
روزے کی فرضیت،قرآن کی عظمت اورسحری کی اہمیت

ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514
’’اے ایمان لانے والو تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔شاید کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوجائے۔چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں،اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یاسفر پر ہو تودوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں،پھر نہ رکھیں تو وہ فدیہ دیں۔ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے،لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو۔‘‘ (البقرہ:۱۸۳/۱۸۴)
روزے کی فرضیت کے سلسلے میں یہ آیتیں ہجرت کے دوسرے سال یعنی سنہ ۲؍ہجری میں نازل ہوئیں۔اس سے قبل بھی رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ روزہ رکھا کرتے تھے لیکن وہ روزے فرض نہیں تھے۔یہ روزے ہر مہینے میں تین دن رکھے جاتے تھے۔اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ اہل اسلام پر بھی روزے ویسے ہی فرض کئے گئے ہیں جیسے پہلے انبیا کے ماننے والوں پر فرض کئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر نبی کی امت پر روزے کی عبادت فرض ہوتی رہی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ روزہ رکھنے کا مقصد صرف بھوکے رہنا نہیں ہے۔اس کا مقصد روزہ دار کے اندر تقویٰ کی صفت کا پیدا ہونا ہے۔ اگر روزہ رکھنے کے بعد کسی روزہ دار میں تقویٰ کی صفت پیدا نہیں ہوئی تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا روزہ رکھنا بیکار ہو گیا۔تقویٰ کا مطلب ہے اللہ کا ایسا ڈر پیدا ہوجانا جس کی بدولت آدمی ہر طرح کے ظلم، زیادتی، ناانصافی، حق تلفی،گناہ اور برائی سے بچنے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ سے انعام پانے کی تمنا اُسے نیک کاموں کو دل کی پوری آمادگی کے ساتھ کرنے پر اُکسائے۔جب کسی انسان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے تو اس کا پہلا اثر اُس کی زبان، رویے، طرز عمل ،معاملات اور اخلاق پر ہوتا ہے۔انسان کی انہیں چیزوں کو دیکھ کر دوسرا آدمی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس آدمی کے اندر کتنا تقویٰ ہے۔
دوسری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی کہ اگر آدمی بیمار ہو یا سفر کررہا ہو تو ایسی حالت میں اُس کو آزادی ہے کہ چاہے تو روزہ نہ رکھے۔لیکن بعد میں یعنی رمضان کے بعد جو روزے چھوٹ گئے ہیں اُن کو پورا کرنا ہوگا۔بیمار کے زمرے میں حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کا بھی شمار ہوتا ہے۔ جن عورتوں کو حیض آتا ہو وہ بھی حالت حیض میں روزہ نہیں رکھیں گی اور بعد میں اتنے روزے پورے کریں گی۔
تیسری بات اس آیت میں یہ کہی گئی کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں پھر بھی روزہ نہ رکھنا چاہیں تو اُنہیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو ایک دن کا کھانا دینا ہوگا۔یہ فدیہ افطار، کھانا اور سحری کی شکل میں پکا کر بھی دیا جاسکتا ہے۔ خشک غلہ بھی دیا جاسکتا ہے اور نقد رقم بھی دی جاسکتی ہے۔اصل مقصد ہے مال خرچ کرنا ،چاہے جس شکل میں کیا جائے۔تمام روزوں کے فدیے کی رقم ایک آدمی کو بھی دی جاسکتی ہے اور کئی آدمیوں میں بھی تقسیم کی جاسکتی ہے۔ دینے والے کے اوپر ہے ، وہ طے کرے کہ کس طرح خرچ کرنے میں لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔آخری بات یہ کہی گئی کہ جو زیادہ بھلائی کرنا چاہے تو ایسا کرنا اسی کے حق میں اچھا ہوگا۔ یعنی بالکل ناپ تول کر فدیہ دینے کی جگہ بڑھا چڑھا کر دینا نیکی ہے اور یہ نیکی پسندیدہ ہے۔
روزے کی بربادی:
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔‘‘(بخاری /مسلم)
ان روزوں کا انعام یہ بتایا کہ اب سے پہلے جتنے گناہ ہوئے ہیں وہ سب معاف ہو جائیں گے اور تم رمضان کے بعد نئے سرے سے معصوم کی حیثیت سے اپنی زندگی شروع کرو گے۔ہر عمل کا اجر طے کردیا کہ اتنا یونٹ ملے گا مگر روزے کے متعلق فرمایا کہ اس کا اجر میں جتنا چاہوں گا دوں گا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر بندے کا روزہ اللہ رحمن و رحیم کو پسند آ گیا تو اس کا اجر آخرت میں وہ اتنا دے گا کہ گناہوں کا پہاڑ بھی ہوگا تو اجر و انعام کے مقابلے میں نیچا اور ہلکا پڑ جائے گا۔
’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺنے فرمایا: جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیںکہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘(بخاری)’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزوں سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنی ہی راتوں کو عبادت کرنے والے ایسے ہیں جن کو نیندکی محرومی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ‘‘(دارمی )
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں اور سب کو اُن کے لئے حلال قرار دیا ہے۔مادی دنیا میں سب سے لذیذ نعمت کھانا پینا ،آرام کرنا اورشہوانی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے۔یہ ایسی عمومی نعمتیں ہیں جن سے انسان اور حیوان یعنی درندے، پرندے اور چرندے سب لطف اندوزہوتے ہیں۔جب کچھ مذہب کے ماننے والے نادان اور متشدد لوگو ں نے ان نعمتوں کو اپنے اوپر اپنی شریعت بنا کر حرم کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضر ت محمد ﷺکے ذریعے اُنہیں آگاہ اور خبر دار کیا کہ اللہ نے تو یہ نعمتیں حلال کی تھیں ، کس نے ان کو تم پر حرام کر دیا۔یعنی حلال اور حرام طے کرنے کا حق تو خالص اللہ کے لئے ہے۔ کسی دوسرے نے اس دائرے میں کیسے دخل اندازی کی۔
جس نے روزے کی حالت میں فسق و فجور سے پرہیز نہیں کیا،جھوٹ بولنا نہیں چھوڑااور ایسے اعمال و حرکات سے اجتناب نہیں کیا جو جھوٹ کی علامت بن جاتے ہیں۔ سوچئے کتنا بدنصیب آدمی ہے وہ۔جھوٹ بولنا، واہی تباہی بکنا،مغلظات کا زبان سے ادا کرنا،غیبت اور چغل خوری کرنا،اپنی باتوں اور حرکات سے کسی کو ذلیل کرنا ،اُس پر تہمت لگانا، اُس کو حقیر ثابت کرنا، اپنے آپ کو بہتر اور برتر ثابت کر کے غرور کا اظہار کرنا، کسی کی دل آزاری کرنا،کسی کی حق تلفی کرنا، کسی کو ستانا، کسی کو مصیبت میں مبتلا کر دینا، کسی کے ساتھ بد سلوکی اور ظلم و زیادتی سے پیش آنا، بلا ضرورت غصے اور جلال کا اظہار کرنا، طیش میں آ کر حرام، ناجائزاور غلط باتیں اور اعمال کر گزرناوغیرہ ایسی خرابیاں اوربرائیاں ہیں جن کے ساتھ روزے کی حرمت ، عظمت اور پاکیزگی پامال ہو جاتی ہے اور روزہ ناقص ہوجاتا ہے۔جس نے روزے میں احتیاط اور پرہیز کا حکم دیا گیا تھا اس کا اہتمام نہیں کیا،اُس نے اپنے روزے کو برباد کر دیا۔
قرآن کی عظمت:
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میںروزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(البقرہ:آیت۱۸۵)
روزے کے متعلق حکم ۲؍ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوا تھااس کے ایک سال بعد یہ آیتیں نازل ہوئیں۔اس آیت میں مریض اور مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنے کی جو رعایت پہلے دی گئی تھی وہ باقی رہی لیکن صحت مند آدمی کے روزہ نہ رکھنے کی رعایت ختم کر دی گئی۔کہا گیا کہ اب جو کوئی بھی رمضان کا مہینہ پائے وہ مہینے بھر کے روزے رکھے۔اس آیت میں رمضان کے مہینے کی فضیلت کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ اس مہینے میں قرآن نازل کیا گیا۔قرآن انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے اور اس میں جو تعلیمات موجود ہیں وہ بالکل واضح اور سمجھنے والے کے لئے بالکل آسان ہیں۔ان احکام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ جو آدمی بھی ان احکام کو دل لگا کر، عقل کی کھڑکیاں کھول کر پڑھے گا اُس کے اندر حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، حلال اور حرام، نیکی اور بدی،صحیح اور غلط اور جائز اور ناجائز کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش نہیں کرے گا اُس کے اندر حق و باطل اور سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی لیاقت پیدا ہوگی ہی نہیں۔اندیشہ ہے کہ ایسا آدمی گمراہی میں مبتلا رہ کر بھی سمجھے گا کہ وہ سیدھی راہ پر چل رہا ہے۔یہ مہینہ دراصل جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ رمضان کا مہینہ پہلے بھی آتا تھا لیکن۲؍ہجری سے پہلے اس مہینے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔۲؍ہجری میں جب اس مہینے میں قرآن نازل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا گیا تو اس مہینے کی قسمت چمک اٹھی اور یہ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بن گیا، اسی لئے اس کو جشن قرآن کا مہینہ کہنا چاہئے۔عام طور پر اس مہینے میں قرآن پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ہر روزہ دار پابندی سے کم سے کم ایک بار یا موقع ہو تو دو بار پورا قرآن اس مہینے میں پڑھ لیتا ہے۔
رمضان کا اصل استقبال اور شکرانہ یہ ہے کہ آدمی قرآن سے اس مہینے میں خاص تعلق پیدا کرلے۔قرآن کو بے سمجھے بوجھے پڑھتے رہنا قرآن نہیں پڑھنے کے برابر ہے۔ اس لئے کہ قرآن ہدا یت کے لئے نازل ہوا ہے۔جب آدمی قرآن کو سمجھے گا ہی نہیں تو اُس کو ہدایت کیسے ملے گی۔قرآن کو جب سمجھ کر پڑھا جائے گا اور اُس کے احکام پر عمل کیا جائے گا تب ہی تو ہدایت ملے گی اور صراط مستقیم پرچلنے کی جو دعا ہر نماز میں بندہ سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے کرتا ہے اُس کا انتظام ہوگا۔
یہ بھی کہا گیا کہ بیماری اور سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رعایت باقی رکھ کر اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے لئے آسانی پیداکر دی ہے ۔ وہ اپنے بندوں کو پریشانی میں نہیں ڈالنا چاہتا ہے۔روزہ رکھنے والوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزہ کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے آدمی کو کسی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔دراصل اللہ اپنے بندے پر زیادہ مہربانی کرنا چاہتا ہے اسی لئے روزے کی عبادت دے کر اُس پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔
سحری کرنے کی اہمیت:
’’تمہارے لئے روزوں کے زمانے میںراتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہو گیا ہے کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُس نے تمہارا قصور معاف کر دیااور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کر دیا ہے، اسے حاصل کرو۔ نیزراتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔تب یہ سارا کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو……‘‘(البقرہ:۱۸۷)
عرب قوم،دنیا کی ایک ایسی قوم ہے جس کو قدرت نے شہوانی طاقت بہت زیادہ دی ہے۔جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ بات نہیں معلوم تھی کہ شب باشی کا عمل جائز ہے یا ناجائز، مگر اپنی فطری ضرورت کے تحت مکروہ سمجھنے کے باوجود مسلمان ایسا کرتے تھے۔چنانچہ وحی آئی اور اس کی وضاحت کر دی گئی کہ رات کے وقت جب کہ کھانا پینا اور سونا حلال اور جائز ہے تو یہ فطری عمل بھی جائز ہے۔اس حکم سے اسلام کی یہ صفت ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام ایک فطری دین ہے،انسانی فطرت کے خلاف کوئی حکم نہیں دیتا ہے ۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ احساس جرم کے ساتھ کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس عمل کو غلط سمجھ رہے تھے پھر بھی کر رہے تھے۔ مہربان خدا نے تمہارا یہ قصور معاف کر دیا۔شوہر اور بیوی کو لباس بتا کر انتہائی حسین تشبیہہ دی گئی ہے۔لباس جسم کو راحت دیتا ہے، زینت کا سبب بنتا ہے اور ستر پوشی کرتا ہے۔چنانچہ شوہر اور بیوی کو بھی ایک دوسرے کے لئے راحت رساں، باعث عزت و احترام اور پردہ پوش ہونا چاہئے۔
شروع میں جب صحابہ ؓ روزے سے ہوتے اور افطار کے وقت سے پہلے کوئی روزہ دار اگر سو جاتا توپھر اس رات اور آنے والے دن میں اس کو کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی، یہاں تک کہ پھر افطار کا وقت آ جائے۔قیس بن صرمہ انصاریؓ روزے سے تھے۔ جب افطار کا وقت ہوا تو اپنی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کے لئے ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں، لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی۔قیس نے دن بھر کام کیا تھا اس لئے آنکھ لگ گئی۔جب (ان کی بیگم)واپس ہوئیں اور انہوں نے دیکھاتو کہا افسوس تم محروم ہی رہے۔لیکن دوسرے دن (نہیں کھانے پینے کی وجہ سے)دوپہر کے وقت وہ بیہوش ہو گئے۔جب اس کا ذکر نبی ﷺسے کیا گیا تب سورہ بقرہ کی آیت (نمبر ۱۸۷) نازل ہوئی( جس میں کہا گیا کہ)’’………راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا نمایاں نظر آ جائے۔تب یہ سارا کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو……‘‘(البقرہ:۱۸۷)ا س پر صحابہ بہت خوش ہوئے۔جب یہ آیت نازل ہوئی……تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دونوں کو اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا(مگر)مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے۔جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اورنبیﷺ سے اس کا ذکر کیا۔نبیﷺ نے فرمایاکہ اس سے رات کی تاریکی(صبح کاذب) اور دن کی سفیدی(صبح صادق) مراد ہے۔ (بخاری)اس آیت کے نازل ہونے کے بعد افطار کے بعد فجر کی اذان تک کھاناپینا اور وظیفہ زوجیت ادا کرنا حلال اور جائز ہو گیا۔
’’رسول اللہﷺنے فرمایاہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق ہے سحری کا کھانا۔‘‘(مسلم)
جو لوگ رات میں کھانا کھا کر سو جاتے ہیں اور بغیر سحری کے روزہ رکھتے ہیں وہ سحری کھانے کے تاکیدی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس طرح ان کا روزہ ناقص ہو جاتا ہے۔سحری کے متعلق جب نبی ﷺنے فرمادیا کہ اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کے کھانے کا فرق ہے تو اس فرق کو قائم رکھنا شریعت کا حکم ہو گیا۔ جو آدمی اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا۔
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ (بخاری/مسلم)
اس حدیث میں روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانے کا تاکیدی حکم ملتا ہے۔سحری کھانے سے دن بھر کا روزہ رکھنے کے لئے توانائی مہیا ہوتی ہے۔سحری میں کیا کھانا ہے اور کتنا کھانا ہے اس کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق سحری کھائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا :تم میں سے کوئی آدمی فجر کی اذان سنے اور اس کے ہاتھ میں کھانے یا پینے کا برتن ہو تو اس کو اس وقت تک نہ رکھے جب تک اپنی ضرورت پوری نہ کرلے ۔(ابوداؤد)
سحری کے لئے اٹھنے میں تاخیر ہو گئی اور جب سحری کھا رہے تھے تو فجر کی اذان شروع ہو گئی۔ ایسی حالت میں بھی کھانا پینا چھوڑنا نہیں ہے۔حکم دیا جارہا ہے کہ ضرورت کے مطابق کھا پی لو۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا مقصد بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے، بلکہ خود کو احکام شریعت کا پابند بنانا ہے۔اذان ہوتے ہوئے بھی ضرورت بھر کھا پی لینے کی اجاذت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانا زیادہ ضروری ہے بہ نسبت اس کے کہ اذان سن کر کھانا پینا چھوڑ دیا جائے۔لیکن اس چھوٹ کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی آدمی دیر سے اٹھنے اور اذان ہونے تک کھاتے پیتے رہنے کی عادت بنا لے۔رعایت کو رعایت کی حیثیت سے ہی اپنانا چاہئے عادت نہیں بنا لینا چاہئے۔
حضرت بلالؓ( رمضان میں) کچھ رات رہے اذان دے دیا کرتے تھے، اس لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو، کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ (بلالؓ اور ابن ام مکتومؓ) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک (اذان دینے کے لئے)چڑھتے تھے تو دوسرے اترتے تھے۔(بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے دنوں میں احتیاط سے ایک دو منٹ پہلے فجر کی اذان دے دینا درست نہیں ہے۔
حضرت سہل ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطارمیں جلدی کرتے رہیں گے۔(بخاری، مسلم)
اس حدیث میں بھی یہ اصول بتایا جارہا ہے کہ افطار کرنے میں بلا ضرورت احتیاط کرنا اور اذان سن کر بھی روزہ افطار نہ کرنا حکم شریعت کی خلاف ورزی ہے۔جیسے ہی اذان کی آواز سنائی دے افطار شروع کر دینا چاہئے۔ اگر اذان دینے میں مؤذن سے غلطی ہو گئی ہے تو اس کا ذمہ دار مؤذن ہے روزہ دار نہیں۔اگر اس پر گرفت ہوگی تو روزہ دار سے نہیں مؤذن سے ہوگی۔گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کی غلطی کو معاف کر دے گا اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا ہے۔
آج کل اجتماعی افطار میں یہ طریقہ ہے کہ چند کھجوریں کھا کر جلدی جلدی نماز پڑھتے ہیں اور پھر اطمینان سے افطار کھاتے ہیں۔اطمینان سے افطار کھانے کی جگہ ضرورت بھر افطار کھا کر اطمینان سے نماز ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ افطار میں اتنا ضرور کھا لینا چاہئے کہ نماز کے دوران افطار کھانے کا خیال نہ آئے۔خیال میں پوری نماز کو افطار بنا دینے سے بہتر کہ پورے افطار ک نماز بنا دیا جائے۔یعنی افطار کرتے ہوئے اس کا خیال رہے کہ نماز بھی وقت پر ادا کرنی ہے۔
ضضضضض