صدقۂ فطر کے احکام

ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514
(۱) حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع صدقہ فطر ہر غلام اورآزاد، مرد اور عورت اور چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔(بخاری، مسلم،ابوداؤد،نسائی،ترمذی،ابن ماجہ ، احمد)
(۲) حضرت عبد اللہ ؓابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر فرض فرمایا تاکہ روزہ دار فضول اور نازیبا باتوں سے پاک ہو جائے اور مسکینوں کو (کم از کم عید کے دن خوب اچھی طرح)کھانا میسر آ جائے۔جس نے اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کیا تو وہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے۔ اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تووہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دار قطنی)
(۳) صدقہ فطر کو زکوٰۃ فطر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے پورے ہونے کے بعد دیاجاتا ہے۔اس کا حکم ۲؍ہجری میںعید سے دو روز پہلے دیا گیا تھا۔ (المغنی)
(۴) صاع ایک پیمانہ تھا جس میں چار مُد ہوتے تھے۔ صاع دو طرح کا ہوتا تھا۔ ایک حجازی اور دوسرا عراقی۔حجازی صاع کا وزن ساڑھے پانچ رطل اورعراقی صاع کا وزن ۸ رطل ہوتا تھا۔ایک رطل کا وزن ہمارے ہاں کے حساب سے تقریباً آدھا سیر ہے۔ حجازی صاع کا وزن ہمارے ہاں کے حساب سے تقریباً پونے تین سیر اور عراقی صاع کا وزن تقریباً چار سیر ہوا۔
(۵) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض فرمایا۔پھر صحابہ نے نصف صاع کو اختیار کر لیا۔ (بخاری،مسلم)
(۶) حضرت ابن عمرؓ سے دوسری روایت ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میں لوگ جو، کھجور،کشمش یا پنیرکا ایک صاع صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب گندم کی فراوانی ہو گئی توان چیزوں کی جگہ گندم کانصف صاع صدقہ فطر دیا جانے لگا۔ (ابودا ؤد )
(۷) حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میںہم کھانے یا کھجور یا جو یا کشمش یا پنیر کا ایک صاع(فی کس) بطور صدقہ دیا کرتے تھے۔یہی حال رہا یہاں تک کہ معاویہؓ (جب خلیفہ تھے)ہمارے پاس مدینہ آئے اور انہوں نے کہا،میری رائے ہے کہ شام کے گندم کے دو مُد(نصف صاع) کھجورکے ایک صاع کے برابر ہو سکتے ہیں۔ صحابہ نے اس رائے کو اختیار کر لیا۔ (بخاری مسلم، ابوداؤد، نسائی،ترمذی،ابن ماجہ ، احمد )
اوپر ترتیب وارجو احادیث نقل کی گئی ہیں ان سے ہمیں درج ذیل معلومات حاصل ہوتی ہیں:
(۱) عربی میں فطر کہتے ہیں کسی چیز کے پھٹ جانے یا کھل جانے کو۔روزہ رکھنے کی جوپابندی لگی ہوئی تھی اور لوگ اس حلقہ میں بند تھے وہ کھل گئی اور اب لوگ روزہ کی پابندی سے آزاد ہو گئے۔اسی لئے رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اسے عید الفطر کہتے ہیں۔ روزہ دار جب مغرب کی اذان سن کرکھانا شروع کرتے ہوئے اپنا روزہ ختم کرتا ہے تو اس کو افطار کہتے ہیں۔ چونکہ یہ صدقہ رمضان کے ختم ہونے پر عید سے دو دن پہلے دینے کا حکم ہے اسی لئے اس کا نام صدقہ فطر ہوگیا۔
(۲) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر کو عام صدقہ کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے ۔چنانچہ اس کی فضیلت کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ صدقہ عید کی نماز سے قبل ادا کیا جائے۔اگر عید کی نماز کے بعد ادا کیا گیا تو یہ صدقہ فطر نہیں بلکہ عام صدقہ بن جائے گا اور صدقہ فطر ادا کرنے کے حکم پر عمل نہیں ہو پائے گا۔
(۳) تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطرامیر،غریب، مرد، عورت اور بچے سب پر واجب ہے۔ یعنی سب کی طرف سے جوڑ کر صدقہ فطر دیا جائے گا۔
(۴) چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ روزے کی حالت میں روزہ دار سے جو فضول اور نازیبا باتیں سرزد ہو جاتی ہیں ان سے روزے کو پاک کرنے کا یہ ایک ذریعہ ہے۔صدقہ فطر ادا کر کے روزے کو ہر طرح کے میل کچیل سے پاک صاف کر لیاجاتا ہے۔اس لحاظ سے بھی صدقہ فطر کا عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ضروری ہے۔
(۵) پانچویں بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر اداکرنے کی غرض یہ ہے کہ عید کے دن کسی مسلمان کے گھر میں فاقہ نہ ہو۔ ہر مسلمان کو عمدہ کھانا میسر آ جائے۔اس لحاظ سے صدقہ فطر کاعید کے دو دن پہلے ہی دیاجانا مناسب ہے۔اگر رمضان کے شروع میں یا عید سے ہفتہ دن قبل دے دیاگیا تو وہ رقم دوسری ضرورتوں میں خرچ ہو جائے گی اور عید کے دن کی مجبوری باقی رہ جائے گی۔
(۶) چھٹی بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ فطر میںہر مسلمان کو اپنی طرف سے ایک صاع کھجور یا جو دینا ہے۔عرب چونکہ ان چیزوں کی کاشت کرتے تھے اس لئے وہ یہ دیتے تھے۔ اب اس کی قیمت صدقہ فطر کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔اور ایسا کرنا زیادہ صحیح اور درست ہے۔
(۷) ساتویں بات یہ معلوم ہوئی کہ صاع دوطرح کا ہوتا تھا۔حجازی صاع چھوٹا تھا اور عراقی صاع بڑا تھا۔امام مالکؒ کے فتویٰ کی پیروی کرنے والے حجازی صاع کے مطابق صدقہ فطر دیتے ہیں۔ اور امام ابو حنیفہؒ کے فتویٰ پر عمل کرنے والے عراقی صاع کے مطابق صدقہ فطر دیتے ہیں۔
(۸) آٹھویں بات یہ معلوم ہوئی کہ صاع یعنی پیمانے میں کھجور کے مقابلے میں گیہوں زیادہ مقدار میں آ جاتا تھا اس لئے صدقہ فطر ادا کرنے میں گیہوں کے نصف صاع کو پورا صاع سمجھا گیا۔امیر معاویہؓ کی رائے پر صحابہ کا اجماع ہو گیا ۔اجماع شریعت کا حصہ ہے اس لئے امت صدقہ فطر میں نصف صاع گیہوں کی قیمت ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔
(۹) نویں بات یہ سمجھنی چاہئے کہ اب چونکہ سیر کا چلن نہیں رہا اس لئے سیر کی جگہ کیلو مان کرہر مسلم کو دو کیلو گیہوں یعنی نصف صاع کی قیمت فی کس صدقہ فطر ادا کرنی چاہئے۔جو لوگ گیہوں خرید نے کی جگہ براہ راست پسا ہوا آٹا خرید کر کھاتے ہیں انہیں دو کیلوآٹے کی قیمت صدقہ فطر میں دینی چاہئے۔
جو لوگ نصف صاع صدقہ فطر دینے کو غلط کہتے ہیںوہ خودناسمجھی اور کم علمی کے شکار ہیں۔جب مدینہ میں صحابہ کا اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ گیہوں کا نصف صاع کھجور کے پورے صاع کے برابر ہے اوروہ اس پر عمل کرنے لگے تو اس عمل کو غلط کہنا صحابہ پر غلطی کرنے اور گمراہ ہونے کا الزام عائد کرنا ہے۔یہ بات ایک گمراہ کن اور باطل نظریہ ہے۔دوسرے یہ کہ جب اس روایت کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں نقل کر دیا تو اس کی صحت میں شک کرنا کم علمی ، ناسمجھی اور گمراہی کی دلیل ہے۔
صدقہ فطر دینے کا مقصد مسکین کی مدد کرنا ہے۔اس لئے جو لوگ صاحب حیثیت ہیں انہیں صحابہ کی مخالفت میں نہیں بلکہ زیادہ نیکی کرنے کی غرض سے پورا صاع یعنی چار کیلو آٹے کی قیمت دینی چاہئے۔اور جو لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہیں انہیں نصف صاع یعنی دو کیلو آٹے کی قیمت صدقہ فطر میں دینے کی آزادی ہے۔جو آدمی جس قیمت کا آٹا کھاتا ہے اسی لحاظ سے دو کیلو یا چار کیلو آٹے کی قیمت صدقہ فطر ادا کرے۔
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ ،صدقہ فطرکا کیا اعلان ہوا ؟ کتنا صدقہ فطر دینا ہے ؟ الگ الگ ادارے والے صدقہ فطر کی رقم الگ الگ بتاتے ہیں۔لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ صدقہ فطر کی رقم کا اعلان کرنے میں اختلاف کیوں کیاجاتا ہے۔دراصل مسئلے کی کتابوں میں ایک صاع کا وزن ایک سیر تیرہ چھٹانک لکھا ہوا ہے۔ایک سیر تیرہ چھٹانک کی قیمت کوئی کچھ نکالتا ہے کوئی کچھ۔ اس کی وجہ سے رقم کا فرق ہوتا ہے۔دوسری بات یہ کہ حجازی صاع اور عراقی صاع کا پیمانہ چھوٹا بڑا ہے اس کی وجہ سے بھی رقم طے کرنے میں فرق ہوتا ہے۔جس طرح نماز پڑھنے والے جب نماز کے مسائل جان لیتے ہیں تو پھر ان کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے اسی طرح لوگ اگر صدقہ فطر کے اصول کو جان لیں ، جو اوپر بیان کر دیے گئے،تو پوچھنے کی جگہ وہ خود اس کی رقم طے کر کے ادا کر دیں گے۔جہاں عام مسلمان شریعت کا علم حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہیں مسائل کے جاننے والے عوام میں شریعت کی تعلیم کو عام کرنے کے رواداربھی نہیں ہیں۔ جانور اور پرندے کو ذبح کرنے کے لئے بسم اللہ پڑھنے کی تعلیم دینے کی جگہ چھری پھونک کر یہ عمل کرنے کی تعلیم دینے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے اس پر بعض ادارے آج تک امت سے عمل کرا رہے ہیں۔جو لوگ میرے اس مضمون کو سمجھ کر پڑھ لیں گے ان کو پھونکی ہوئی چھری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
آسان بات یہ ہے کہ دو سیر یا چار سیر آٹے کی قیمت صدقہ فطر کے طور پر ادا کرنی ہے۔آپ جس قیمت کا آٹا کھاتے ہیں اسی لحاظ سے دو سیر یا چار سیر آٹے کی قیمت ایک آدمی کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیا کریں۔یہ بات کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امید ہے کہ میری اس محنت کے بعد امت کے سمجھ دار صدقہ فطر کی رقم پوچھنے کی زحمت سے محفوظ ہو جائیں گے اور ہر سال آسانی کے ساتھ خود صدقہ فطر کی رقم محتاج بندگان خدا تک پہنچانے کا فرض اد ا کریں گے۔
آخری اور ضروری بات یہ کہ صدقہ فطر کی رقم کسی ادارے ، مدرسے، یا جماعت کو نہیں دینی چاہئے۔صدقہ فطر دینے والے کا جہاں صدقہ فطر نکالنا اور ادا کرنا ضروری ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے خاندان، رشتہ داراور پڑوس میں مسکین کو تلاش کر کے اس تک صدقہ فطر پہنچائے۔اس زحمت سے بچنے کے لئے صدقہ فطر کسی ادارے کو دینا اس کے مقصد کو فنا کر دینا ہے۔ صدقہ کے حقدار رشتہ دار اور پڑوسی زیادہ ہیں۔ حقداروں کو محروم کر کے دور دراز علاقے میں صدقہ فطر بھیج دینا شریعت کے منشا کے خلاف ہے۔صدقہ فطر کی رقم ایک خاندان کو کم سے کم اتنی ملنی چاہئے کہ اس کے ایک دن کے کھانے کا انتظام ہو جائے۔
ۃضظژظضۃ