وسائل کا رونا رونے والو! یہ کیسی دردمندی ہے؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ریزرو بینک کو اس تجویز پر کچھ اعتراضات ہیں.

صادق رضا مصباحی

مسلمانوں کی ۶۷؍ لاکھ ۵۰؍ہزارکروڑ روپے سودکی رقم ہندوستانی بینکوں میں جمع ہے مگر اسے مسلمان لینے کے لیے تیارنہیں

وسائل کی عدم دستیابی کے حیلے بہانوں کی بنیاد پرملی مسائل حل نہ ہونے سے پریشان ہماری ملت کی اشرافیہ کےلیے ایک بڑی اچھی خبرہے۔ یہ ایسی خبرہے جس پراگرسنجیدگی سے غورکرلیاجائے اورنقشہ فکروعمل مرتب کردیا جائے تو یقین جانیے ملک کے مسلمان نہال ہوجائیں گے اورانہیں حکومتوں سے اپنے حقوق کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی اورنہ ہی وسائل کے لیے روناپڑے گا ۔ خبریوں ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین محترم صفدرحسین خان نے ریزروبینک آف انڈیاکی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایاہے کہ ملک کے مختلف بینکوں میں مسلمانوں کی ۶۷؍لاکھ ۵۰؍ہزارکروڑکی سودکی رقم جمع ہے اوراسے مسلمان لینے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ چوں کہ یہ رقم مسلمانوں کوبینکوں میں جمع ان کی رقوم سے انٹریسٹ کے طورپرحاصل ہوئی ہےاورشرعی نقطہ نظرسے اصلاًیہ سودمیں شمارہوتی ہے اس لیے مسلمان اسے لینے پرراضی نہیں ہیں اورنہ ہی اس پراپنے حق کے دعویٰ دار۔یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اگرہمارے پاس ہوش مندی ،باشعوری اوربلندی فکرکاوافرسرمایہ ہوتوہماری ملت کے کئی بڑے بڑے پروجیکٹ پربہت اہم اورعظیم کام ہوسکتے ہیں اور ہم کئی امتحانات میں پاس ہوسکتے ہیں ۔ ملک کے ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر طاہر بیگ کہتے ہیں کہ اگرمسلمانوں نے اس رقم کواستعمال نہ کیاتومسلم مخالف تنظیمیں کسی نہ کسی نہ حیلے سے ان رقوم پرہاتھ صاف کرجائیں گی اور پھریہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال کی جائے گی اس لیے جلد از جلد اس کے لیے نقشہ عمل مرتب کرکے کام کا آغاز کردیا جائے ۔

سودبلاشبہ ہماری شریعت میں سخت ممنوع ہے مگرکیا ہرسودکاشرعی حکم ایک ہی ہے؟ اوراگرسود بلاشبہ حرام ہی ہے توعلماکے بعض طبقے نے بینکوں سے حاصل ہونے والے انٹریسٹ کوجائزکیوں قرار دیا ہے؟کیامذکورہ رپورٹ کے تناظرمیں جب کہ یہ یقینی ہوکہ اس انتہائی خطیررقم کوہمارے ہی خلاف استعمال کیاجائے گا،کیااس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ؟ کیا ماضی میں حالات کے تناظرنے علماو فقہا کو اجتہادی رائے اورپھر اجتہادی عمل کرنے کے لیے مجبورنہیں کردیاتھا ؟ ہماری ملت کے بے شمارمسائل ہیں جوحل ہونے کے منتظرہیں ۔ ہمارے جولوگ باربارعدم وسائل کاروناروتے ہیں۔عدم وسائل یاوسائل کی کمی ہرکمیونٹی میں ہوتی ہے اورہرزمانے میں ہوتی رہی ہے مگرباشعورلوگ ترجیحی طورپرکام کرتے ہیں اور بامقصد کاموں میں پیسہ لگاتے ہیں اس لیے وہ یہ روناکبھی نہیں روتے ۔ ہم مسلمانوں میں بالعموم دوسرے اورتیسرے درجے کے کاموں کوزیادہ اہمیت دی جاتی ہے اورجس کام کی زیادہ ضرور ت ہوتی ہے اسے کبھی قصداً اورکبھی اپنی نااہلی کی بناپرکنارے رکھ دیا جاتا ہے۔اس کے پیچھے بھی بہت ساری وجوہ وہ ہیں جوراست طورپرہماری انانیت بلکہ فرعونیت سے جاملتی ہیں۔

مذکورہ خبرسے تھوڑی دیرکے لیے ہماری مسرت بھی جاگ اٹھی کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی ہماری کمیونٹی میں دینی احکام کا تقدس باقی ہے اور وہ سود جیسی حرام رقم کو استعمال نہیں کرنا چاہتی اور اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلانا چاہتی ۔ میری ناقص رائے میں ہم اسے اپنے رزق کے طورپراستعمال نہ کرکے تعمیری پروجیکٹ میں لگاسکتے ہیں ۔ اس ضمن میں ایک بات یہ بھی یاد رکھیے کہ ہندوستانی بینکوں سے جورقم بطورسود حاصل ہوتی ہے اسے علما کے بعض طبقوں نے جائز قرار دیا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ظاہرہے ہمارے علما نے یہ فیصلہ ضرورت کے تحت ہی دیا ہے تو پھرسوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہندوستانی مسلمان اس نکتے کو نہیں سمجھ پارہے ہیں اور کیوں اپنے پیسے کوضائع کرنے پرتلے بیٹھے ہیں؟ ہم ہندوستانی مسلمانوں میں الحمدللہ مذہیبت کی جڑیں بڑی گہری ہیں ، ہم کتنے ہی گنہ گارکیوں نہ ہوں مگر مذہب ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہوتا ہے اور ہم غیرمذہبی ہوکر’’ مذہبی ‘‘ ہوتے ہیں۔ بینکوں میں اتنی خطیررقم یوں ہی پڑی رہنے دینا ہماری اسی مذہبیت کی طرف اشارہ کرتی ہے مگرمیری نظرمیں اس سے بھی کہیں زیادہ ہماری مذہبیت اس بات میں ہے کہ حالات کے جبرکوسمجھ کراس پیسے کوحاصل کریں،اپنے ذاتی استعمال میں نہ لاکراسے قوم کے لیے وقف کریں ، اس کے لیے ایسےٹھوس ، پائیدار اور لازوال کام پرآمادہ ہوں جو ہمارے مستقبل کی ضمانت ہو، جو ہم میں خود اعتمادی پیداکرے اور جو ہمیں وقار عطا کرے ۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت ملک میں بی جےپی برسراقتدارہے اورکئی ریاستوں میں بھی بی جے پی قابض ہے اور اقتدار کے نشے میں ہندتوا اراکین پورے ملک میں دھوم دھڑکا مچائے ہوئے ہیں۔ ابھی کئی برسوں تک مرکزمیں بی جے پی کے ہی کرسی سے چپکے رہنے کاقوی امکان ہے ۔مسلمانوں کی املاک کو تلاش تلاش کر اور کھرچ کھرچ کر نقصان پہنچانے والی یہ پارٹی اور اس کے ہم نوا بہت ممکن ہے بلکہ امیدیہی ہے کہ اگرہم مسلمانوں نے اس پر اپنا دعویٰ نہ کیا تو یہ رقم انہی لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور پھرہمیں کف افسوس ملنے اورخون کے آنسورونے کے سوا کوئی چارہ کارنہ ہوگا۔ خدارا دردمندی کے سائے میں لکھی گئی اس دردمندکی تحریراوراس کی گزارشات پر ٹھنڈے دل سے سوچیں ،اگرآپ کی رقم بینکوں میں نہ بھی ہوتوان لوگوں کواس کے لیے آمادہ کریں جن کی رقوم بینکوں میں ہیں اور جواس کے سودکی رقم کی دعوے داری داخل نہیں کررہے ہیں۔ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اوراس کم وقت ہی میں ہمیں ایک بڑا اورتعمیری فیصلہ لیناہے ۔یقین کرلیجیے ہمارایہ فیصلہ ہماری ملی احیاکے لیے ایک اہم ترین پڑاؤ ثابت ہوگا، بس اخلاص شعاری ،دردمندی ، دوراندیشی اورخداترسی شرط ہے ۔مگرکیا واقعی ایسا ہوجائے گا، کیا ہم اس رقم کولینے پرتیارہوجائیں گے؟؟ میراجواب تونفی میں ہے کیوں کہ ہم نے طے کررکھاہے کہ ہم تعمیری کام کبھی نہیں کریں گے بس تعمیری کام نہ ہونے کے شکوے ضرورکریں گےاورذراذراسے اختلاف پر مخالفتوں کا طوفان کھڑاکردیں گے ۔ظاہرہے چھوٹے وہی کرتے ہیں جوبڑے کرتے ہیں ۔جب بڑے ہی ایساکررہے ہیں توچھوٹے کیوں نہ کریں۔ چھوٹوںمیں اخلاص اس لیے نہیں ہے کہ بڑوں اس سے خالی ہیں۔ ہاں استثنائی مثالیں تو ہرجگہ موجود ہیں۔ بہرحال اللہ کرے ہماری اشرافیہ اس سمت میں کچھ عملی اقدام کرے اوروہ مسلسل اپنے ماتحتوں،عقیدت مندوں،مریدوں اورمتعلقین کواس بات کے لیے تیارکرتے رہیں کہ خداکے واسطے آپ اپنی یہ رقم ضائع نہ کریں اوراسے دوسروں کے ہاتھوں میں جانے نہ دیں ۔اگریہ ضائع ہوگئی تو بہت زیادہ ڈرہے کہ شاید کل خداکی بارگاہ میں ہماری گرفت نہ ہوجائے اور ہمیں مجرم نہ قرار دے دیا جائے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *