قرآن کریم: ہم سب کی کتاب
عفان احمد کامل
“قرآن ختم”
سمجھا! ندارد
جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب بھی۔۔کوئ بدلاؤ نہیں۔
جس کتاب کو سب سے زیادہ سمجھ کر پڑھنا تھا اسے بس پڑھ دیتے ہیں۔
نہ پڑھا نے والےاور نہ پڑھنے والے سمجھتے ہیں۔۔
دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب اور بدقسمتی سے سب سے زیادہ بے سمجھے پڑھی جانے والی کتا ب بھی۔۔
جس کتاب کے اہتمام میں اﷲ رب ّالعزّت نے ہر سال ایک مہینہ( رمضان )خاص کر رکھا ہو، جس کتاب کے مقصد ِ نزول (هُدًى لِلْمُتَّقِينَ)کو اپنی پسندیدہ عبادت روزے(لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) کے ذریعہ انسانوں (هُدًى للّناس) کو سمجھانے کی خاطررہتی دنیا تک کے لئے ہر سال پورے ایک مہینے کا تربیتی نظام بنا رکھا ہو۔۔اس کتاب کے لئے کتنی عجیب اور حیرت انگیز بات یہ ہو گی کہ اسے بس پڑھ دیا جائے۔۔۔بغیر کسی احساسِ ندامت و شرمندگی کے۔۔۔قربان جائیے ہماری سادہ دلی یا خوش فہمی کے بے جا احساس پر کہ ہم پڑھے لکھے لوگ بھی ایسا کر کے قرآن کی خدمت کا دم بھرتے ہیں اور اﷲ کی قربت کی امّیّد لگا بیٹھتے ہیں۔۔
جس طرح روزہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حکمِ خداوندی ( وقت پر کھانے سے رک جان اور وقت پر ہی شروع کرنا) ہی ہر کام کے صحیح اور غلط ہونے کی واحد کسوٹی ہے اسی طرح قرآن ہمیں زندگی کہ تمام کاموں میں حکِم خداوندی کیا ہے اس کی تعلیم دیتا ہے۔۔۔
سب سے زیادہ ظلم اس کتاب پر اس کتاب کے ماننے والے ہی کرتے ہیں۔۔
اس کتاب نے خود اپنا مقصدِ نزول ہدایت( هُدًى للّناس ) بتا یا ہے ہم نے اس کا مقصدِ نزول ثواب کی کتاب بنا لیا ہے، ثواب تو اضافی ہے، وہ تو ملنا ہی ملنا ہے۔۔آپ ہدایت کی نیت سے پڑھیں، سمجھیں ، غور کریں اور عمل کریں۔۔۔ان سارے عمل میں ثواب آپ کو خود بخود ملتا جایئگا۔۔۔سمندر سے محض قطرے پر اکتفا مت کیجیئے ورنہ سمندر کی نا قدری ہوجا ئیگی ۔
جو خالص سمجھنے اور سمجھ کرخالص عمل کے لیے آئ تھی محض ثواب کمانے کی معمولی کتاب بنا کر رکھ دیا…
اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے۔!…
اﷲنے جو کتاب ہمارے لیے بھیجی، جو ہماری درسی کتاب ہے، جو براہِ راست ہم سے مخاطب ہے ، ہمیں ہمارے شب و روز کے معمول بتاتی ہے، ہمارے معاملات طے کرتی ہے، ہمیں دنیا میں رہنے اور اسے برتنے کے طریقے و سلیقے سکھاتی ہے، ہمارے وجود کا مقصد اور منزل کا پتہ بتاتی ہے، ہمیں ہمارے داعیانہ مشن سے آگاہ کرتی ہے اور اس کی تکمیل کے اصول و ضوابط کے ہر اہم نکات اجاگر کرتی ہے، اخروی فلاح و کامرانی کے راستے کی پریشانیوں و مصیبتوں سے آگاہ کرتی ہوئ اس راہ کی ایمانی حلاوت اور پر سکون وادیوں کی سیر بھی کرواتی ہے، گویا کہ “خاص میرے لیے” بھیجی گئ اس کے ساتھ ہمارا رویّہ کتنا ظا لمانہ ہے کہ ہم اسے اپنے دل و دماغ کے سارے دروازے بند کر کے بس نحض الفاظ دہرانا چاہتے ہیں!۔۔ نہ سمجھنے کی للک، نہ جاننے کی خواہش، نہ عزت و احترام۔۔۔کیا جواب دیں کے اﷲ کی بارگاہ میں اور کیا منھ دکھائینگے رسولِ اکرم محمدؐمصطفیٰ کو۔۔جنھوں نے اس کتاب کے مطابق زندگی گزار کر اپنی سیرتِ مبارکہ (سنّتِ رسولُ) ہمارے درمیان چھوڑدی اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن اور حدیثِؐ سے چمٹے رہنا اس سے کبھی دور مت ہونا۔
پڑھنے کا تو مطلب ہی ہوتا ہے سمجھ کر…پتہ نہیں کیسے “پڑھنے” کا مطلب “بے سمجھ “محض الفاظ کا دہرانا رکھ دیا گیا… اﷲرحم کرے!.
ظاہر سی بات ہے اس رویّے کے ساتھ مغلوب، محکوم اور مرعوب ہی رہا جا سکتا ہے اور وہ ہیں ہم سب۔۔
قرآن سورۃ قصص میں اﷲفرماتا ہے ” فرض علیک القرآن” یہ قرآن تم پر فرض کیا۔۔۔ فرض کے معنیٰ فرض کے ہی ہیں جس طرح بقیہ جیزیں فرض کی گئ ہیں۔
اﷲ نے اس کتاب کو اپنے نبی ﷺ پر اتارنے کی شروعات ہی لفظ ” اقرا” سے کی۔۔۔ پڑھو۔۔ پڑھواپنے رب کے نام سے ۔۔۔۔اور پھر آگے فرمایا ” علّم با القلم۔۔” قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔۔۔
دوسری جگہ سورۃ القمر میں اﷲ فرماتا ہے ” وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر”ٍ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئ نصیحت قبول کرنے والا؟
اﷲنے هُدًى للّناس کہا۔۔۔سارے انسانوں کے لئے ہدایت کی کتاب (گائڈکرنے والی، راستہ بتانے والی کتاب)
اﷲنے خود کو “ربّ العالمین” کہا۔۔۔ پورے عالم، پورے انسانوں کا رب۔۔۔
اپنے بھیجے گئے رسولﷺ کو ” رحمت لّلعالمین” کہا۔۔۔۔ پورے عالم ، پورے انسانوں کے لئے رحمت۔۔
پورے انسانوں کے رب نے۔۔ پورے انسانوں کے لئے رحمت ۔۔اپنے رسولؐ کے ذریعہ پورے انسانوں کی بھلائ و بہتری کے لئے اپنا پیغام (میسیج) اپنی کتاب کی شکل میں بھیجاہے ۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ہم اسے۔۔۔سمجھ کر پڑھنا نہیں چاہتے۔۔سمجھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتے۔۔اسکی زبان سیکھنا نہیں چاہتے۔۔ تو یہ خود پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ قلب و عقل پر قفل نہیں تواور کیا ہے!
نسخہءِ کیمیا موجود۔۔ہم سمجھ کر عمل کو تیّار نہیں ۔۔۔بس ورد کے ذریعہ اپنے مسا ئل حل کرنا چاہتے ہیں!۔۔پھر حالات کا رونا۔۔وسائل کی کمی کا شکوہ۔۔اپنی احساسِ کمتری کا کھُلا مظاہرہ۔۔مرعوبیت کی چادر اوڑھ کر مسکینی جیسی صورت کے ساتھ ایک در سے دوسرے در کا طواف کرتے پھرتے ہیں۔۔۔نہیں۔۔قرآن پڑھنے والوں کی یہ شان ہر گز نہیں ہوسکتی۔۔
قرآن پڑھنے والا۔۔ مرعوب نہیں ہوتا بلکہ رعب ڈالتا ہے، وہ حالات کا رونا نہیں روتا بلکہ نا مساعد حالات میں بھی صبر و نماز، حکمت وفراست جیسے ہتھیار سی لیس رہتا ہے، اسکی شکل مسکینی نہیں ہوتی بلکہ قلبِ مطمئنّہ کے ساتھ خودداری ، سنجیدگی و متانت ٹپکتی ہے، وہ مختلف دروں کے طواف نہیں کرتا وہ تو بس ایک اﷲ کے در کا طواف اور بس اسی کی چاکھٹ پر سر رکھتا ہے۔۔۔
اسی وجہ کر معلّم القرآن کا ایک خاص مقام ہے کیوں کے وہ رب کی باتیں بتاتا ہے، سکھاتا ہے ۔ خود رسول اکرمؐ سب سےپہلے معلم قرآن تھے۔۔۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے۔۔۔۔جو حالات کو بدلنے، راستہ بتلانے، حق وباطل کا فرق سمجھانے، ہار و جیت کا مفہوم بتلانے، انسانیت کا درس دینے، اندھیر سے اجالے کی طرف لے جانے کے لئے آئ ہے۔۔۔
کیا ایسی عظیم کتاب بغیر سمجھے پڑھی جانی چاہئے؟ کیا اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیئے؟ کیا صرف چند لوگوں کے سمجھنے سے کام چل جائے گا؟ کیا روزِ محشر ہمارا یہ سب عزر اﷲ کی بارگاہ میں کام کر جائیگا! وہاں حساب فرداً فرداً لیا جائیگا۔
ہم ایک سامان خرید تے ہیں تو اسکے ساتھ ایک پرچی ہوتی ہے یا ایک کتاب جس میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کس طرح اس سامان کا استعمال کریں گے، اسکو بنانے والا یہ آپ کو بتاتا ہے کہ یہ کیسے چلے گا ۔۔۔(مینول ہوتا ہے)۔۔۔گاڑی، فرج، موبائل وغیرہ کچھ بھی خریدیں۔۔
اس کائنات کے بنانے والے نے ایک مینول قرآن کی شکل میں آپ کو دیا ہے۔۔کہ کیسے اس کائنات ( یو نیورس) میں آپ رہیں گے، اسکے بنانے والے نے کیوں اسے بنایا ہے، وہ ہم سب سے کیا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ یہ سب لکھا ہے اسکی کتاب میں جسے سمجھنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہم اسی کائنات میں اچھے سے خوش بھی رہنا چاہتے ہیں، زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں بغیر مینول سمجھے ہوئے۔۔۔
پڑھنے میں خود بخود سمجھنے کا مفہوم چھپا ہے۔۔۔آپ نے کبھی کو ئ کتاب، کوئ پرچہ ایسا بھی پڑھا ہے جو سمجھ میں نھیں آرہا ہو اور آپ بس پڑھے جا رہے ہوں۔؟ اور سمجھنے کے لئے دوڑ بھاگ بھی نہیں کر رہے، کوئ تڑپ و بیچینی بھی نہیں پائ جارہی،پورے اطمینان کے ساتھ پڑھے جا رہے ہوں۔۔۔اس کا کوئ ترجمہ مل جائے بھر بھی اسے سمجھنے کی کوشش نہ کر رہے ہوں۔۔! آپ کبھی ایسا نہیں کرینگے! تو پھر آخر قرآن ہی کے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں!
بس رمضان کا قرآن۔۔مردوں کو بخویانے کے لئے قرآن۔۔۔بس جھاڑ پھوک کے لئے قرآن۔۔قرآن زندوں کے لئے اتاری گئ ہے ُمردوں کے لئے نہیں۔۔
سمندر پورا دریا دینے کو تیّار ہے اور ہم ہیں کہ بس چند قطرے پر رکے ہیں۔۔۔۔قرآن کو صرف ثواب کی نیت سے پڑھنا سمندر سے صرف چندقطرے حاصل کرنا ہے، ایک جاہل تو یہ کر سکتا ہے لیکن پڑھے لکھے شخص کی پکڑ اﷲ کے یہاں ہو جائیگی۔۔۔فرض علیک القرآن۔۔۔قرآن تم پر فرض کیا۔۔ہم آپ یہ کہ کر قطعی چھوٹ نہیں سکتے کہ ہمیں سمجھنا نہیں آتا تھا۔۔۔دنیوی فائدے کی کوئ چیز اگر سمجھ نہ آئے تو ہم جی جان لگا دیتے ہیں اسے سمجھنے اور اس کےمطابق اپنے دنیوی کام کو کرنے کے کئے تاکہ خسارے(نقصان) سے بچا جا سکے ۔۔۔لیکن آخرت کا خسارہ (جو اصل نقصان ہے) اس کی فکر نہ کرنا ، اسکے لئے حیلے اور بہانے تلاشنا بڑی عجیب بات لگتی ہےاور کمزور ایمان کی نشانی ہے۔
یہ ہر انسان کی درسی کتاب ہے۔۔ٹیکٹ بک ہے، یہ کتابِ ہدایت ہے، کتابِ سکون ہے، کتابِ راحت ہے، کتابِ محبت ہے، کتابِ شفقت ہے، کتابِ مغفرت ہے، کتابِ انسانیت ہے۔۔۔
یہ کتاب ہر عالم و جاہل کی کتاب ہے۔۔ہر کالے و گورے کی کتاب ہے۔۔ہر نسل و ذات کی کتاب ہے۔۔ہر مذہب و ملّت کی کتاب ہے۔۔ہر طرح کے کام کرنے والوں کی کتاب ہے۔۔۔۔ہر مظلوم و عادل کی کتاب ہے۔۔۔ہر قاضی و منصف کی کتاب ہے۔۔۔ہر مرد و عورت کی کتاب ہے۔۔ہر علاقہ و خطّہ کی کتاب ہے۔۔۔ہر محلّہ و گاؤں کی کتاب ہے۔۔۔یہ ہر کس وناکس کی کتاب ہے۔۔۔سب کے لئے ہے۔۔۔سب کا ہے۔۔۔جو بھی اسے پڑھنا چاہے۔۔۔سمجھنا چاہے۔۔۔عمل کرنا چاہے۔۔۔سب کو بغیر کسی تفریق کے بے لوث، بے غرض راستہ دکھانے والی کتاب ہے۔۔۔بس کوئ راستہ پوچھ کر تو دیکھے۔!!! یہ تو بتانے کو بیتاب ہے۔۔ آپ کو اپنے آغوش میں لے لیگی۔
ہمیں آج یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ہم اسے پڑھینگے اور پڑھنے کے سارے مفہوم کے ساتھ پڑھینگے۔۔۔کسی جانکار کی مدد لینگے۔۔۔۔
علماءکی مدد لینگے۔۔کسی بھی ترجمے کا سہارا لے کر ہی۔۔۔لیکن۔۔۔ پڑھیں گے۔۔۔سمجھیں گے۔۔۔۔اور عمل کریں۔۔۔اور دوسروں کو ترغیب (داعی) دینگے۔۔۔۔۔
کئی طریقے ہیں قرآن سے جڑنے کے۔۔۔سمجھنے اور عمل کی خاطر(کسی کو غلط فہمی نہ ہو میں تفسیر لکھنے کی بات نہیں کر رہا)
پہلاطریقہ: سب سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم قرآن کی زبان سیکھیں۔۔۔سیکھنے کی کوئ عمر نہیں ہوتی، اب تو بیشتر طریقے بہت آسانی سے دستیاب ہیں، کسی بھی طریقے کا سہارا لےکر قرآن کی زبان سیکھی جا سکتی ہے۔۔بہت سی کتابیں موجود ہیں، آن لائن ٹوٹوریل موجود ہیں ، ہر زبان کی مدد سے سیکھنے کا مٹیریل موجود ہے، اساتذہ کرام موجود ہیں، مفت سکھانے والے استاد بھی موجود ہیں ۔۔۔سارے اسباب موجود ہیں ۔۔بس دل میں ایک تڑپ، لگن و جوش چاہیئے جس طرح دنیا کے بقیہ کاموں میں ہم دکھاتے ہیں۔۔۔
دوسرا طریقہ:اگر آپ سیکھنے کا وقت نہیں نکال پا رہے تو تقریباََ ہر زبان کے اندر قرآن کا ترجمہ موجود ہے اور کئ زبانوں میں کئ علماء اور اسکالرس کے تراجم موجود ہیں، دنیا کی بیشتر زبانوں میں تراجم موجود ہیں، یہ ترجمے علماؤں اور قرآن کے اسکالرس نے خود اپنے لئے نہیں بلکہ ہم ان لوگوں کے لئے کیا ہے جو قرآن کی زبان نہیں سمجھ پاتے۔۔۔کئ کئ سال کی انتھک محنت کے بعد ہما رےلئے(جن کے پاس اﷲ کے پیغام کے لئے وقت نہیں ہے) ترجمہ کیا ہے۔۔ہمیں ان میں سے جن کابھی ترجمہ چاہیں لے کر قرآن سے قریب ہوسکتے ہیں۔۔
تیسرا طریقہ: آپ کے پاس بلکل بھی وقت نہیں ہے، ترجمہ بھی نہیں پڑھ پا رہے ہیں، آپ سن تو سکتے ہیں۔۔۔کئ زبانوں میں قرآن ناظرہ کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی موجود ہے۔۔۔ہم سن کر بھی ناظرہ دہرا سکتے ہیں اور ترجمہ سن سکتے ہیں۔۔
چاتھا طریقہ: یہ طریقہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کو کسی بھی زبان کو سیکھنے کا موقع ہی نہیں مل پایا، یا وہ پڑھنا لکھنا سیکھ نہیں پائے اور اب بھی وقت اور حالات کی مجبوری کے تحت نہیں سیکھ پارہے۔۔۔وہ تو بس قرآن پر حرف بہ حرف صرف اپنی انگلیاں ہی پھیرتے جائنگے تو اﷲ اس کے حصّے میں ڈھیر اجر ڈال دیگا۔۔۔لیکن پڑھا لکھا شخص صرف ناظرے پر رک جائے اور وہ اﷲ کے پیغام کو سمجھنے کی کوئ کوشش بھی نہ کرے تو یقیناََ اﷲ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔۔الحمدُ لللّٰہ ہمارا شمار ان میں سے نہیں ہوتا۔
یقیناََ ناطرہ کے ساتھ پڑھیں اور جب بھی ناظرہ پڑھیں تجوید، تلفّظ کو پورا اہتمام کریں(تجوید کی بھی تعکیم لیں)، جب بھی ترجمہ پڑھنے بھی بیٹھیں اس وقت بھی ناظرے سے ہی شروعات کریں۔۔۔ناظرہ کے بغیر قرآن کا تصوّر نہیں ۔
ہم تھوڑا تھوڑا بھی پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ہم صرف تیں آیات سے بھی شروعات کرسکتے ہیں۔۔۔ہم روزانہ قرآن کے لئے اپنے 24 گھنٹوں میں سے صرف 15 منٹ نکال لیں۔۔جو وقت بھی آپ کو میسر ہو۔۔۔صبح۔۔۔شام ۔۔۔رات سونے سے قبل۔۔جب بھی تنہائ مل جائے۔۔۔بس یہ سوچ لیا جائے کہ روزچند لمحات اﷲکی کتابِ ہدایت کے ساتھ خالص ہدایت کی نیت کے ساتھ گزارنے ہیں۔۔۔ انشاءاﷲ انقلاب(تبدیلی) آجائیگا۔۔۔ہم اﷲ کی طرف جیسے ہی بڑھینگے اﷲ دوڑ کر ہمیں اپنے آغوش میں لے لیگا۔۔۔حکمت وفراست، فہم وشعور کے در وازے وا ہوتے چلے جائنگے۔۔ہم اس کی طرف بڑھیں تو صحیح۔۔اﷲ تو مسب الا سباب ہے۔۔۔وہ خود راستہ نکالتا چلا جائیگا۔۔۔اسے بس ہمارے دلوں میں ایک تڑپ سی دکھ جائے۔
اﷲ ہم سب کو قرآن کو پڑھنے ،سمجھنے، عمل کرنے اور اسکی دعوت کو عام کرنے کی توفیق دے۔آمین یا ربّ العالمین۔