آخر کیسے معلوم ہوگا کہ ہمارے روزے سے ہمیں تقویٰ حاصل ہو رہا ہے یا نہیں؟

سید زاہد احمد علیگ

ماہ ِ رمضان بڑی تیزی سے گزر رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھے مغفرت کا عشرہ بھی گزر جائے گا اور پھر وہ شب قدر بھی گزر جائے گی جس کی فضیلت ہزار مہینے سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد عید الفطر اور پھر ہمارے اپنے زندگی کے معمولات ہوں گے۔ لیکن ابھی ہمارے یہ سوچنے کا موقع ہے کہ آیا ہم صرف رمضان میں بھوکے پیاسے رہ رہے ہیں یا روزے سے کچھ کمائی بھی ہو رہی ہے؟ سورۃ البقر کی ۲۳ ویں رقوع میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کے متعلق احکامات جاری کیا ہے، اس پر غور کرنا چایئے۔ روزہ کی فرضیت کا حکم کچھ اس طرح دیا کہ اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ (آیت ۱۸۳) اور رقوع کے اخیر میں فرمایا کہ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو رشوۃً حاکموں کے پاس پہنچاؤ تا کہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور اسے تم جانتے بھی ہو۔ (آیت ۱۸۸) ان دو آیتوں کے درمیان رمضان کے روزے سے متعلق مسائل بیان ہوئے ہیں۔ آیت نمبر ۱۸۵ میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے، سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا، اور تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
دراصل رمضان کی فضیلت نزول قرآن کی وجہ سے ہے اور اللہ نے روزے کا حکم اس لئے دیا تاکہ مسلمانوں کے وہ اندر تقویٰ پیدا ہو سکے جو ہمیں قرآن پر عمل پیرا ہو نے لائق بنا سکے ۔ رمضان کا مقصد کسی کو تنگی میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو بہ آسانی پرہیز گار بنانا ہے تاکہ وہ آپس کے مال نا حق طریقے سے نہ کھائیں اور نہ ہی رشوت کے زریعہ معاشرت اور معیشت میں بگاڑ پیدا کریں۔ یوں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقام پر پرہیز گاروں کی تعریف کی ہے لیکن سچی نیکی اور پرہیزگاری کے متعلق اللہ تعالی ٰ فر ماتا ہے کہ یہ نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر، اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے، اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے، اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں، اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ (سورۃ البقرہ ، آیت۱۷۷) اس کے علاوہ سورہ آل عمران میں پرہیزگار بندوں کے متعلق اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے کہ جو خرچ کئے جاتے ہیں خوشی میں اور تکلیف میںاور دبا لیتے ہیں غصہ اور معاف کرتے ہیں لوگوں کو اور اللہ چاہتا ہے نیکی کرنے والوں کو ۔ اور وہ لوگ کہ جب کر بیٹھیں کچھ کھلا گناہ یا برا کام کریں اپنے حق میں،تو یاد کریں اللہ کو اور بخشش مانگیں اپنے گناہوں کی اور کون ہے گناہ بخشنے والا سوا اللہ کے اور اڑتے نہیں اپنے کئے پر اور وہ جانتے ہیں ( آیت ۱۳۴ تا ۱۳۵)
لیکن ماہ رمضان اور شب قدر انہیں کے لئے مبارک ہوتی ہے جو تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر رمضان کے مہینے میں روزہ رکھ کر بھی ہم حرام و حلال کی پرواہ کئے بغیر مال کمانا چاہتے ہیں اور رشوت یا دوسرے ناجائز طریقوں کے ذریعہ دوسروںکا مال ہڑپنے سے نہیں بچنا چاہتے تو ہمارے روزہ ہمارے لئے کسی کام کے نہیں۔ اس ماہ مبارک میں مغفرت کا عشرہ گزرنے سے پہلے ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ استغفار کرتے ہوئے اللہ سے معافی طلب کریں اور روزہ کے ذریعہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان میں دن بھر بھوکے پیاسے ر ہ کر جہاں ہم اپنے نفسانی خواہشات پر لگام لگا سکتے ہیں وہیں افطار کے بعد رات میں جب جسمانی کمزوری دور ہوتی ہے اور انسان کا نفس زور مارنے کی حالت میں آتا ہے، تو اس پر قیام الیل کے دوران کلام الٰہی کی تلاوت سے روحانی دبائو پڑتا ہے ۔ اس طرح رمضان میں دن کے روزے اور تراویح کی نماز کے ذریعہ انسان اپنے نفس پر روحانی اثرات ڈالتا ہے اور اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کر کے رمضان کے آخری عشرے میں اللہ کے حضور میں جہنم سے خلاصی کا طالب ہوتا ہے۔
رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ جہنم میں جائے۔ اپنے نیک بندوں کو گناہوں سے پاک کرنے اور ان کو پرہیز گار بنانے کے لئے وہ کچھ یہی نہیں کرتا کہ ان پر رمضان میں روزے فرض کر دیتا ہے بلکہ صحیح بخاری ( حدیث نمبر1899) اور صحیح مسلم ( حدیث نمبر 1079 ) میں ہےکہ جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ مطلب رمضان المبارک میں شیطان کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے، اور اللہ کی طرف سے فرشتے انسان کو نیکی کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عام دنوں کے مقا بل ماہ رمضان میں کہیں زیادہ مسلمان نیک جذبات کے ساتھ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور صدقہ خیرات کرنے لگتے ہیں۔ ماہ رمضان میں مسجدیں عام دنوں سے کہیں زیادہ بھری ہو ئی نظر آتی ہیں اور سال بھر میں جتنا صدقہ زکوٰۃ نہیں نکلتا ، اس سے کہیں زیادہ مال زکوٰۃ صرف ماہ رمضان میں نکلتا ہے۔ سال بھر میں جتنی قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اس سے کہیں زیادہ لاوت صرف ماہ رمضان میں ہوتی ہے۔ رمضان میں مومنوں کے لئے روزی بڑھا دی جاتی ہے۔
لیکن خبردار ! اللہ کی جانب سے اپنے نیک بندوں کے لئے تمام رحمتوں اور مغفرتوں کے وعدے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی آزمائش کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ جہاں ماہ رمضان میں سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتاہے اور شب قدر میں خاص فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر نازل ہوتے ہیں ، وہیں انسانوں کی آزمائش کے لئے رمضان میں بھی انسان کا قرین (ھمزاد شیطان) آ زاد رہتا ہے جو اسے نیکیوں سے ہٹا کر برائیوں کے طرف لے کر جاتا ہے، ھمزاد الشیاطین سے بچنے کی خاص دعا سورۃ مو منون ، آیت ۹۷ تا ۹۸ میں اس طرح سکھائی گئی ہیں ۔ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْن، وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَن یَحْضُرُون(اور کہو کہ اے پروردگار میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اور اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں ) ۔ ضروری ہے کہ ہم اس مہنے میں اپنے قرین کے وسوسوں سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہیں ورنہ ہمارا قرین ہمارے نیکیوں کو ضائع کروا دے گا اور ہمیں نیکیوں سےہٹا کر برائیوں کی طرف کھینچ لے جایئے گا۔

انسان کا قرین کبھی انسان سے رمضان میں گالی گلوچ اور مارپیٹ کروا تا ہے تو کبھی زکوٰۃ ادا کرنے اورمعاملات میں اخلاص کی جگہ اپنے نفس کی پیروی کروا تا ہے۔ کوئی کسی کو زکوٰۃ اور خیرات پر احسان جتاتا ہے تو تو کوئی اپنے نماز روزہ کے آگے طیبات کی فکر سے بالاتر ہو کر حلال حرام کی پرواہ کئے بغیر دنیا کو دین سے الگ سمجھتا ہے۔ بھلے ہی نیکی کمانا مال کمانے سے زیادہ آسان ہ ہو لیکن جہاں مال ودولت کو بچانے کے لئے انسان سو جتن کرتا ہے، نیکیوں کو بچانے کی شاید ہی ہم فکر کر تے ہیں۔ اسی لئے پرانی کہاوت تھی کہ نیکی کر دریا میں ڈال کیوں کہ نیکی کر کے بھول جانے سے ممکن ہے کہ انسان کی وہ نیکی بچی رہ جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ انسان کا قرین انسان کی نیکی پر دکھاواکروا کر اس کی نیکی کو ضائع کراوا دے۔ نیکی کر نے کے بعد اللہ کے خوف اور امید کی بجائے اگر نیک ہونے کا گمان غالب آ جائے تو انسان کا قرین اسے برباد کروا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل اوصاف ہمیں بتائیں گے کہ ہمیں اپنے روزوں سے تقویٰ حاصل ہو رہا ہے یا نہیں ۔

روزہ سے تقویٰ حاصل ہونے کے صورت میں ۔۔۔
روزہ سے اگر تقویٰ حاصل نہیں ہو رہا ہے تو۔۔۔
روزہ سے ایمان میں اضافہ ہوگا
روزہ سے ایمان میں اضافہ مشکل ہوگا
زکوٰ ۃ کے علاوہ صدقہ کے ذریعہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کریگا
زکوٰۃ کے علاوہ صدقہ کی فکر کم ہوگی
غصہ کو پینا آسان ہو جائے گا اور گالی گلوج اور مار پیٹ سے بچ سکتے ہیں
اندیشہ رہے گا کہ غصہ میں آ کر گالی گلوج اور مار پیٹ پر آمادہ ہو جاتے ہیں
لوگوں کو معاف کرنے کو پسند کرے گا
لوگوں کو معاف کرنے کی بجائے ان سے بدلہ لینے کی کوشش کرے گا
شیطان کے وسوسہ پر چونک جاتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں
شیطان انہیں وسوسہ ڈال کر برائی کی راہ پر لے جاتا ہے
برائیوں کو بھلائی سے دفع کر سکتے ہیں
برائی کے بدلہ بھلائی مشکل ہوگا
لوگوں کے ساتھ انصاف اور احسان کا معاملہ کریںگے
لوگوں کے انصاف اور احسان کرنا مشکل ہو جائے گا
اپنے مال اور اولاد پر فخر نہیں کر سکتے
مال اور اولاد پر فخر کا اندیشہ رہے گا
رشوت اور ناجائز طریقو سے مال کمانے سے بچتے ہیں
مال کمانے کے لئے رشوت اور ناجائز طریقوں سے پرہیز نہیں کرتے
جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو دل اللہ کے خوف سے لرز جاتے ہیں
دل پر قرآن کی تلاوت کا کوئی اثر نہیں ہوتا
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے وقت دل لرزتا ہے
راہ خدا میں مال خرچ کرتے وقت دل پر گرانی ہوتی ہے
اپنے وعدے کع ہر حال میں پورا کرتے ہیں
اکثر وعدہ خلافی کرتے ہیں
تنہائی میں اللہ کا خوف برائیوں سے روکتا ہے
تنہائی میں اللہ کے خوف سے محروم رہتے ہیں
زیادہ سے زیادہ طیبات کے فکر کرے گا
طیبات سے بے پرواہ ہو گا
لغو باتوں اور غیبت سے پرہیز کرتے ہیں
لغو باتوں میں الجھتے ہیں اور غیبت سے پرہیز نہیں کرتے
دشمن قوم سے بھی معاملہ ہو تو حق اور انصاف سے نہیں ہٹتے
دشمن قوم سے معاملہ ہو حق اور انصاف کی پرواہ نہیں کرتے
اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے بلکہ توبہ استغفار کرتے ہیں
اپنے گناہ پر اصرار کرتے ہوئے اسے سحیح ٹھہرانے کی کوشش کرے گا
نگاہ نیچے رکھتے ہیں اور آواز پست رکھتے ہیں
لوگوں پر اپنا رعب جتاتے ہیں اور اتراتے پھرتے ہیں
غریبوں اور ضعیفوں سے محبت رکھتے ہیں
غریبوں اور ضعیفوں کی پرواہ نہیں کرتے
اللہ کے زکر اور درود و سلام سے دلوں کو قرار ملتا ہے
ناچ گانے اور لغو باتوں سے دلوں کا سکون تلاش کرتے ہیں
نفلی صدقہ کو چھپا کر خرچ کریگا
لوگوں کے دکھانے کے لئے مال کرچ کرتا ہے
انسان آجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے
انسان تکبر اور ریا کرتا ہے
جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائیوں کے لئے بھی پسند کرتا ہے
اپنے لئے بہتر اور دوسروں کے لئے کمتر کو پسند کرتا ہے
اپنے بچت کی رقم کو رضائے الٰہی پر خرچ کر کے زخیرہ آخرت کماتا ہے
بچت کی رقم سے دنیا کی دولت بڑھانے کے غرض سے سرمایہ کاری کرتا ہے
مندرجہ بالا اوصاف کی روشنی میں ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنے روزوں میں کامیاب ہو رہے ہیں یا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے قرین سے اللہ کی پناہ لیں اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہیں۔ اللہ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اپنے روزوں کے زریعہ وہ تقویٰ حاصل کر سکیں جو ہمیں رشوت کے زریعہ اور ناجائز طریقوں سے مال کمانے سے روک دے اور ۔ آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *