس آیت کی تفہیم انتہائی بلیغ اور مدلل انداز میں پیش کی ہے اور دیگر حوالے بھی دیے ہیں۔ انھوں نے آیت کے پہلے لفظ شَرَعَ لَکُمْ سے اصطلاحی طور پر ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا بتایا۔ شرع اور شریعت سے قانون اور شارع کو واضعِ قانون کے ہم معنی قرار دیا۔ پھر اپنے اس اہم ترین استدلال کی طرف متوجہ فرماتے ہیں کہ تشریع خداوندی فطری اور منطقی نتیجہ ہے اس بڑی حقیقت کا کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے۔ اس طرح وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطے وضع کرے (تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۸۷)۔ اس آسان استدلال سے مغرب کے تمام باطل اور مادی فلسفوں کی خوب صورت طریقے سے تردید ہوجاتی ہے۔ مغرب کا کلمہ لاالٰہ الا انسان ہے، جب کہ اسلام کا کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے۔ مغرب کے مطابق قانون سازی کا اختیار انسان اور جمہور کو ہے، جب کہ قرآن کے مطابق یہ حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔
اقامتِ دین کی اصطلاح
فقہاے اسلام نے سورۂ شوریٰ کی آیت اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ سے اخذ کرتے ہوئے اقامت دین کا اصطلاح کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ جب توریت نازل ہوئی تھی تو توریت کی اقامت کا نام اقامت دین تھا، اور جب انجیل نازل ہوئی تو اُس کی اقامت بھی اقامتِ دین تھا، اور اب قیامت تک قرآن کی اقامت کا نام بھی اقامتِ دین ہے۔ خود قرآن نے اہلِ کتاب کے بارے میں کہا ہے: وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط (المائدہ ۵:۶۶) ’’اور اگر وہ توریت اور انجیل اور جو کچھ اُن پر اُن کے رب کے طرف سے نازل ہوااُسے قائم رکھتے تو رزق اُن کے اُوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا‘‘۔پھر اسی سورہ میں آگے آیت ۶۸ میں اہلِ کتاب کو مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے اس پر غور کیجیے کہ یہ خطاب اُنھی کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی کتنا اہم ہے: قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (المائدہ ۵:۶۸) ’’کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توریت اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو، تمھاری طرف جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ہمارے مفسرین نے لکھا ہے: وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ سے مراد قرآن شریف ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک تم توریت انجیل اور قرآن کی اقامت نہ کرو گے اُس وقت تک تم دینی و مذہبی لحاظ سے کچھ نہیں ہو۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی کتاب پر ایمان کا مدعی ہے اس پر اس کتاب کی اقامت فرض ہے، اور اب قیامت تک اقامتِ قرآن ہی کا نام ’اقامتِ دین‘ ہے۔مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت عزیمت میں حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریۂ خلافت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کلیۃ الکلیات (اصل الاصول) وہ حقیقت ہے جس کا عنوان ’اقامتِ دین‘ ہے۔ غرض یہ ہے کہ اقامت دین ایک جامع اصطلاح ہے اور ان تمام احکامِ قرآنی پر حاوی ہے جو مَا اَنْزِلَ اللّٰہَ سے متعلق ہے۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے اپنے ترجمۂ قرآن فتح الرحمٰن میں من الدین کا ترجمہ ’از آئین‘ فرمایا ہے۔ مولانا مودودیؒ اس ترجمے سے استفادہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو تشریح فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ اس توجیہ سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ آیت میں دین کے معنی ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مان کر اس کے احکامات کی اطاعت کرنے کے ہیں، اور یہ کہ وہ خالق و مالک ہونے کی بنا پر واجب الاتباع ہے۔ اس کے حکم اور قانون کی پیروی نہ کرنا بغاوت اور بندگی سے انکار کے مترادف ہے۔مولانا مودودیؒ نے دین کے مفہوم اور اقامتِ دین کو بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا ہے۔ معاشرے میں سہل پسندی اور بے عملی کے رجحان پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: اقامت دین کا مقصد صرف تبلیغ دین سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ دین کے احکامات پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور عملاً نافذ کرنا اقامت دین ہے۔ مزید وضاحت کے لیے لکھتے ہیں: دین مشترک بین الانبیا سے صرف ایمانیات عقائد اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے تمام ہی شرعی احکام مراد ہیں۔ دلیل کے طور پر مولانا نے قرآن حکیم کی وہ آیات پیش کی ہیں جن میں ان احکام کو واضح اور صریح طور پر دین سے تعبیر کیاگیاہے۔ ذیل میں وہ آیات درج ہیں:وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o(البینہ ۹۸:۵)، اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے، بالکل یک سو ہوکر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)، تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھُٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو۔ یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ سواے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت دین ہی کا حصہ ہیں۔اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)، زانیہ عورت اور زانی مرد ،دونوں میں سے ہرایک کو ۱۰۰،۱۰۰ کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں دامن گیر نہ ہو۔اس آیت میں قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ یہاں فوجداری قانون کو دین اللہ فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوا صرف عبادت ہی دین نہیں ہے، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ (تفہیم القرآن)ان تفصیلات کے بعد ان آیاتِ ربانی پر غور کرتے ہیں جن سے اصولِ فقہ کی روشنی میں اقامتِ دین کا فرض ہونا اور منشاے الٰہی کا مقصود ہونا دلالۃ النص اور اقتضاء النص سے ثابت ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسحاق ندوی اپنی کتاب اسلام کے سیاسی نظام میں دینی حکومت کے قیام کے لیے سورۂ نساء کی آیت : اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحبِ امر ہوں۔ النساء۴:۵۹) سے اقامتِ دین کا فرض ہونا اقتضاء النص سے ثابت کیا ہے۔ اس آیت میں صاحبِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب صاحبِ امر موجود ہو۔ اب اسے وجود میں لانا بالفاظِ دیگر اقامت دین کے نظم کوقائم کرنا نص کا منشا اور مقتضا ہے۔اسی طرح سورۂ انفال کی آیت: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ(اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے۔ الانفال۸:۶۰) میں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی قدرت کی حد تک دشمنانِ دین کے مقابلے کے لیے قوت فراہم کریں۔ تنظیم، افراد اور نظم حکومت کا قیام بالفاظ دیگر نصب امامت خود قوت کا ایک حصہ ہے، بلکہ اس نوعیت کی کل قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس آیت سے امام کے تقرر کی فرضیت اسی طرح ثابت ہوتی ہے جس طرح جنگ کے لیے اسلحہ مہیا کرنے کی فرضیت۔