تجارت کے وہ اہم اسلامی اصول جن کا جاننا انتہائی ضروری ہے

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

از : ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
۱۲۔ دھوکا دہی سے پرہیز کرنا: تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو کسی قسم کا دھوکا نہ دے کیوں کہ یہ خدمت اور حاجت روایٔ کے جذبہ کے خلاف تو ہے ہی، دیانت داری کے بھی خلاف ہے۔ اس لئے اگر اس کے سامان میں کسی قسم کا عیب ہو تو اس کو نہ چھپائے بلکہ سچایٔ کے ساتھ بیان کردے، اگر چھپائے گا توخیانت اور ظلم کا مرتکب ہوگا اور ایسی صورت میں خریدار کو شریعت کی رو سے یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ تاجر کو عیب دارمال واپس کردے اور اپنی رقم لے لے۔ عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’الْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ‘‘۔ (ترجمہ): ’’مسلمان مسلمان کابھایٔ ہے اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیںکہ اپنے بھایٔ کے ہاتھ کویٔ ایسی چیز فروخت کرے جس میں کوئی عیب ہو، الا یہ کہ اس کے سامنے اس (عیب) کو ظاہر کردے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،مَنْ بَاعَ عَیْبًا فَلْیُبَیِّنْہُ، رقم ۲۲۴۶)۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیںکہ غیر مسلموں کو دھوکا دینا جائز ہے؟ یہاںمسلمان کا ذکر خصوصاً اس لئے فرمایا کہ مسلمان گاہک کاایک مسلمان تاجر پردو حق عائد ہوتا ہے، ایک گاہک ہونے کی حیثیت سے اور دوسرا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ، اس لئے اس کو دھوکا دینا بہ نسبت ایک غیر مسلم گاہک کو دھوکا دینے کے زیادہ برا ہے کیونکہ یہاںدو حقوق کی تلفی ہے ورنہ خیانت اور ظلم کسی کے ساتھ بھی روا نہیں۔ چنانچہ روایتوں میں بلا کسی تخصیص کے بھی اس عمل پر نکیر موجود ہے۔ مثال کے طور پر اس روایت کو ملاحظہ کیجئے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (بازار میں) غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے، آپؐ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر داخل کردیا تو آپؐ کی انگلیوں نے گیلاپن محسوس کیا۔ پس آپؐ نے فرمایا: اے غلے کے مالک ! یہ کیا ہے (یعنی یہ تری اور نمی کیسی ہے)؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اس پر بارش کی بوندیں پڑگئی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا : تو تم نے اس (بھیگے ہوئے غلے) کو ڈھیری کے اوپر کیوں نہیں کردیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے ؟ (یاد رکھو!) جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قَولِ النَّبِیِّ ﷺ: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا)۔
امام سلیمان بن احمد طبرانیؒ نے اس روایت کے آخری اور کلیدی فقرے کو عبداللہ ابن مسعودؓ سے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ اس طرح روایت کیا ہے: ’’مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِي النَّارِ‘‘۔ یعنی جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں اور دغابازی اور فریب کا انجام جہنم ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانیؒ، رقم ۱۰۲۳۴)۔
لہٰذا ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ چند سکّوں کی خاطراپنی آخرت کو داؤ پر نہ لگائے اور یہ یقین رکھے کہ چالبازی سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا مال سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ایسے شخص کی خیانت دھیرے دھیرے لوگوں میں مشہور ہوجاتی ہے اور گاہک اس سے گریز کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجہ میںاس کا کاروبار بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے بجائے دھوکا دینے کے دیانت داری کے ذریعے گاہکوں کو اپنے اعتماد میں لینے کی سعی کرنا چاہیے اور سامان میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے واضح کردینا چاہیے تاکہ ان کو یہ یقین اور اطمینان ہو جائے کہ آپ انہیں کبھی دھوکا نہیںدے سکتے۔ بعض تاجر اپنے سامان کا نقص ظاہر نہیں کرتے بلکہ خریدار سے ہی یہ کہتے ہیں کہ آپ خود اچھی طرح دیکھ لیں، اگر بعد میں کوئی نقص نکلا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے حالانکہ یہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ سامان میں کس قسم کا نقص ہے۔ یہ طریقہ بھی خلاف شریعت ہے کیوں کہ شارع نے عیب کو ظاہر کرنے کی ذمے داری تاجر پر ڈالی ہے جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کردہ عقبہ بن عامرؓ کی روایت سے واضح ہے۔ ساتھ ہی تجارت کا نفع صرف اس شخص کے لئے جائز بتایا گیا ہے جو سامان کے بے عیب اور کارآمد ہونے کی ضمانت (Guarantee) دے، جو شخص یہ ذمے داری نہیں لے سکتا اس کے لئے اس چیز کا منافع درست نہیں۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یُضْمَنُ‘‘ یعنی ’’حلال نہیں نفع اس کا جس کا وہ (تاجر) ضامن نہیں‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، بَابُ مَاجَآئَ فِي کَرَاھِیَۃِ بَیْعِ مَا لَیسَ عِنْدَکَ، رقم ۱۲۳۴، بروایت عبداللہ بن عمروؓ)
نبی کریم ﷺ سے ایک غلام یا لونڈی کی بیع میں ایک خریدار کو تحریری ضمانت کا دیا جانا حدیث کی کتابوں میں منقول ہے۔ یہ خریدار عداء بن خالدؓ تھے جن کو یہ تحریر لکھ کر دی گئی تھی: ’’ھٰذَا مَا شْتَرَی الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدِ بْنِ ھَوْذَۃَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، اشْتَرَی مِنْہُ عَبْدًا أَوْ أَمَۃً، لَا دَائَ وَلا غَائِلَۃَ وَلَا خَبِثَۃَ، بَیْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ‘‘ یعنی ’’یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے اللہ کے رسول محمد ﷺ سے خریدی ہے، انہوں نے آپؐ سے ایک ایسا غلام یا لونڈی خریدی ہے جس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ بھگوڑاپن اور نہ ہی کوئی (اور) خباثت (یعنی اخلاقی برائی)، یہ ایک مسلمان کی مسلمان کے ساتھ بیع ہے ‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، بَابُ مَاجَآئَ فِي کِتَابَۃِ الشُّرُوطِ، رقم ۱۲۱۶، بروایت عداء بن خالدؓ)۔
رسول اللہ ﷺ کا اس قسم کی تحریر لکھ کر دینا امت کی تعلیم کے لئے ہی تھا ورنہ صحابہ کرامؓ میں سے کون ایسا فرد ہوگا جسے آپؐ کی باتوں پر اعتماد نہ ہو۔ آج کے دور میں رسید اور وارنٹی کے کاغذات (Warranty Paper) کا دیا جانا تعلیم نبویؐ کی رو سے ایک مستحسن عمل ہے جس میں اس بات کی گنجائش موجود رہتی ہے کہ بعد میں سامان میں کوئی نقص سامنے آجائے تو خریدار ثبوت کے ساتھ فروخت کنندہ یا اس کی کمپنی سے رجوع کرسکے ۔
یہاں یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ تجارت کی بعض شکلیں ایسی ہیں جن میں فی نفسہ دھوکا موجود ہوتا ہے جیسے پانی میں موجود مچھلی کی بیع کہ اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں میں سے کسی فریق کو حتمی طور پر یہ پتا نہیں ہوتا کہ اس میں مچھلی کی مقدار کتنی ہے لہٰذا ہر ایک فریق کے دھوکا کھا جانے کا امکان ہے ۔ اس طرح کی بیع جس میں بیچی جانے والی چیز اپنی جنس، ذات، مقدار اور اوصاف کے لحاظ سے مبہم اور مجہول ہو، متعین اور واضح نہ ہو یا بیچنے والے کے قبضہ و قدرت سے باہر ہو اور اس کی سپردگی ممکن نہ ہو، اس کو شریعت کی اصطلاح میں بیع غرر (Deceptive Transaction) کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری مثالیں ہیں؛ غائب جانور یا فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، دودھ کی بیع جو جانور کے تھن میں ہی ہو وغیرہ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ’’نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعِ الْحَصَاۃِ وَ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ‘‘ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے بیع حصات اور بیع غرر سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بُطْلَانِ بَیْعِ الْحَصَاۃِ، وَالْبَیْعِ الَّذِي فِیْہِ غَرَرٌ)۔ یہاں بیع حصات سے مراد وہ بیع ہے جو کنکری پھینک کر طے کی جائے۔ یہ بھی دھوکے کی ایک شکل ہے اس لئے ممنوع ہے۔
دودھ دینے والے جانوروں کی بیع میں بھی دھوکے کی ایک صورت اس طرح پیدا کی جاتی ہے کہ گاہک کے سامنے پیش کرنے سے ایک یا دو روز قبل سے ہی اس کا دودھ دوہنا بند کردیتے ہیں تاکہ اس کے تھن بھرے نظر آئیں اور گاہک یہ تاثرلے کہ جانور بہت زیادہ مقدار میںدودھ دینے والا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ گاہک مغالطہ میں آکر معاملہ کرلیتا ہے لیکن ایک سے دو دنوں میں ہی حقیقی صورتحال اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی بیع کو شرعی اصطلاح میں ’’بیع مصراۃ‘‘ کہا گیا ہے جو کہ ممنوع ہے اور اس کے نتیجے میں دھوکا کھائے ہوئے خریدار کو شریعت نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ بیع کو فسخ کردے اور جانور واپس کرکے اپنی رقم لے لے۔ اس اختیار کو شرعی اصطلاح میں ’’خیا ر تدلیس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ لَا تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَھَا بَعْدُ فَإِنَّہُ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ بَعْدَ أَنْ یَحْتَلِبَھَا: إِنْ شَائَ أَمْسَکَ، وَ إِنْ شَائَ رَدَّھَا وَصَاعَ تَمْرٍ‘‘ یعنی ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو، اگر کسی نے (دھوکہ میں آکر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں؛ چاہے تو جانور کو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دیدے‘‘ ۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ النَّھْيِ لِلْبَائِعِ أَنْ لَا یُحَفِّلَ الْاِبِلَ وَالْبَقَرَ وَالْغَنَمَ وَکُلَّ مُحَفَّلَۃٍ، رقم ۲۱۴۸، بروایت ابوہریرہؓ)۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق لوٹانے کا یہ اختیار خریدار کو تین دنوں تک ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’مَنِ ابْتَاعَ شَاۃً مُصَرَّاۃً فَھُوَ فِیْھَا بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، إِنْ شَائَ أَمْسَکَھَا وَ إِنْ شَائَ رَدَّھَا، وَرَدَّ مَعَھَاصَاعًا مِّنْ تَمْرٍ‘‘ یعنی ’’جس نے ایسی بھیڑ (یا بکری ) خرید لی جس کا دودھ روکا گیا ہو، تو اسے تین دن تک اس کے بارے میں اختیار ہے، اگر چاہے تو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور اگر لوٹائے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے‘‘ ۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، بابُ حُکْمِ بَیْعِ الْمُصَرَّاۃِ، رقم ۳۸۳۱؍۲۴، بروایت ابوہریرہؓ)۔
ایک صاع کھجور (جو احناف کے نزدیک ۳؍کلو، ۱۴۹؍گرام، ۲۸۰؍ملی گرام اور علمائے اہل حدیث کے نزدیک تقریباً سوا دو کلوبنتا ہے) کے ساتھ جانور اس کے مالک کو لوٹانے کا حکم غالباً اس لئے دیا گیا ہے کیوں کہ خریدار نے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھایا ہے اور بعضوں نے یہ کہا کہ یہ از راہ احسان یا تالیف قلب کے لئے ہے کیوں کہ دودھ کے لئے تو خریدار نے جانور کو چارہ بھی ڈالا ہوگا اور الخراج بالضمان کے اصول کے مطابق حساب تو برابر ہوچکا۔ اور کھجور کی تخصیص اس لئے کی گئی کیوں کہ یہ اس وقت وہاں کی عام غذا تھی، اس لئے یہ کویٔ ضروری نہیں کہ ایک صاع کھجور ہی دیا جائے بلکہ ہر زمانے میں اپنے اپنے ملکی دستور کے مطابق خوردنی غلہ اسی وزن سے یا اس کی قیمت کے برابر رقم بھی دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح درختوں اور باغات کو پھلوں کے نمودار ہونے سے پہلے ان کی امید پر ایک سال یا زیادہ مدت کے لئے بیچنا بھی ممنوع ہے کیوں کہ اس بات کا امکان ہے کہ درختوں میں پھل نہ آئے یا آنے کے بعد پختگی سے پہلے ہی کسی آفت مثلاً آندھی، بارش یا اولے کا شکار ہوجائے۔ اس طرح کی بیع کو حدیث میں ’’معاومت‘‘ کہا گیا ہے اور اس سے روکا گیا ہے، نیز پھل لگنے کے بعد بھی اس وقت تک خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے جب تک ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے: ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْثِّمَارِ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُھَا، نَھَی الْبَائِعَ وَالْمُبْتَاعَ‘‘۔یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے پھلوںکی بیع سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان کی پختگی ظاہر ہوجائے ، یہ ممانعت بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے لئے ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب بَیْعِ الْثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ یَبْدُوَ صَلَاحُھَا، رقم ۲۱۹۴)۔ دوسری روایت انسؓ سے یوں ہے: ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْثِّمَارِ حَتّٰی تُزْھِيَ، فَقِیْلَ لَہُ: وَمَا تُزْھِيَ؟ قَالَ: حَتّٰی تَحْمَرَّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أَرَأَیْتَ إِذَا مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمَرَۃَ، بِمَ یَأْخُذُ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِیْہِ‘‘۔ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے ’’زھو‘‘ سے پہلے پھلوںکی بیع سے منع فرمایا ہے، ان سے دریافت کیا گیا کہ ’’زھو‘‘ کسے کہتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہاں تک کہ سرخ ہوجائے (یعنی پکنے پر آجائے)، پھر آپؐ نے فرمایا: ’’ تم ہی بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (یعنی پکنے سے روک دے یا کسی آفت کے ذریعے ضائع کردے) تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس بناپر لے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابٌ إِذَا بَاعَالْثِّمَارَ قَبْلَ أَنْ یَبْدُوَ صَلَاحُھَا ثُمَّ أَصَابَتْہُ عَاھَۃٌ فَھُوَ مِنَ الْبَائِعِ، رقم ۲۱۹۸)۔
اس لئے باغات کے مالکوں اور پھلوں کے تاجروں کو چاہیے کہ وہ پھلوں کے پختہ و تیار ہونے تک صبر و انتظار کریں اور اس کے بعد ہی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کریں۔
۱۳۔ جھوٹ سے پرہیز کرنا: تجارت میں جھوٹ سے بھی پرہیز لازمی ہے۔ دور حاضر کی تجارت میں لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ غیروں کی تو بات ہی کیا بعض سادہ لوح مسلمان بھی ایسا خیال رکھتے ہیں۔ خود راقم سے ایک بار ایک صاحب نے ان خیالات کا اظہار کیاجس کی بندہ نے اصلاح کی۔ یاد رکھیں کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا اعلان قرآن کریم میں موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْن}(اٰل عمران:۶۱)۔ رسول پاکؐ سے بھی دروغ گویٔ کی مذمت میں بہت سے اقوال منقول ہیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اس کو منافقین کی صفت بتایا ہے۔ دنیا میں اس کے بھی وہی نقصانات سامنے آتے ہیںجو راقم نے عنوان بالا کے تحت بیان کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اس روایت کو دیکھیں: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ بیع و شرا کرنے والے فریقین (بائع اور مشتری ) کو اختیار ہے (فسخ بیع کا) جب تک جدا نہ ہوںپھر اگر وہ دونوںسچ بولیں اور واضح کر دیں حقیقت کو (یعنی جو کچھ عیب ہے سامان میںیا قیمت میں) توان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولیںاور چھپائیں (عیوب کو) تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، بابُ الصِّدْقِ فِي الْبَیْعِ وَالْبَیَانِ)۔
اس طرح جھوٹ کانتیجہ تجارت میں بے برکتی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو پھر یہ کھلی ہوئی بات ہے ان کی تجارت کو کبھی فروغ نہ ہوگا جو جھوٹ کی لعنت سے اپنی تجارت کو پاک نہیں کرتے۔ یہ تو دنیا کا نقصان ہے، اب ذرا آخرت سے متعلق وعید بھی ملاحظہ کیجئے۔ حضرت رفاعہ بن رافع انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے (اپنی تجارت میں)تقوی اور نیکی اورسچایٔ کی روش اختیار کی‘‘۔ (سنن ترمذی،کتاب البیوع، باب مَاجَآئَ فِي التُّجَّارِ وَ تَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ ﷺ إِیَّاھُم، رقم ۱۲۱۴)۔ اب اگر کویٔ قیامت میں فاسق و فاجراٹھایا جائے تو اس کا جو حشر ہوگا اسے بہ آسانی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اللہم احفظنا منھم۔ اس سلسلے میں ایک بات اور ذہن نشیں رہنا ضروری ہے کہ کسی سامان کی اصل نوعیت سے زیادہ تعریف بھی جھوٹ میںشامل ہے لہٰذا اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔)

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *