
کیوں معاشی اور روزگار کے میدان میں ناکام ہے مودی سرکار

حسام صدیقی
نئی دہلی: لوک سبھا الیکشن ختم ہوتے ہی مودی حکومت کے اسٹیٹکس محکمے نے چھپے ہوئے اعداد وشمار جاری کئے جو بہت ہی خوفناک ہیں۔ ملک کی جی ڈی پی سب سے نچلی سطح۶۔۵ فیصد تک پہونچ گئی جبکہ بے روزگاری چھ فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ یہ پچھلےپینتالیس سال میں سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ یعنی پینتالیس سالوں میں بے روزگاری کی شرح اس حد تک نہیں بڑھی تھی جس حد تک مودی سرکار کے پانچ سالوں میں پہونچ گئی۔ ملک میں سب سے زیادہ لوگوں کا پیٹ پالنے والی زراعت کی حالت بیان کے لائق نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو اتنی پریشانیوں کا سامنا پچھلے پچاس سالوں میں نہیں کرنا پڑا جتنا اب کرنا پڑ رہا ہے۔ نوجوانوں اور مزدوروں کو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والے کانسٹرکشن اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حال بد سے بد تر ہوتا گیا۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتیں بند ہوتی گئیں۔ ٹاؤن شپ بسانے اور بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے والوں کے کام بند ہوگئے لیکن مودی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس درمیان ایک بڑا دھماکہ تب ہوا جب ایک آرٹی آئی کے جواب میں ریزرو بینک آف انڈیا نے بتایا کہ پچھلے اکتیس مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال ۲۰۱۸-۱۹ کے دوران ملک کے بینکوں میں چھ ہزار آٹھ سو ایک جعلسازی کے واقعات پیش آئے جن میں بینکوں کو اکہتر ہزار پانچ سو تینتالیس کروڑ روپیوں کی چپت لگی ہے۔ ان تمام انکشافات کے بعد اندازہ لگ گیا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جی ڈی پی، بے روزگاری اور بینکوں میں ہوئی جعلسازی کو عوام سے چھپا کر راشٹر واد اور پاکستان پر کی گئی اسٹرائیک کے نام پر الیکشن لڑا اور جیت حاصل کرلی۔ الیکشن مہم کے دوران کچھ اپوزیشن پارٹیوں نے یہ معاملے اٹھائےبھی تھے تو اس وقت مودی اورپوری بی جے پی نے ایسی خبروںکو محض افواہ قرار دے دیا تھا۔
تیس مئی کو نریندر مودی نے دوبارہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا اس کے اگلے ہی دن اکتیس مئی کو ان کی سرکار کے سینٹرل اسٹیٹسٹکل آفس نے پچھلے ایک سال کا حساب کتاب جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں جی ڈی پی کی شرح اپنے سب سے نچلے پائیدان۸۔۶ فیصد پرپہونچ گئی تھی۔ اسی طرح بے روزگاری پچھلے پینتالیس سالوں میں سب سے اونچی سطح پر پہونچ گئی ہے۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو ا س صورتحال کا پورا اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اصل صورتحال کو ملک سے چھپایا اور ملک کوگمراہ کرکے جارحانہ راشٹر واد، پاکستان کے بالا کوٹ میں کی گئی ائیر اسٹرائیک اور ہندو مسلم معاملات چھیڑ کر الیکشن جیتنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ملک کے جن ووٹروں نے آنکھ بند کرکے دھرم اور راشٹر واد کے نام پر مودی کو جتانے کا کام کیا ہے اگر حالات ایسے ہی رہے تو انہیں جلد ہی بھوکے رہنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
بے روزگاری کی شرح پینتالیس سال کی سب سے اونچی سطح پر پہونچ گئی ہے۔ اسے سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ دراصل، کچھ مہینے پہلے لیک ہوئی ایک رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح پینتالیس سال میںسب سے اونچی سطح پر ہے۔ سرکار نے اس رپورٹ کو خارج کردیا تھا لیکن اکتیس مئی کو سرکار نے اسے تسلیم کرلیا۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ملک میں جولائی ۲۰۱۷ سے لے کر جون۲۰۱۸ کے دوران ایک سال میں بے روزگاری۱۔۶فیصد بڑھی۔ سرکار نے پہلے لیک ہوئی سرکاری رپورٹ کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ بے روزگاری کے اعداد و شمار کو ابھی آخری شکل نہیں دی گئی ہے۔ مرکزی سرکار کو ضروری اور اہم اعداد وشمار کو روکنے کے لئے اپوزیشن پاٹیوں کے الزامات کو جھیلنا پڑاتھا۔اپوزیشن کا الزام تھا کہ سرکار اپنی ناکامی کو جان بوجھ کر چھپا رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دوسری بار تیس مئی کو حلف لینے کے ایک دن بعد یہ سرکاری اعداد و شمار جاری ہوئے ہیں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق شہری علاقوں میں روزگار کی چاہت رکھنے والے ۸۔۷فیصد نوجوان بے روزگار ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ اعداد وشمار ۳۔۵ فیصد ہے۔
نیرو مودی، میہول چوکسی، وجئے مالیا اور ایک درجن سے زیادہ گجراتی صنعتکاروں کے کروڑوں روپئے لے کر بھاگنے جیسے جرائم پر مسلسل بہانے بازی کرتے رہنے والے نریندر مودی نے نوٹ بندی کے بعد لمبے چوڑے دعوے کرتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ ان کی سرکار نے تین لاکھ سے زیادہ فرضی کمپنیوں اور ان کے بینک کھاتوں کو پکڑا ہے جن پر سخت کاروائی کی جارہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اندرخانہ ان کے راج میں ان کے چاہنے والے اور قریبی لوگ بینکوں کو لوٹتے گئے۔ مودی حکومت آنے کے بعد اکتیس مارچ۲۰۱۵ کو ختم ہوئے مالی سال میں ساڑھےانیس ہزار (۱۹۵۰۰) کروڑ کے گھپلے بینکوں کے ہوگئے۔ اگلے سال ۱۶-۲۰۱۵ میں ۱۸۷۰۰ کروڑ کے گھپلے ہوئے، مالی سال ۱۷-۲۰۱۶ میں چوبیس ہزار کروڑ، مالی ۱۸-۲۰۱۷ میںاکتالیس ہزار کروڑ اور مالی سال۱۹-۲۰۱۸ میں تو سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے کیونکہ اس سال ۷۱ ہزار ۵۴۳ کروڑکے گھپلے ہوگئے۔ مطلب مودی حکومت کے دوران مختلف بینکوں سے ہی لوگوں نے ایک لاکھ ۷۵ہزار کروڑ روپئے کے گھپلے کردیئے۔ راہل گاندھی نے الیکشن کے دوران مودی کیلئے’چوکیدار چورہے‘ کا نعرہ لگایا جو مودی اور ان کے ساتھیوں کو بہت ناگوار گزرا لیکن اب جو گھپلے اور گھوٹالے سامنے آرہے ہیں، اس سے اتناتو ثابت ہو ہی گیا کہ اگر چوکیدار چور نہیں ہے تو ناکارہ، نا اہل اور نکما ضرور ہے۔ اس کا مودی اور ان کے اندھے بھکت کیا جواب دیں گے؟
جہاں تک ملک کی جی ڈی پی میں تیز رفتار گراوٹ اور پچھلے پینتالیس سالوں میں بے روزگاری کے سب سے اونچی سطح پر پہونچنے کا سوال ہے۔ اس کی بھی اصل وجہ نوٹ بندی ہی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد ایک ایک کرکے چھوٹی اور گھریلو صنعتیں بند ہوتی گئیں لوگ بے روزگار ہوتے گئے۔ جی ڈی پی میں سب سے زیادہ تعاؤن کرنے وا لی صنعتی شعبے کی حالت بہت خراب ہوگئی کاشتکاروں کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت نہیں ملی۔ کھاد اور بیج کی قیمتوں میں دو گنے کا اضافہ ہوگیا۔ فرٹیلائزر کے معاملے میں کاشتکاروں پر دہری مار پڑی، ایک تو فرٹیلائزر کی قیمتوں میں اضافہ ہوا دوسرے فرٹیلائزر کی بوریوں میںپانچ سے دس کلوگرام تک کھاد کم کردی گئی۔اس لئےکاشتکاروں پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔ کانسٹرکشن شعبہ میں مندی آگئی کیونکہ لوگوں نے فلیٹ خریدنے بند کردئیے، پراپرٹی کا کاروبار تقریباً پورا بند ہوگیا گاؤں سے شہروں میں جا کر پلمبر، میسن، الیکٹریشین، بڑھئی اور مزدوری کرنے والوں کی روزی روٹی چھن گئی۔ وزیر اعظم مودی اپنی جیت کے لئے چاہے کتنے بڑے بڑے دعوے کریںیہ جیت لوگوں کو گمراہ کرکے، انہیں اندھیرے میں رکھ کر اور بے وقوف بنا کر حاصل کی گئی ہے۔ ووٹ دینے والے لوگوں کو بہت جلد اس کا احساس ہو جائے گا کہ جذبات اور اندھے راشٹرواد میں پھنس کر ووٹ دینا انہیں بہت مہنگا پڑا ہے۔