عید کی حقیقی خوشی سے محروم ہے عالم اسلام

ہندوستان میں فرقہ پرستوں کی کامیابی،فلسطین میں صیہونیوں کی دہشت گردی،خلیجی ممالک میں انتہا پسندوں کی زور آزمائی نے پوری امت کو مغموم کئے رکھا ہے
ممبئی(معیشت نیوز) خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی تصویر پیش کرچکی امت جس کسمپرسی میں مبتلا ہے اس کا ادراک ا نہیں کو ہے جنہوں نے سخت حالات کا مقابلہ کیا ہےیا کر رہے ہیں۔ہندوستان میں ماب لنچگ کے ذریعہ مارے جانے والے مسلمانوں کے گھروالے ہوں یا مختلف بم دھماکوں کے الزام میں بے گناہ قید کی سزا کاٹ رہے نوجوان اور ان کے گھر والے۔ملت کی بے حسی کی وجہ سے عید کا دن بھی ان کے گھر سوگواری ہی لے کر آتا ہے۔ ممبئی میںکمیونیٹی ٹاک پروگرام منعقد کرنے والے غلام عارف کہتے ہیں ’’ہم ایک ایسے وقت میں عید کی خوشیاں منارہے ہیں جب کہ ہفتہ بھر پہلے ہی ہندوستان میں ایک ایسی پارٹی دوبارہ برسراقتدار آگئی ہے جس کافسطائی ایجنڈہ ملت کی نیند حرام کئے ہوئے ہے۔دراصل ہم تمام غیر یقینی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ایسے میںہماری ذمہ داری ملک کے ساتھ ملت کے تئیں مزید بڑھ جاتی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں سے اپنے رابطے بڑھائیںاور بین المذاہب ڈائلاگ کا اہتمام کریں‘‘۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی اقلیتوں کے تحفظ کی تمام تر یقین دہانیوںکے باوجودپیش آمدہ واقعات سے ایک ایسا ناگہانی خوف ملت کے اوپر طاری ہوا ہےجو درد مندوں کو کھائے جارہا ہے۔اقلیتی تعلیمی ادارے، معاشی مراکز،ملی و دینی تنظیمیں اس بات سے پریشان ہیں کہ کب کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے یا کوئی فرمان جاری ہوجائے کہ ان کی تگ و دو محدود کردی جائے۔ ملک کے ساتھ بیرون ممالک میں موجود احباب بھی اپنی افسردگی کا اظہار کررہے ہیں قطر میں مقیم علی اشہد اعظمی کہتے ہیں ’’ عید الفطر کے آمدکی خوشی تو ہے لیکن عالم اسلام کی صورتحال دیکھ کر دل مغموم بھی ہے۔میں قطر میں مقیم ہوںلہذا وطن سے دور رشتہ داروں، دوست احباب، گھر والوں کی یاد آتی ہے لیکن جب آس پاس کے حالات دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں بھلے ہی دور ہوں لیکن کسی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوں ورنہ عالم اسلام تو سسک رہا ہے۔فلسطین کے واقعات پر قطر میں گفتگو ہورہی ہے اور وہاں کے دلخراش مناظر ہماری نیندیں حرام کردیتے ہیں‘‘۔دبئی کی تعمیراتی کمپنی میں سینئر جنرل منیجر کے عہدے پر تعینات شاداب نجمی کہتے ہیں ’’یہاںطاق راتوں میںمسجدیںبھری ہوئی ہیں۔افطار کے وقت مسجدوں کا ماحول ہی کچھ جدا ہوتا ہے ہر آدمی دوسروں کو کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کرتا ہے ۔تحفے تحائف دیتا ہے اب عید کی خریداری کا ماحول ہے مہنگی مہنگی گاڑیوں پر سوار لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔ زندگی کا ہر لطف لوگوں کے پاس ہے لیکن سکون کہیں چھین لیا گیا ہے۔آج کے ماحول میں میں بچپن کو یاد کرتا ہوں تو وہ زیادہ خوشمنا معلوم ہوتا ہے جہاں ہر طرف محبت کرنے والے چہرے ہی دکھائی دیتے تھے۔وطن کی یاد آتی ہے تو ہر آدمی سوگوار ہوجاتا ہے‘‘۔عمان میں مقیم سید عنبر فضل کہتے ہیں ’’پوری دنیا میں حالات تو خراب ہیں لیکن اتنے خراب نہیں ہیں جتنے نبی کریم ﷺ کے وقت میں تھے یا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ۔آج بھی کفار و مشرکین سنگ دل ہیں لیکن تصور کیجئے مکہ کے کفار کا ۔غلامی کی چادریں اوڑھانے کی آج بھی کوشش کی جارہی ہے لیکن تصور کیجئے فرعون کی غلامی کا۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ حالات جس قدر بھی خراب ہوں ہمیں اپنا دعوتی کام کرتے رہنا چاہئے اور مثبت سوچ کو پروان چڑھاتے رہنا چاہئے۔کہا گیا ہے کہ قیامت آگئی ہو اور کسی کو ایک درخت لگانے کا موقع بھی مل جائے تو وہ درخت لگا دے۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *