شب قدر اور چاند کا مسئلہ

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514

’’بیشک ہم نے اس(قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ کیا ہے شب قدر ؟ شب قدر (خیر و برکت میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے دنیا کے کام کے انتظام کے لئے اترتے ہیں۔ سلامتی ہے وہ رات طلوع صبح تک۔‘‘(سورہ ٔالقدر)
سورہ البقرہ کی آیت نمبر:۱۸۳/۱۸۴میں بتایا گیا کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔مہینے کے کس حصے میں اور دن میں یا رات میں کب نازل ہوا اس کی تفصیل وہاں موجود نہیں ہے۔اس سورہ میں بتایا جار ہاہے کہ قرآن شب قدر میں نازل کیا گیا۔ اس سلسلے میں اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ انزلنا سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ شب قدر میں پورا کا پورا قرآن لوح محفوظ سے دنیا کے آسمان پر منتقل کر کے فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیلں کے حوالے کر دیا گیا۔اور پھر حضرت جبرئیل ںاللہ کے حکم سے قرآن کا حصہ رسول اللہﷺتک ۲۳ برسوں تک پہنچاتے رہے۔پورا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر کیوں بھیجا گیا اس کا راز بھی سورۂ معارج کی یہ آیت کھولتی ہے۔’’ملائکہ او ر روح(جبرئیلں) اس (اللہ) کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار(تمہارے حساب سے) پچاس ہزار سال ہے۔ (المعارج:۴)یعنی لوح محفوظ سے اگر قرآن تھوڑاتھوڑا کر کے لایا جاتا تو اس میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا اس لئے مکمل قرآن وہاں سے دنیا کے آسمان پربھیج دیا گیا جہاں سے اسے زمین پر ضرورت کے مطابق پہنچانا بہت آسان ہو گیا۔
شب قدر کی ایک فضیلت یہ بتائی گئی کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ آدمی صرف ایک رات کی عبادت میں اتنا ثواب حاصل کر لے گا جو وہ عمر بھر نہیں کر سکتا ہے، اس لئے کہ کسی بھی آدمی کی عمر ہزار سال نہیں ہوتی ہے۔اگر بالغ ہونے کے بعد آدمی پچاس سال بھی زندہ رہا تو پچاس شب قدر ملی یعنی پچاس ہزار سال کی عبادت ہوئی۔اپنے بندے کو جنت میں پہنچانے کا یہ سوپر فاسٹ انتظام اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔پچھلے جتنے انبیا آئے ان کی امتوں کے مقابلے میں محمدﷺ کی امت کی عمر سب سے کم ہے اس وجہ سے یہ امت پچھلے انبیا کی امت کی طرح ثواب نہیں کما سکتی ہے۔نوح ںکی امت کی عمر ایک ہزار سال تھی۔اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کی امت کو شب قدر کی اس عبادت سے نواز کر ایسا موقع دیا کہ یہ پچھلی تمام امتوں کے مقابلے میں ہزارگنا زیادہ ثواب اور نیکی کما سکتی ہے۔جنت میں ایک ہی درجہ نہیں ہوگا کہ ہر طرح کے لوگ اسی میں رہیں۔عمل صالح کے درجات کی بنیاد پر الگ الگ طرح کے لوگوں کے درجے الگ ہو ں گے۔جس طرح دنیا میںسماج میں رہنے والوں کے الگ الگ طرح کے درجات ہوتے ہیں اسی طرح جنت میں بھی الگ الگ لوگوں کے لئے بہت سے درجے ہوں گے۔سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہوگا جس میں انبیا رہیں گے۔ اس کے بعد شہدا، صدیقین اورصالحین کے درجے ہوں گے۔نبی ﷺکا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب بھی جنت کی دعا کرو تو جنت الفردوس مانگو۔گویا جنت الفردوس سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔شب قدر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا جنت الفردوس کا حقدار بننا آسان بنا دیا۔
غور کیجئے کہ کتنا بدنصیب ہے وہ بندہ جو اس رات کو سو کر یا فضولیات میں ضائع کر دیتا ہے۔یہ بھی بتایا گیا کہ اس رات میں آنے والے سال کے لئے تقدیر کے فیصلے زمین پر بھیجے جاتے ہیں۔ یعنی آئندہ سال دنیا میں انسانوں کے ساتھ کیا کیا ہونا ہے وہ سارے معاملات دنیا میں رہنے والے فرشتوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔اگر انسان اس رات عبادت کرتا رہے اور اللہ سے دعا اور استغفار کرتا رہے کہ مالک اس حقیر بندے کو آفتوں اور بلاؤں سے بچائے رکھنا تو کیا اُس کا آنے والا سال سلامتی اور شادمانی کا سال نہیں بن جائے گا ؟
رمضان کا آخری عشرہ گنہ گار بندوں کے جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔شب قدر میں دعائیں خاص طور سے قبول ہوتی ہیں۔ روزہ دار اگر شب قدر میں اپنے لئے،عام مسلمانوں کے لئے، اپنے مردہ رشتہ داروں اور دیگر انسانوں کے لئے مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کے لئے دعا کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ قبول کر لے تو سوچئے یہ کیسا شاندار عمل ہوگا۔اس رات کو ضائع کر دینا اور ایسا سنہری موقع کھودینا کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔
شب برات کو فضیلت کی رات سمجھ کر لوگ اس کا جتنا اہتمام کرتے ہیں شب قدر کا نہیں کرتے ہیں۔شب قدر کی فضیلت قرآن اور حدیث سے جتنے مستحکم اور مستند طور پر ثابت ہوتی ہے شب برات کی فضیلت اس مضبوطی اور استحکام کے ساتھ ثابت نہیں ہوتی ہے۔پھر یہ کہ شب برات کی فضیلت کے سلسلے میں امت کے اندر اختلا ف پایاجاتا ہے جبکہ شب قدر کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔غور فرمائیے جس پر اتفاق ہے اُس کی ناقدری اور جس پر اختلاف ہے اُس کا اہتمام ،کیا یہ اہل ایمان اور اہل حق کی روش ہوسکتی ہے ؟
شب قدر کب ہوتی ہے اس کے متعلق قرآن میں کچھ نہیں لکھا ہے،لیکن حدیث اس کے متعلق بتاتی ہے۔
’’حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘(بخاری) رمضان کے آخری عشرے میں اکیس(۲۱)، تئیس (۲۳)، پچیس(۲۵)،ستائیس (۲۷)اور انتیس(۲۹) تاریخوں کی راتیں طاق راتیں ہوتی ہیں۔انہیں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہوتی ہے جس کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار سال کی عبادت کے جیسا ہے۔
’’معاذ ؓبن فضالۃ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ چند اصحاب کے ساتھ رمضان…… میں اعتکاف میں بیٹھے پھر بیس تاریخ کی صبح کو نبی ﷺ اعتکاف سے نکلے اور خطبہ دیا۔نبیﷺ نے فرمایا: کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دی گئی ،یا( نبیﷺ نے فرمایا )میں خود ہی بھول گیا، اس لئے تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے (خواب میں ) یہ بھی دیکھا ہے کہ گویامیں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔اس لئے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیااور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کیچڑمیں سجدہ کر رہے تھے۔یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے نبی ﷺ کی پیشانی پر دیکھا۔‘‘(بخاری)
’’عبادہؓ بن صامت روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہﷺ ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لئے تشریف لا رہے تھے کہ دومسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔اس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتا دوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا، پس اس کا علم اٹھا لیا گیا او ر امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا۔پس اب تم اس کی تلاش(آخری عشرہ کی) نو راتوں میں کیا کرو۔‘‘(بخاری)
ان حدیثوں میں کہا جارہا ہے کہ رسول اللہﷺ کو بتا دیا گیا تھا کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کس رات کو ہوتی ہے ، لیکن پھر بتا کر بھلا دیا گیا اور نبیﷺ فرمارہے ہیں کہ یہی تمہارے حق میں اچھا ہے۔شب قدر کے بھول جانے کی وجہ دو مسلمانوں کا آپسی جھگڑا بتایا گیا۔اب شب قدر تو باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی لیکن مسلمانوں کا جھگڑ اکل بھی تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔
بدنصیب انسان عبادت کرنے سے بھاگتا ہے اور اس میں ڈنڈی مارنا چاہتا ہے جیسا کہ تراویح کی نماز میں دیکھا جاتا ہے۔اس کم عقل کو دنیا تو زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر اور دھن ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لئے نیکی کمانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کی زیادہ سے زیادہ عبادت یعنی بندگی کریں تاکہ وہ ان کو حد سے زیادہ اجر و ثواب عطا کرے۔اسی غرض سے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو شب قدر کی رات کا علم دیا بھی اور پھر بھلا بھی دیا۔اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ شب قدر ستائیس رمضان کی رات میں ہوتی ہے تو وہ صرف ستائیس رمضان کی رات میں جاگتے اور باقی راتوں میں سوئے رہتے، جیسا کہ ابھی کرتے ہیں۔لیکن اب جبکہ شب قدر کے متعلق نہیں معلوم ہے کہ کس رات میں ہوگی تو اللہ کے نیک اور صالح بندے ہر طاق رات میں جاگتے اور عبادت کرتے ہیں اور یہ ان کے حق میں ہر طرح سے خیرو برکت کی بات ہے۔
جب رمضان کے چاند میںاعلان کا فرق ہوتا ہے اور مختلف علاقوں میں الگ الگ دنوں سے رمضان شروع ہوتا ہے توبعض ایسے لوگ جن کو شریعت کا کوئی علم نہیں ہے ، شکایت کرتے ہیںکہ شب قدر خطرے میں پڑ گئی۔نادانوں کو نہیں معلوم کہ شب قدر دنیا بھر میں ایک ہی رات میں نہیں ہوتی ہے۔سعودی عرب میں او ر ہندوستان میں شب قدر کی رات ایک نہیں ہوگی۔امریکہ اور بنگلہ دیش میں شب قدر ایک ہی وقت میں نہیں ہوگی۔اللہ تعالیٰ رات اور وقت کا محتاج نہیں ہے۔اس نے وقت اور دن رات کا انتظام اپنے بندوں کے لئے کیا ہے ۔اس کے لئے نہ آج ہے نہ کل نہ پرسوں۔نہ منٹ ہے، نہ گھنٹہ، نہ دن ،نہ ہفتہ ، نہ مہینہ ،نہ سال۔نہ شام نہ صبح نہ دن نہ رات۔وہ تو صرف یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ رات میں اپنی نیند کو قربان کر کے اس کی عبادت کے لئے جاگ رہا ہے یا نہیں۔ خلوص اور عاجزی کے ساتھ اس کو پکار رہا ہے یا نہیں۔اللہ تو اپنے بندوں کو نوازنے اور سرفراز کرنے کے لئے بے قرار ہے ، یہ بندنصیب بندہ ہی اس کی رحمت و شفقت کی قدر نہیں کرتاہے۔ اللہ کے باغی اور غدار شیطان سے دوستی کر کے اپنی تباہی اور بربادی کا سامان کر رہا ہے۔
اس حدیث میں کہا جارہا ہے کہ نبی ﷺ نے جب شب قدر خواب میں دیکھی اور یہ بھی دیکھا کہ آپ کی پیشانی مبارک کیچڑ آلود ہے۔اور پھر جبکہ آسمان پر بادل نہیں تھے، بادل آگئے اور بارش ہونے لگی جس کی وجہ سے مسجد نبوی میں پانی کھجور کی چھت سے زمین پر ٹپکنے لگا اور نبیﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگ گیا۔گویا یہ وہ رات تھی جس کو شب قدر کہاجاتا ہے۔شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کر نے کے لئے کہا گیا ہے۔کس رات شب قدر ہے نہیں معلوم۔اس حدیث کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک بات یہ چل پڑی کہ جس شب قدر میں پانی برس جائے وہی شب قدر ہے۔لیکن ایسا خیال صحیح نہیں ہے۔ شب قدر کب ہوگی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
چاند کے اعلان کا مسئلہ:
رسول اللہ ﷺکی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مہینہ انتیس(۲۹) دن کا اور تیس(۳۰) دن کا ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ اگر انتیس تاریخ کو چاند نظر آ جائے تو اگلے دن مہینے کی پہلی تاریخ ہوگی۔اگر انتیس کو چاند نظرنہیں آیا تو تیس تاریخ کے ہوتے ہی مہینہ ختم ہو گیا اور اگلے دن سے دوسرا مہینہ شروع ہو گیا۔دوسری بات یہ کہ چاند کو اپنی فطری آنکھوں سے دیکھنا ہوگا۔ دور بین یا کسی اور آلے سے چاند دیکھنے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ابتدائے اسلام میں آسمان کی سیر کرنے والے آلے ایجاد نہیں ہوئے تھے،اور آج بھی یہ آلے دنیا کے ہر مقام پر موجود نہیں ہیں کہ ان سے چاند دیکھنے کا سہارا لیا جائے۔شریعت نے فطری قانون پر عمل کرنے کا حکم دیاہے کہ جس جگہ چاند دیکھا جائے وہاں روزہ رکھنا شروع کیا جائے اور چاند دیکھ کر عید کی نماز پڑھ لی جائے۔رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد میں ایسا نہیں تھا کہ مدینہ میں چاند دیکھا گیا تو پوری اسلامی سلطنت میں اعلان کیا جارہا ہے کہ کل سے روزہ رکھا جائے گا یا کل عید کی نماز پڑھی جائے گی۔آج کی طرح ریڈیو، ٹیلی ویژن،موبائل اور انٹر نیٹ بھی نہیں تھا۔مکہ اور مدینہ کے لوگ اپنااپنا چاند دیکھ کررمضان اور عید کا فیصلہ کرتے تھے۔ دور دراز علاقوں میںرہنے والے قبائل بھی اپنے علاقے میں چاند دیکھ کر چاند کا فیصلہ کرتے تھے۔عید کا دن اور عید کی نماز مسلمانوں کے اتحاداور یک جہتی کی علامت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے جس انعام سے نوازا ہے اس کے شکرانے اور اللہ کی بزرگی و بڑائی کے اعلان کا دن ہے۔مگر ہمارے ملک میں بے دین لوگوں نے عید کو اتحاد اور یک جہتی کی علامت بنا دیاہے۔
شریعت کی رو سے الگ الگ علاقے میں چاند دیکھنے کے بعد رمضان اور عید کا فیصلہ ہوگا۔لیکن موجودہ سیاست نے جہاں زندگی کے ہر شعبے پر قبضہ جما لیاہے وہیں مسلمانوں کی شریعت پر بھی قبضہ کر لیاہے۔حکومت وقت کو پورے ملک میں مسلمانوں کو عید کی چھٹی دینی ہوتی ہے اور اس کا پیشگی کیلنڈر بنانا ہوتا ہے۔حکومت الگ الگ علاقوں کے لئے الگ الگ کیلنڈر نہیں بنا سکتی۔اس لئے اس نے اپنے حاشیہ بردار علما سے کہا کہ تم لوگ پورے ملک میں ایک دن عید منانے کا فیصلہ کرو۔ اس غرض سے ایک کانگریسی ممبر پارلیامنٹ مشہور عالم دین نے دہلی میں تمام مکتب فکر کے مسلمانوں کو بلایا اور کوشش کی کہ سب اتفاق رائے سے اس کا فیصلہ کر لیں۔لیکن جو علما آئے تھے وہ حکومت وقت کے نمک خوار اور وفادار نہیں تھے۔ انہوںنے کہا کہ جو مسئلہ درپیش ہے اس کے تحت شمالی ہندوستان کے سرحدی علاقے میں چاند دیکھا جائے گا تو جنوبی ہندوستان کے سرحدی علاقے تک کے مسلمان اس کو تسلیم کر لیں گے۔لیکن پڑوسی ملک کے قریبی سرحدی علاقے میں چاند دیکھا گیا توہمارے ملک کی سرحد کے قریبی علاقے کے مسلمان اس چاند کو تسلیم نہیں کریں گے۔یہ فیصلہ سیاسی تو ہو سکتا ہے مگر شرعی نہیں ہو سکتا ہے۔چنانچہ اس امر پر اتفاق نہیں ہوا، لیکن جلسہ بلانے والوں نے اعلان کر دیا کہ اتفاق رائے سے فیصلہ ہو گیا۔چونکہ اس کے پیچھے سیاسی مقصد تھا اس لئے مخصوص لوگ اس پر عمل بھی کرنے لگے۔لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا۔دلی کی دو مسجدوں سے چاند کا اعلان ہوتا ہے۔بنگال کی چاند کمیٹی الگ ہے۔ریاست بہار کی راجدھانی پٹنہ میں کئی ادارے چاند کا اعلان کرتے ہیں۔اور اس افرا تفری میں اکثر عید کی نمازایک ہی شہر میں دو دن پڑھی جاتی ہے۔
شروع میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی اور دور دور پر تھی۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ آبادی بڑھتی گئی اور مسلسل آبادیاں قائم ہو گئیں۔اب یہ مسئلہ پیدا ہو اکہ ایک جگہ جب چاند دیکھا جائے گا تو اس کو کہاں تک مانا جائے گا۔اس کو شرعی اصطلاح میں مطلع کہتے ہیں۔یعنی چاند کا مطلع کہاں تک مانا جائے گا۔دلی والے چاہتے تھے کہ پورے ہندوستان کو ایک مطلع مان لیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔مختلف علاقوں میں چاند کا اعلان کرنے والے افراد یا ادارے کو بھی یہ طے کرنا چاہئے تھا کہ ان کے چاند کا مطلع کہاں تک مانا جائے گا، مگر ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ہوا یہ کہ پٹنہ میں چاند کا اعلان کرنے والا دو ادارہ ایسا ہے جو پورے بہار کو اپنی جاگیرسمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ چاند کے متعلق اس کے اعلان کو پوری ریاست میں مان لیا جائے۔لیکن ریاست بہار میں دوسرے ادارے بھی ہیں جو اس ادارے کی چودھراہٹ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اورنہیں چاہتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اس چودھری ادارے کے چاند کے اعلان کو مانیں ۔ اس لئے وہ اپنے لوگوں کے لئے چاند کا اعلان خود کرتے ہیں۔اس اٹھا پٹک میںشہر پٹنہ کے اندر چار ادارے ہیں جو چاند کا اعلان کرتے ہیں اور ان میں آپس میں کوئی اتفاق و ہم آہنگی نہیں ہے۔یہ ایک دوسرے کے ویسے ہی مخالف ہیں جیسے سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ہوتی ہیں۔چنانچہ انتیس کی شام میں ایک ادارے کا اعلان ہوتا ہے کہ چاند دیکھ لیا گیا کل عید کی نماز ادا کی جائے گی۔اسی کے ساتھ دوسرے ادارے کا اعلان ہوتا ہے کہ چاند نہیںدیکھا گیا کل روزہ رکھا جائے گا۔عوام میں اس کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے مار پیٹ ہوتی ہے۔ایک سال پٹنہ کے سبزی باغ میں چاند کا اعلان کرنے والے کو ان لوگوں نے مارنے کو دوڑایا جنہوں نے اس چاند کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ رانچی میں مسلمانوں کے دو گروہوں میں فساد ہوتے ہوتے بچا۔ مگر ان ادارے کے چودھریوں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، ان کو صرف اپنی زمینداری کی فکر ہے۔یہ لوگ چاند کے اعلان کو شرعی اعتبار سے حل کرنے کی جگہ اپنی پہچان، چودھراہٹ، انااور ضد کا مسئلہ بنا کر امت کو مصیبت میںڈالے ہوئے ہیں۔جب ان کے چاند کے اعلان کو دوسرے لوگ غلط ثابت کرتے ہیں تو ان کا کوئی نمائندہ اخبار میں مضمون شائع کرتا ہے کہ پورا ملک مطلع واحد یعنی ایک مطلع ہے۔یہ وہی بات ہے جس کا ذکر میں نے اوپر دہلی کے جلسے کے تعلق سے کیا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پورا ملک مطلع واحد ہے یہ کس کا فیصلہ ہے اور کیا پورے ملک میں بسنے والی مسلم ملت کی تمام جماعتوں نے اس کو تسلیم کر لیا ہے ؟
چاند کے اعلان کا یہ اختلاف نادان مسلمانوں کے آپس میں اتحاد و یک جہتی کے جھوٹے دعوے کی پول کھول دیتا ہے اور سارا ملک اس دھینگا مشتی کا تماشہ دیکھتا ہے۔اس فرقہ بندی اور گروہی جنو ن کے ہوتے ہوئے جب کوئی چودھری مسلمانوں کے متحد ہونے کی بات کرتا ہے تو اہل عقل و ہوش سوچتے ہیں کہ یہ خود بے وقوف ہے یا دوسروں کو بے وقوف بنا رہا ہے۔کیا اہل وطن نہیں جانتے ہیں کہ چاند کے اعلان کے معاملے میں مسلمانوں کے اندر کوئی اتحاد و یک جہتی نہیں ہے۔دو یا تین بار سماج کے چند ہوش مندلوگوں نے،جو ملت کے دینی قائد نہیںہیں، چاند کا اعلان کرنے والوں کو یکجا کرکے اتفاق رائے سے چاند کا اعلان کرنے پر آمادہ کیا۔لیکن جس سال یہ انتظام نہیں کیاجاسکا اس سال پھر وہی افتراق و اختلاف سامنے آ گیا۔پٹنہ کے ایک معروف صحافی نے بھی اس کی کوشش کی، لیکن ان کو جن تجربات کا سامنا ہوا اس کی وجہ سے وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ ایک طرف ان کا یہ جبہ و دستار اوردوسری طرف ان کا یہ رویہ اور طرز عمل، دونوں میں کوئی مطابقت ہے ہی نہیں۔مجھ سے جب انہوں نے اپنے احساسات کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ آپ کو آج یہ معلوم ہوا میں اس صورت حال سے گزشتہ چالیس سالوں سے واقف ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکلنے والا نہیں ہے۔فارسی میں کہا گیا ہے:جب ایسے ہی مکتب اور ایسے ہی ملا رہیں گے تو بچوں کا کام تمام ہونا ہی ہے۔

ضضضضض

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *