آئی ایم اے گھوٹالہ میں کانگریسی ایم ایل اے روشن بیگ پر الزام،کمپنی کے چھ ڈائریکٹر کی پولس کے سامنے خودسپردگی
آئی ایم اے گھوٹالہ میں کانگریسی ایم ایل اے روشن بیگ پر الزام،کمپنی کے چھ ڈائریکٹر کی پولس کے سامنے خودسپردگی
آئی مانیٹری ایڈوائزری تیرہ برسوں سے پونزی اسکیم چلا رہا تھا،سیکڑوں سرمایہ کار بے بسی کا شکار،بنگلور کے غریب گھرانوں میں صف ماتم بچھ گیا
بنگلور(معیشت نیوز) حلال سرمایہ کاری کے لئے مشہور بنگلور کا مالیاتی ادارہ آئی ایم اے (آئی مانیٹری ایڈوائزری)کے تمام تجارتی مراکز بند ہونے اور کمپنی کے سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر منصور خان کا آڈیو وائرل ہونے کے بعد عوام کا غصہ شیوا جی نگر سے کانگریس رکن اسمبلی روشن بیگ پر پھوٹ پڑا ہے۔مرد وخواتین نہ صرف روشن بیگ کی آفس اور گھر کے باہر نعرے بازی کررہی ہیں بلکہ تمام گھوٹالے کا ذمہ دار بھی انہیں ہی گردان رہی ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ روشن بیگ نے غریبوں کے پیسوں کوہڑپ لیا ہے اور آئی ایم اے کو ڈوبانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم اے کے سی ای او منصور خان نے اپنے مبینہ آڈیو میسیج میں الزام لگایا ہے کہ مقامی ایم ایل اے روشن بیگ نے ان سے ۴۰۰کروڑ روپیہ الیکشن لڑنے کے لئے لیا تھاجسے وہ واپس نہیں کررہے ہیں اور اپنے غنڈوں کو بھیج کر مزید رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان کے غنڈے نہ صرف مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں بلکہ میری فیملی بھی محفوظ نہیں ہے‘‘۔
البتہ روشن بیگ ان تمام الزامات کی تردید کررہے ہیں۔ پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’آئی ایم اے گھوٹالہ سے میراکوئی تعلق نہیں ہے۔میں مقامی ایم ایل اے ہوں لہذا سماجی طور پر تمام گروپس ،بزنس ہائوسیز سے جڑا رہتا ہوں جبکہ سماجی و تعلیمی پروگرام میں شرکت بھی کرتا رہتا ہوں اس لئے کسی ادارے سے میرا کوئی راست تعلق نہیں ہے‘‘۔
البتہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم اے (آئی مانیٹری ایڈوائزری)کے بیشتر تجارتوں میں روشن بیگ پارٹنر کی طرح کام کررہے تھے مثلاً روشن بیگ کی ملکیت میں شائع ہونے والاروزنامہ سیاست کی مکمل مالی سرپرستی آئی ایم اے کررہی تھی اور کروڑوں روپیہ انہوں نے آئی ایم اے سے لیا تھا۔
واضح رہے کہ شیواجی نگر کے کنویشن ہال میں تقریباً ۹ ہزارسرمایہ کاروں نےپولس اہلکاروں کے پاس آئی ایم اے جیولرس کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی میں غریب لوگوں نے سرمایہ کاری کررکھی ہے جنہیںماہانہ تین فیصد اور سالانہ ۳۶فیصد کی مناسبت سے منافع دیا جاتا تھا۔
کمپنی کے منیجنگ ڈائرکٹر منصور خان کافی الحال کوئی سراغ نہیں لگا ہےلیکن افواہیں گشت کررہی ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں۔