Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اعتکاف فرض کفایہ عبادت ہے

by | May 29, 2019

ابو نصر فاروق

ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق

’’………اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو ، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ ا س طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لئے بہ صراحت بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ غلط روی سے بچیں گے۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۷)
شریعت نے اہل ایمان پر جو عبادتیں فرض کی ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک کو فرض عین کہتے ہیں یعنی یہ عبادت ہر آدمی پر فرض ہے جیسے نماز، روزہ اور علم حاصل کرنا۔دوسرے کو فرض کفایہ کہتے ہیں یعنی کسی خاندان یا کسی بستی کے اہل ایمان میں سے ایک دو آدمی بھی یہ عبادت کر لیں تو سارے خاندان یا بستی والوں کی طرف سے یہ فرض ادا ہو جائے گا۔جیسے جنازے کی نماز میںخاندان کا ایک آدمی بھی شریک ہو جائے تو پورے خاندان کی طر ف سے یہ فرض ادا ہو جائے گا۔اسی طرح اعتکاف اگر پوری بستی، محلہ، کالونی کا ایک آدمی بھی کر لے تو سب لوگوں کی طرف سے یہ فرض ادا ہو جائے گا۔
اس کی حکمت یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں ذاتی عبادت کے مقابلے خاندانی، سماجی اور معاشی ذمہ داریوں کو فرض جانتے ہوئے ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا زیادہ بڑی عبادت ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو عبادت کے نام پر اجتماعی فرائض سے الگ کرنے یا کوتاہی کرنے کو پسند نہیں کرتا ہے۔جنازے کی نماز میں وہ لوگ شرکت نہیں کر سکتے ہیں جو ملازمت کرتے ہیں یا دکانداری کرتے ہیں یا ان کے اپنے مقام پر موجود نہیں رہنے سے بڑے نقصان کے ہونے کا اندیشہ ہے۔اس لئے خاندان کا ایک آدمی جو اپنا وقت آسانی سے فارغ کر سکتا ہے وہ اس میں شریک ہوگا۔اسی طرح اعتکاف میں دس دن تک اس طرح شریک ہونا ہے کہ اعتکاف کرنے والا دنیا سے بالکل کٹ کر الگ ہو جائے گا۔اعتکاف کے دوران وہ کسی سے بلا ضرورت بات بھی نہیں کر سکتا ہے۔اعتکاف ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے معتکف سے صرف بیت الخلا جانے ،وضو کرنے یا غسل کرنے کے لئے نکلے گا۔جمعہ کی نماز کے لئے بھی وہ اپنے معتکف سے نہیں نکلے گا۔ اسی لئے اعتکاف جامع مسجد میں کرنے کا حکم عام مسجد میں نہیں۔اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں بندے کو دنیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر کے اللہ سے لو لگانا ہوتا ہے اور ہر لمحہ اس کی حمد و تسبیح کرنی ہوتی ہے۔اس مضمون کی تائید درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔
’’حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے اعتکاف کے معاملے میں سنت یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے، نہ عورت کو ہاتھ لگائے،اور نہ اس کے ساتھ جسم کو مس کرے، نہ کسی حاجت کے لئے مسجد سے نکلے،بجز اس حالت کے لئے کہ جس میں مسجد سے نکلنے کے سوا چارہ نہ ہو۔اور کوئی اعتکاف نہیں ہے بغیر روزے کے اور کوئی اعتکاف نہیں ہے مگر جامع مسجد میں۔‘‘ (ابوداؤد)
’’ابوہریرہؓ کہتے ہیں،رسول اللہﷺ ہر سال دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی اس میں رسول اللہﷺنے بیس دن اعتکاف فرمایا۔‘‘ (بخاری)’’حضرت انسؓ کا بیان ہے نبیﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں ہمیشہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے، مگر ایک سال نبیﷺنے اعتکاف نہیں فرمایا۔ جب دوسرا سال آیا تو نبیﷺنے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔‘‘ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
ان دونوں حدیثوں میں کہا جارہا ہے کہ رسول اللہﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے۔ایک سال اعتکاف نہیں کیا تو حیات پاک کے آخری سال بیس دن اعتکاف کیا۔رسول اللہﷺ کا یہ عمل بتاتا ہے کہ اعتکاف فرض عبادت ہے، کیونکہ شریعت میں قضا صرف فرض عبادتوں کی ہے واجب، سنت مؤکدہ یا سنت اور نفل کی قضا نہیں ہے۔اہل علم کا بیا ہے کہ اعتکاف فرض کفایہ ہے۔رسول اللہﷺ ہر سال پابندی سے اعتکاف کیا کرتے تھے۔ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف نہیں کیا تو دوسرے سال بیس دن کا اعتکاف کر کے اس کمی کو پورا کر دیا۔
’’حضرت عبد اللہ ؓابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا: اعتکاف کرنے والا چونکہ (اعتکاف میں)گناہوں سے رکا رہتا ہے اس لئے اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جن تمام نیکیوں پروہ عمل پیرا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ)
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ اعتکاف کی حالت میںجو آدمی اپنی خاندانی، سماجی اور معاشی عبادات سے الگ رہا اس کے حق میں وہ ساری نیکیاں لکھی جاتی رہتی ہیں۔ نیکی کا کام صرف نماز پڑھنا ہی نہیں ہے،بلکہ حلال روزی کمانا بھی فرض عبادت ہے۔ اہل خانہ کی دینی تربیت کرنا بھی فرض عبادت ہے۔ رشتہ داروں کی خبر گیری کرنا بھی فرض عبادت ہے۔پڑوسی کی خدمت کرنابھی فرض عبادت ہے۔حاجت مند بندگان خدا کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ کرنا بھی فرض عبادت ہے۔نماز جنازہ میں شرکت کرنا بھی فرض عبادت ہے۔اعتکاف کی حالت میں آدمی ان سب کاموں سے الگ ہو جاتا ہے اور یہ سارے فرائض ادا نہیں کر پاتا ہے۔اس حدیث میں بتایا جارہا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں چونکہ وہ تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے اس لئے بغیر عمل کئے ہوئے ہی اس کے نامہ اعمال میں ان سارے فرائض کو ادا کرنے کی نیکی لکھی جاتی رہتی ہے۔رحمت کا مہینہ،رحمان و رحیم رب العالمین،رحمۃ للعالمین نبی، گویا رحمت ہی رحمت ہے۔
اعتکاف ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے پھر بھی ہر آدمی اس عبادت کو نہیں کر سکتا ہے۔جو لوگ ملازمت کرتے ہیں ضروری نہیں کہ ان کو دس دن کی رخصت مل جائے۔جو ناداار لوگ ہیں وہ عید آنے سے پہلے اپنے بچوںکے لئے عیدکے نئے کپڑے بنانے اور عید کی تیاریوں میں آخری عشرے میں زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔دکاندار جن کی دکانداری آخری عشرے میں زیادہ ہوتی ہے وہ بھی اعتکاف نہیں کر سکتے ہیں۔جو لوگ عبادات سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں وہ بھی اس عمل خیر کو نہیں کر سکتے ہیں۔جس گھر میں مریض ہواس کے تیمار دار بھی اعتکاف نہیں کر سکتے ہیں۔ جن کے گھر میں باہر کا کام کرنے والا ایک مرد کے سوا کوئی اور نہ ہو وہ بھی اعتکاف نہیں کر سکتا ہے۔تب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعتکاف کرے گا کون ؟
جوآدمی نوکری سے ریٹائر کر چکا ہو، ضعیف ہونے کی وجہ سے اس پر گھریلو ذمہ داریاں بھی نہیں ہوں،وہ سماجی کاموں میں بھی حصہ نہیں لیتا ہو،بلکہ گھر میں بیٹھا رہتا ہو، ایسے آدمی کو اعتکاف کرنا چاہئے۔
کسی ایسے مقام پر جہاں مسلمان روزہ داروں کی آبادی بھی ہو، جامع مسجد بھی ہو لیکن کسی کے پاس اعتکاف کرنے کا موقع نہ ہوتو وہاں کیا کیا جائے ؟ اس کا حل میرے نزدیک یہ ہے کہ ایسا نیک نمازی مسلمان جو محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کرتا ہو ،بستی یا محلے والے اُس سے کہیں کہ میرے بھائی تم اعتکاف میں بیٹھ جاؤ۔دس دن میں تمہاری جتنی آمدنی ہوگی وہ ہم سب مل کر ادا کئے دیتے ہیں اور تمہارے گھر کی خبر گیری کی ذمہ داری بھی ہم لوگ اپنے ذمے لئے لیتے ہیں۔اور ان شرطوں پر وہ مرد خدا اعتکاف کرنے کے لئے آمادہ ہو جائے تو یہ ایسا اعتکا ف ہوگا جس میں پوری آبادی شریک ہو جائے گی اور اعتکاف کا فرض بھی ادا ہو جائے گا۔لیکن ایسا اسی محلے بستی میں ہو سکتا ہے جہاں دین و شریعت کا علم رکھنے والے،فرائض کے ادا کرنے کا شعور و فکر رکھنے والے افراد موجود ہوں۔جہاں دین و شریعت سے ناواقف اور غافل لوگ رہتے ہوں جو روزے میں تقویٰ پیدا کرنا نہیں چاہتے، پورے رمضان میں تراویح پڑھنے کے روادار نہیں ہوتے، رمضان میں فسق و فجور سے کنارہ کشی نہیں کرتے ایسے لوگ یہ اجتماعی نیک عمل نہیں کر سکتے ہیں۔اور تجربہ و مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ہر محلہ، بستی،کالونی، اپارٹمنٹ میں اسی طرح کے لوگوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔
بہر حال کون کیا کرے گا اور کیا نہیں کرے گا یہ اس کا معاملہ ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ دین وشریعت کی باتیں لوگوں کو بتاتے اور سمجھاتے رہیں، کیونکہ اللہ رب العزت نے ہمیں اس لائق بنایا ہے۔اس کی خاص رحمت کا شکر ادا کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کے بندوں کو اس کی طرف بلایا جائے۔یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ رمضان میں صرف روزہ رکھ لینے سے روزوں کا ثواب نہیں ملے گا بلکہ روزے، تراویح، شب قدر، زکوٰۃ، اعتکاف، صدقہ فطر جیسی عبادتوں کا ایک مکمل سیٹ ہے جس میں سے ایک بھی چھوٹے گا تو رمضان کے فرائض ادا نہیں ہوں گے۔
توبہ و استغفار:
جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو سب سے بڑی عبادت توبہ اور استغفار کرنا ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘(۸)
خالص توبہ کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے بندہ خود کوگناہگارمانے۔جو آدمی خود کو گناہگار سمجھتا ہی نہیں وہ گناہوں سے توبہ کیسے کرے گا۔اس دور کا ہر آدمی یہی سمجھتا ہے کہ وہ کہاں کوئی گناہ کر رہا ہے۔بے نمازی کہتے ہیں کہ وہ کون سا گناہ کر رہے ہیں جس کی بخشائش کے لئے نماز پڑھیں۔ناسمجھ کو نہیں معلوم کہ نماز نہیں پڑھنا صرف بدترین گناہ ہی نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر نماز ترک کرنے سے وہ ایمان والا نہیں رہتا ہے کافر بن جاتا ہے۔ وہ مرے گا تو جہنم میں جائے گا۔
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم کے سارے بیٹے خطا کار ہیں اور ان میں سب سے اچھے وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیں۔(ترمذی، ابن ماجہ،دارمی)
اس حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیجئے کہ خود کو بے گناہ کہنے والا سچ کہہ رہا ہے یا نبی ﷺسچ فرما رہے ہیں۔
’’حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا:اللہ بندوں کی توبہ سانس اکھڑنے تک قبول کرتا ہے۔‘‘(ترمذی)
اس حدیث کی روشنی میں آدمی کوگناہوں سے توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ نہیں معلوم کب موت کا فرشتہ روح قبض کر لے گا اور توبہ کا موقع نہیں ملے گا۔
گناہوں سے توبہ کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ آدمی جانتا ہو کہ اس میں کیا کیا خرابیاں ہیں اور وہ کس کس قسم کے گناہ کر رہا ہے۔جب وہ ان سارے گناہوں سے توبہ کرنے کے لئے آمادہ ہوگا تب اس کی توبہ سچی توبہ سمجھی جائے گی۔توبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے عہد اور وعدہ کرے کہ اب آئندہ وہ یہ گناہ نہیں کرے گا۔اور اپنے اس عہد پر قائم رہتے ہوئے ہر طرح سے گناہوں سے بچنے کی جدو جہد کرے۔پھر بھی اس سے گناہ ہو ہی جائے گا۔ گناہ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ جو گناہ انجانے میں ہو جاتے ہیں وہ نماز پڑھنے سے معاف ہو جاتے ہیں۔اور جو گناہ انسان انجانے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر کسی مقصد کے تحت کرتا ہے اس کے لئے ویسے ہی اللہ سے معافی مانگنی ہوگی جیسے اوپر بتایا گیا۔تب اللہ تعالیٰ آدمی کے ہر طرح کے گناہ معاف کر دے گا۔کسی انسان کے گناہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں ہوتا ہے، اس لئے انسان کے گناہ کرنے پر اللہ تعالیٰ اس سے رشتہ نہیں توڑتا ہے ۔اللہ کو معلوم ہے کہ بندہ گناہ کرے ہی گا، وہ اس سے بچ نہیں سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہے بندہ ہمیشہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہے اوراپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے۔استغفار کرنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی عبادت ہے۔اس حدیث کو پڑھئے: ’’حضرت اغر مزنی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا لوگو اللہ سے توبہ کرومیں اللہ تعالیٰ سے دن میں سو سو مرتبہ مغفرت طلب کرتاہوں۔‘‘(مسلم)رسول اللہﷺتو کوئی گناہنہیں کرتے تھے پھر وہ استغفار یعنی اللہ سے اس قدر معافی کیوں مانگتے تھے؟ اس لئے کہ استغفار کرنا خود ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔شب قدر کی جو دعا سکھائی گئی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:’’اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے،معاف کرنے کو پسند کرتا ہے،مجھے معاف کر دے۔‘‘
جو بندہ اللہ سے سچے د ل سے خلوص کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگتا اور گناہوں سے بچنے کی جدوجہد نہیں کرتا ہے وہ اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں ہے۔اس کی کوئی دعا یا عبادت اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا اور اس پر رحمت کا سایہ نہیں کرے گا۔ایسے آدمی کے رمضان کے روزے ، تراویح کی نمازیں اور شب قدر کی عبادت سب رائگاں اور برباد ہو جائے گی۔
ہم نے تو اپنا فرض اد کر دیا جناب
اور یہ دعا ہے آپ کو توفیق بھی ملے

ضضضضض

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...