
عید خوشی کا دن ہے یا سوگ منانے کا؟
ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514
رمضان کے بعد کالج کھلا تو دینیات کے کلاس میں پروفیسر صاحب نے لڑکو ںسے سوال کیا،کہو لڑکو رمضان کیسا گزرا۔ رمضان کے متعلق کچھ کہو!
احمدنے یہ حدیث سنائی: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔(بخاری /مسلم)
پروفیسر صاحب نے بغل والے لڑکے سے کہا تم کیا کہتے ہو ؟
بہزاد نے یہ حدیث سنائی :رسول اللہﷺنے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میںقیام کیا (یعنی تراویح کی نماز پڑھی)اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔ (بخاری/مسلم)
پروفیسر صاحب نے پرویز سے پوچھا اس حدیث سے کیا معلوم ہوتا ہے ؟
پرویز نے جواب میں یہ حدیث سنائی:حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺنے فرمایا: جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور فریب دینا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیںکہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔(بخاری)
پروفیسر صاحب نے کہا تبریز تم بھی کچھ کہو ؟
تبریز نے یہ حدیث سنائی:حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزوں سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنی ہی راتوں کو عبادت کرنے والے ایسے ہیں جن کو نیندکی محرومی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔ (دارمی )
پروفیسر صاحب بولے ماشاء اللہ تم لوگوں نے رمضان سے متعلق اچھی حدیثیں سنائیں۔سنو اب میں تم کو ان حدیثوں کا مطلب سمجھاتا ہوں۔احمد اور بہزاد نے جو حدیثیں سنائیں ان کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان کی شرطوں کو پورا کرتے ہوئے اور اپنے گناہ و ثواب کا حساب کرتے ہوئے روزے رکھے اور تراویح کی نماز ادا کی ان کے پچھلے ہر طرح کے گناہ معاف ہو گئے۔روزہ دار کے لئے یہ اتنی بڑی خوش نصیبی ہے جو کسی غیر روزہ دار کویا تراویح نہیں پڑھنے والے کو نہیں مل سکتی ہے۔پرویز اورتبریز نے جو حدیثیں سنائیں اس کے مطابق جن لوگوں نے روزے تو رکھے اور تراویح کی نماز بھی پڑھی، لیکن ان کی جھوٹ بولنے کی اورلوگوں کو فریب دینے کی جو عادت تھی وہ انہوں نے نہیں چھوڑی ۔ مثا ل کے طور پر دکاندار نے سودا کم تول کر دیا۔یا اچھے سامان کے ساتھ خراب سامان ملا کر دے دیا۔ملازم نے ایمانداری کے ساتھ اپنے مالک کا کام نہیں کیا۔بیماری کے نام پر چھٹی لی اور دین کے نام پر گھومنے سیر کرنے نکل گئے،تو ان کو روزے اور نماز سے کچھ بھی نہیں ملا۔
پرویز نے ٹکڑا لگایا۔ سر! آج کل مسلمان جھوٹ بولنے کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں اور جھوٹ بولنا اُن کی عادت بن چکا ہے تو وہ کیسے اپنے آپ کو اس سے بچائیں گے۔
تم ٹھیک کہتے ہو پروفیسر صاحب نے پرویز کی بات کی تائید کی۔پھر دوسری بنچ پر بیٹھے لڑکے سے کہا جمیل تم بھی کچھ سناؤ:
جمیل نے یہ حدیث سنائی:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور پھر اُس نے اُس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے روز اُس کا یہی مال ایک ایسے گنجے اژدہے کی صورت میں اُس کے سامنے آئے گا، جس کی آنکھوںکے اورپر دو سیاہ (خوفناک) دھبے ہوں گے۔ پھر وہ اُسے اپنے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا اور اُس سے کہے گا میں ہوں تیرا خزانہ ، میں ہوں تیرا مال۔(مشکوٰۃ)
پروفیسر صاحب بولے ماشاء اللہ تم نے بڑی قیمتی بات بتائی۔قرآن میں تقریباً ستر جگہوں پر نماز اور زکوٰۃ کا حکم ایک ساتھ آیا ہے۔جو آدمی صاحب نصاب ہو اور زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اُس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ اہل ایمان کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ مالدار مسلمانوں میں بہت کم ایسے ہیں جو مکمل حساب کر کے اپنے مال کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔یہ سب بد نصیب لوگ رمضان کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ نہ اُن کو روزے اور نماز کی عبادت کا ثواب ملا اور نہ ہی اُن کے پچھلے گناہ معاف ہوئے۔
پروفیسر صاحب بولے میاں چاند کچھ تم بھی کہو:
چاند نے یہ حدیث سنائی:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔………پھر ایک ایسے آدمی کا حضور ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اُس کا کھانا حرام ہے ، اُس کا پانی حرام ہے، اُس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔( مسلم )
پروفیسر صاحب بولے، بیشک جیسے خراب دودھ سے اچھی مٹھائی نہیں بنائی جا سکتی ہے، اسی طرح حرام مال کے ذریعہ کی گئی عبادت اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا ہے۔آج کل لوگوں میں عمرہ کرنے کا فیشن ہو گیا ہے۔جس کو دیکھئے عمرہ کرنے جا رہا ہے۔لیکن اُس نادان کو نہیں معلوم کہ اگر اُس کے رشتہ داروں کے ساتھ اُس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو وہ جہنم کا حقدار ہے،جس نے جائیداد کے بٹوارے میں دوسرے وارثوں کے ساتھ بے ایمانی کر کے خود زیادہ جائیداد ہڑپ لی ہے وہ بھی جہنم میں جائے گا،جس نے قرض لیا اور جان بوجھ کر ادا نہیں کر رہا ہے وہ بھی جہنم میں جائے گا،جو وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرتا ہے وہ منافق ہے ،وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں رکھا جائے گا، جو شریعت کے احکام کے مطابق زندگی نہیں گزارتا ہے اس کو قرآن میں کافر کہا گیا ہے وہ بھی جہنم میں جائے گا،بھلا ایسے لوگوں کا عمرہ اور صدقہ کیسے قبول ہوگا اور اُن کو اُن کی عبادتوں کا اجر کیسے ملا گا ؟
پروفیسر صاحب کے خاموش ہوتے ہی حامد نے سورۂ القدر کا ترجمہ سنایا:
(۷) بیشک ہم نے اس(قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ کیا ہے شب قدر ؟ شب قدر (خیر و برکت میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے دنیا کے کام کے انتظام کے لئے اترتے ہیں۔ سلامتی ہے وہ رات طلوع صبح تک۔(سورہ ٔالقدر)
پروفیسر صاحب بولے بہت خوب ، تم نے بر محل یہ سورہ سنائی۔اس میں کہا گیا ہے کہ اس رمضان سے آنے والے رمضان تک جس آدمی کے ساتھ دنیا میں جو کچھ ہونا ہے وہ آسمان والے فرشتے اللہ کے حکم سے زمین والے فرشتوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ان سارے فیصلوں میں یہ فیصلہ بھی ہوتاہے کہ کون آدمی اگلے رمضان تک زندہ رہے گا اور کس کو رمضان سے پہلے موت آ جائے گی۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس نے اس رمضان میں اپنے سارے گناہ معاف نہیں کرائے اور آنے والے رمضان سے پہلے اُس کو موت آ گئی تو وہ اپنے تمام گناہوں کے ساتھ اللہ کے پاس پہنچا اور جہنم کا حقدار بن گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
خالد بھی اٹھا اوراُس نے سورۂ ق ٓ کی آیتوں کا ترجمہ پڑھا۔کہا پروفیسر صاحب، امام صاحب رمضان میں جمع کی نماز میں یہ آیتیں اکثر پڑھا کرتے ہیں، ان کا کیا مطلب ہوا ؟
(۸) پھر دیکھو وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی۔ یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔(۱۹)اورپھر صور پھونکا گیا، یہ وہ دن ہے جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔(۲۰)ہر آدمی اس حال میں آ گیا کہ اُسے ایک ہانک کر لانے والا اور ایک گواہی دینے والا ہے۔ (۲۱) اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا۔ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جوتیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔(۲۲) اُس کے ساتھی نے عرض کیا، یہ جو میری سپردگی میں تھا حاضرہے۔(۲۳)حکم دیا گیا پھینک دو جہنم میں ہر کٹے کافر کو،(۲۴)جو حق سے دشمنی رکھتا تھا،بھلائی کو روکنے والا اور حد سے بڑھ جانے والاتھا، شک میںپڑا ہو اتھا،(۲۵)اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا تھا۔ڈال دو اسے سخت عذاب میں۔ (۲۶:سورۂ ق ٓ)
پروفیسر صاحب بولے،اس میں بتایا جا رہا ہے کہ دین اسلام اور شریعت کے احکام سے غافل اور نافرمان آدمی کی جب موت آتی ہے تو اُس کی موت بہت تکلیف کے ساتھ ہوتی ہے۔فرشتے کہتے ہیں کہ اسی موت سے تجھ کو ڈر لگتا تھا اور تو مرنا نہیں چاہتا تھا، اب چل تیری من مانی کرنے کا وقت ختم ہو گیا۔اور پھر قیامت برپا ہونے کا ذکر ہے کہ ایسے کافر اور نافرمان آدمی کو کہا جائے گا کہ نادان تجھ کو اس انجام سے ڈرایا جاتا تھا لیکن تو غفلت میں پڑا ہوا تھا کیونکہ تیری آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔آج وہ پردہ ہٹا دیا گیا ، دیکھ آج اپنا انجام اور پھر اُس کو جہنم میں ایسے پھینکا جائے گا جیسے کسی گندی چیز کو تم کراہت کے ساتھ گھر سے باہر کوڑے دان میں پھینک دیتے ہو۔
اب داؤد کی باری تھی۔ اُس نے سورۂ رحمن کی ان آیتوں کا ترجمہ پڑھا اور کہا کہ ہماری مسجد کے امام صاحب بھی رمضان کی آخری جمعہ کی نماز میں یہ آیتیں ضرور سناتے ہیں۔ان کا مطلب بھی سمجھائے پروفیسر صاحب۔
(۹) اس روز کسی انسان اورکسی جن سے اس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی،پھر(۳۹) مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے اور اُن کی پیشانی کے بال اور پاؤںپکڑپکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔(۴۱)(اُس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرم لوگ جھوٹ بتاتے تھے۔ (۴۳)اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔(سورۂ رحمان:۴۴)
پروفیسر صاحب نے کہا ان آیتوں میں بھی قیامت میں کافر اور نافرمان بندوں کے ساتھ جو کچھ ہوگا وہ بتایا جارہا ہے۔ہر آدمی اپنے چہرے سے پہچاناجا تا ہے۔نیک اور صالح لوگ نورانی صورت کے مالک ہوتے ہیں۔ اُن کے چہرے کی داڑھی جس کا رکھنا سنت رسولﷺ کی پیروی کرنا ہے چہرے کی رونق کو بڑھاتی ہے اور ہر جگہ ُان کے مسلمان ہونے کی پہچان بناتی ہے۔اُن کا اخلاق اور کردار اُن کو سماج کے ہر طبقے میں نمایا اور ممتاز بنا دیتا ہے۔دوسری طرف فاسق و فاجر اور بے دین لوگ نہ تو شریعت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کی وضع قطع اختیار کرتے ہیں۔ اُن کے چہرے پر نور نہیں پھٹکار برستی رہتی ہے۔اُن کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔انجانے لوگوں کو سلام بھی نہیں کیاجاسکتا ہے جو ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ایسے بے دین اور نافرمان لوگوں کے متعلق کہاجارہا ہے کہ حشر کے دن اُن کے چہروں کو دیکھ کر ہی پہچان لیا جائے گاکہ یہ سب کافر ہیں۔اُن کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ ڈال دو جہنم میں اس کٹے کافر کو اور اُن کو مجرموں کی طرح بال سے پکڑ کر یا پاؤ ں گھسیٹتے ہوئے جانوروں کی طرح جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ذاکرنے کہا پروفیسر صاحب ! جن لوگوں نے رمضان میں اپنے سارے گناہ معاف نہیں کرائے عید کے دن اُن کا نیا کپڑا پہننا، اچھے کھانے کھانا اور خوشیاں منانا کیسا ہے ؟ پروفیسر صاحب بولے ایسا ہی ہے جیسے بکرے کو قربانی کے لئے جب لاتے ہیںتو بعض لوگ اُس کو سجا سنوار کر رکھتے ہیں، لیکن اُس ساتھ جو کچھ ہونا ہے اگر اُس کو معلوم ہو جائے تو وہ خوش ہونے کی جگہ روئے گا اور روتے روتے بے حال ہو جائے گا۔اسی طرح عید کے دن ایسے منکروں اور نافرمانوں کو عید منانے کی جگہ سوگ منانا چاہئے۔عربی کا مشہور مقولہ ہے جو عید کے خطبے میں اکثر پڑھا جاتا ہے لَیْسَ الْعِیْدَ لِمَنْ وَعِیْد یعنی آج جس کو برے انجام کا ڈراوا سنایا جارہا ہے اس کے لئے عید خوشی کا دن نہیں ہے۔
رحمت نے پوچھا پروفیسر صاحب ایسے بد نصیب لوگوں میں سے کسی کو اگر پچھتاوا ہو اور وہ اپنے انجام کو سوچ کر خود کو بدلنا چاہے تو اُس کا کیا ہوگا ؟ پروفیسر صاحب نے کہا بہت عمدہ بات تم نے کہی۔کہاوت ہے ،جب جاگے تب ہی سویرا۔اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنے بندوں کے ساتھ گناہ معاف کرنے کو تیار رہتا ہے۔رمضان کے بعد بھی اگر کوئی نافرمان یا فاسق و فاجر آدمی نیک اور صالح مسلمان بننے کا ارادہ کر لے،شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ رمضان کے بعد بھی اُس کے سارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور اُس کی نیکیوں کا اجر اور انعام بہت زیادہ دے گا۔ یہ باتیں قرآن میں بھی لکھی ہیں اور پیارے نبیﷺ نے بھی ایسا فرمایا ہے۔لیکن جو بدنصیب قرآن کو معنی اور مطلب کے ساتھ نہیں پڑھتے ہیں وہ ان باتوں کو نہیں جانتے۔
کلا س ختم ہو چکا تھا،پہلے پروفیسرصاحب کلاس سے نکلے اور پھر سارے لڑکے بھی کلا سے نکل کر چلے گئے۔