پونے کا انیس کلاسیز این ڈی اے کی تیاری کے لئے بہترین ادارہ ہے

۷ برانچ پر مشتمل مذکورہ انسٹی ٹیوٹ سے سیکڑوں فارغین فوج کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں
پونے: (معیشت نیوز) جلگائوں کے رہنے والے ۱۸سالہ امن پٹیل نے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کے لئے منعقدہ ٹیسٹ کوالیفائی کرلیا ہے۔جولائی میں باقاعدہ سلیکشن کے بعد جہاں وہ این ڈی اے کا ممبر بن جائے گا وہیں اس کے لئےفوج میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے دروازے بھی کھل جائیںگے ۔دراصل جلگائوں سے پونہ آنے کے بعد جب اس نے این ڈی اے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تو لوگوں نے اسے انیس کلاسیز کا پتہ بتایا جہاں کی پڑھائی کے بعد این ڈی اے میں شمولیت کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔ امن پٹیل معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’میرے والد انمول پٹیل پولس ڈپارٹمنٹ میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں ۔والد صاحب کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ہی مجھے ڈیفنس اکیڈمی میں داخل ہونے کی خواہش پیدا ہوئی اور میں تعلیم کی غرض سے پونہ آگیا ۔چونکہ ۱۲ویں کی تعلیم کے بعد میں نے بی اے میں داخلہ لے لیا تھا اور فی الحال سال اول کا طالب علم بھی ہوں لیکن این ڈی اے میں شامل ہونے کی خواہش مجھے ہمیشہ مہمیز دیتی رہتی تھی لہذا میں نے این ڈی اے کا ٹیسٹ دیا لیکن اسے کوالیفائی نہیں کرپایا پھر کسی نے مجھے انیس کلاسیز کا پتہ بتا یا۔ لہذا جب میں نے یہاں رہ کر تیاری شروع کی تو امسال آل انڈیا رینکنگ میں ۳۰۰مقام پر آیا ہوں۔‘‘دو جڑواں بھائیوں میں چھوٹے امن پٹیل امتحانات کی تیاری کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’’این ڈی اے میں شمولیت کے لئے فزکس ،کیمسٹری ،بائیولوجی کے ساتھ میتھ میٹکس کی پڑھائی انتہائی ضروری ہے۔چونکہ امتحان میں جہاں دو پیپر ہوتے ہیں جس میں پہلا ۳۰۰مارکس کا میتھ میٹکس اور دوسرا۶۰۰مارکس کا فزکس ،کیمسٹری،بائیولوجی،جنرل نالج،تاریخ وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ان دونوں پیپر میں کامیابی کے بعد ایس ایس بی انٹرویو الہ آباد میں ہوتا ہے جو پانچ دنوں تک چلتا ہے۔اس پورے پروسیس میں کامیابی کے بعد ہی آدمی این ڈی اے کےلئے منتخب ہوتا ہے۔

‘‘امن پٹیل کہتے ہیں ’’میں مشکور ہوں انیس کلاسیز کا جنہوں نے میری تیاری کروائی اور اس امتحان میں کامیابی کے لئے رہنمائی کی‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انیس کلاسیز کے سربراہ انیس کُٹّی نے ۱۹۸۸میں انیس کلاسیز کا آغاز کیا تھا۔ ابتداء میں وہ آٹھویں سے بارہویں تک کے بچوں کو میتھ میٹکس کی تعلی دیا کرتے تھے۔لیکن دھیرے دھیرے انہوں نے این ڈی اے کی تیاری کروانا شروع کردیا جہاں سے ۵۵۰سے زائد بچے این ڈی اےمیں شمولیت اختیار کرکے ایئر فورس ،آرمی ،نیوی میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں ‘‘۔ انیس کٹی معیشت سے کہتے ہیں ’’الحمد للہ میں تقریبا ً ۳۰ برسوں سے اس فیلڈ میں ہوں اور سیکڑوں طلبہ کو ٹرینڈ کر چکا ہوں لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم بچوں کی جتنی اکثریت یہاں آنی چاہئے اتنی تعداد میں مسلم بچے نہیں آتے۔البتہ بعض غریب بچے ضرور آتے ہیں جو اپنی فیس تک ادا نہیں کرپاتے ایسے میں اگر اہل خیر حضرات آگے آئیں اور ان بچوں کی مالی مدد کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ مسلم بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘انیس کٹی کہتے ہیں ’’زکوۃ و صدقات کی رقم لوگ یونہی کہیں دے کر گلو خلاصی حاصل کر لیتے ہیں اگر اسی رقم کو تعلیم کے کاموں میں دیا جائے اور ان غریب بچوں کو دیا جائے جو این ڈی اے میں شامل ہوکر اعلیٰ افسر بننا چاہتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑا دینی فریضہ انجام پائے گا۔رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوا چاہتا ہے ایسے میں لوگ جہاں اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہوں وہیں قوم و ملت کی بھلائی کے لئے دعا بھی کریں لیکن دعا کے ساتھ عملی اقدام انتہائی ضروری ہے ۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ ہم اپنے بچوں کو یونہی چھوڑ دیں اور چھوٹے موٹے کاموں میں الجھا دیں ۔اب تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور اپنا مستقبل بنائیں لیکن ان کے مستقبل میں ہمارا رول بھی انتہائی ضروری ہے۔کیونکہ تعلیم انسان کے لئے بہت ضروری ہے ، اس سے بچوں کی صحیح تربیت اور رہنمائی ملتی ہے ۔جبکہ طلبا کو دوران تعلیم اپنی تمام توجہ کلاسیز پر مرکوز کرنی چاہئے ۔ کیونکہ اگر طلبا نے کلاس کے دوران اپنے اساتذہ اور کتابوں سے استفادہ نہیں کیا تو پھر ان کو آگے ہر موڑ پر دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن جن بچوں نے کلاس میں اپنے اساتذہ سے استفادہ کیاہے ، ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی‘‘۔انیس کٹی مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’’امسال ۸ بچے این ڈی اے کے لئے منتخب ہوئے ہیں غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں نےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک کو آزاد کرایا چونکہ جنگ میں وہ لوگ شریک تھے جو فوج میں شامل تھے آج کل آئی اے ایس ،آئی پی ایس بننے کے لئے لوگ محنت تو کر رہے ہیں لیکن فوج میں افسر بننے کے لئے کوششیں نہیں کی جارہی ہیں ۔ہمارے یہاں سے فارغ ہونے والے ایسان شیخ یا اظہر الدین آج فوج میں بہتر مقام پر ہیں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اس تعداد میں اضافہ ہو۔اور اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب لوگ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیں گے۔غریب بچوں کی مالی مدد کریں گے اور انہیں آگے بڑھنے کے لئے تعلیم دلوائیں گے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ انیس کلاسیز میں میتھ میٹکس جس انداز میں پڑھایا جاتا ہے وہ نہ صرف طلبہ کے ذہنوں میں اتر جاتا ہے بلکہ وہ کسی بھی طرح کی ریاضی کو حل کرنے کی مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔