سنت یوسفی ادا کرچکے ایس آئی ایم کے سابق صدر اعظم گڈھ میں گرفتار وضمانت پر رہا

ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی رہائی کے بعد مولانا محمد طاہر مدنی کے ساتھ
ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی رہائی کے بعد مولانا محمد طاہر مدنی کے ساتھ


ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کو گجرات پولس نے ۲۰۰۱؁ کے ایک پرانے کیس میں ماخوذ قرار دیا ہے ،عوام کی بروقت مداخلت نےگجرات پولس کو بے نقاب کردیا

اعظم گڈھ(معیشت نیوز) اعظم گڑھ کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ نے سنت یوسفی ادا کرچکےایس آئی ایم کے سابق صدر ڈاکٹر شاہد بدرفلاحی کو عبوری ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔گجرات پولیس نے جمعرات کی شام انہیں 18سال پہلے ایک مقدمہ میں گرفتار کر لیا تھا۔شاہد بدر کے وکیل عبدالخالق نے حوصلہ نیوز کو بتایا کہ چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ آلوک کمار نے دونوں فریق کی جرح سننے کے بعد ان کو ایک لاکھ کے ذاتی مچلکے پر عبوری ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ دیا ہے اورایک ہفتہ کے اندر گجرات کی عدالت میں مذکورہ مقدمہ میں پیش ہونے کو کہا ہے۔واضح رہے کہ جمعہ کو شام ساڑھے تین بجے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ کورٹ نے شاہد بدر کو ایک مہینہ کا وقت دیا ہے۔گجرات کے کچھ ضلع کی پولیس جمعرات کی شام اعظم گڑھ کے پاس واقع منچوبھا نامی گاؤں میں ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے گھر پہنچی اور ان کو بتایا کہ وہ سال 2001 کے ایک مقدمہ میں گجرات کے کچھ ضلع کی پولیس کو مطلوب ہیں اور اس سلسلے میں مقامی عدالت نے ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا ہے۔ شاہد بدر اور ان کے گھر والوں نے اس طرح کے کسی مقدمہ کے تعلق سے لاعلمی کا اظہار کیا لیکن پولیس ان کو لے کر اعظم گڑھ کوتوالی آئی اور کہا کہ ان کو فورا گجرات لے جایا جائے گا۔ وکیلوں کے استفسار پر پولیس نے سال 2012 کا ایک وارنٹ دکھایا اور کہا کہ پولیس تب سے ملزم کو گرفتار کرنے میں اس لیے ناکام رہی کہ ان کا صحیح پتہ معلوم نہیں ہوسکا تھا۔رپورٹ کے مطابہ کچھ ضلع کے بھج نامی مقام پر تعزیرات ہند کی دفعہ 353 اور 143 کے تحت یہ مقدمہ درج ہے۔

ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے
ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے

شاہد بدر اور ان کے وکیل نے اپنی جرح میں کہا کہ ان کا دواخانہ شہر میں ہے اور وہ سیمی کے مختلف مقدمات میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سمیت ملک کی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہتے ہیں اورہرجگہ ان کا یہی پتہ درج ہے۔شاہد بدر کی طرف سے پیش ہوئے وکلا کی مداخلت سے اعظم گڑھ پولیس جمعہ کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہوئی اور مجسٹریٹ نے پولیس اور استغاثہ کی بحث سننے کے بعد ملزم کوعبوری ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ دیا۔ راشٹریہ علماء کونسل کےقومی جنرل سیکرٹری محمد طاہر مدنی کا کہنا ہے ’’اعظم گڑھ کے جیالو! جاگتے رہو، کوئی اگر غلط نگاہ ڈالنے کی کوشش کرے، اس کے سامنے ڈٹ جاؤ، آئینی طریقے سے مقابلہ کرو، قانونی، سماجی اور سیاسی لڑائی کیلئے تیار رہو. ہمت نہ ہارو….آج ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے ساتھ سب لوگ کھڑے تھے، وکلاء زور دار بحث کر رہے تھے، سماجی کارکن سپورٹ کر رہے تھے، دور دراز تک کے لوگ دعائیں کر رہے تھے، میڈیا کے لوگ بھی ہاتھ بٹا رہے تھے، اس طرح اجتماعی کوششوں نے گجرات سے آئی ہوئی پولیس ٹیم کے ارادے ناکام بنا دیا. مجسٹریٹ نے بھی جرات مندی کا ثبوت دیا.18 سال قبل گجرات کے مقام بھج میں ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے الزام میں مقدمہ لکھا گیا، کوئی نوٹس موصول نہیں ہوئی، 2012 میں وارنٹ بھی ہوگیا، کوئی اطلاع نہیں ملی اور کل اچانک گرفتاری کیلئے گجرات سے پولیس کی ٹیم پہونچ گئی اور گاؤں میں پہونچ کر حراست میں لے لیا اور شہر کوتوالی لے کر چلے آئے اور راتوں رات لے کر روانہ ہونا چاہتے تھے، لیکن بیدار مغز وکلاء اور سماجی کارکنان پہونچ گئے اور صاف صاف کہہ دیا کہ اس طرح نہیں لے جاسکتے، آپ کو کورٹ سے ٹرانزٹ ریمانڈ لینی ہوگی. چنانچہ آج انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ماہر وکلاء کی ٹیم نے ضمانت کیلئے بہترین بحث کی اور مجسٹریٹ نے سرکاری وکیل کی سخت مخالفت کے باوجود ضمانت منظور کرلی.حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ نے حاضر ہونے کا موقع ہی نہیں دیا اور گرفتاری کی عجلت دکھانے لگے. ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کو ایس آئی ایم کے قومی صدر کی حیثیت سے سب لوگ جانتے ہیں، تنظیم پر پابندی کے بعد برسہابرس قید و بند کی آزمائش جھیل چکے ہیں، مختلف مقامات پر مقدمات جھیل رہے ہیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات پابندی سے دیکھ رہے ہیں، گجرات کی پولیس 18 سال میں ان کو ایک سمن کی تعمیل نہ کراسکی اور عدالت میں یہ بہانہ بازی کہ پتہ نہیں معلوم…. لفافے پر صرف ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کا فوٹو لگادو، رجسٹری ان کے گھر پہونچ جائے گی. خیر جس طرح تمام مقدمات دیکھ رہے ہیں، یہ بھی دیکھ لیں گے ان شاء اللہ.سیمی پر پابندی کا معاملہ بڑا عجیب و غریب ہے، شروعات اس وقت ہوئی جب ایڈوانی جی وزیر داخلہ تھے اور توسیع کا کام کانگریس کی سرکار بھی کرتی رہی، درمیان میں ایک بار جسٹس گیتا متل نے پابندی ختم کردی تھی کہ بنیاد نہیں ہے مگر اس وقت کانگریس کی سرکار تھی جس نے فورا سپریم کورٹ سے اسٹے حاصل کرلیا اور ناروا پابندی جاری رکہی. تہلکہ میگزین نے ایک خاص شمارہ شائع کیا تھا جس میں سروے کے بعد یہ ثابت کیا تھا کہ سمی کے افراد پر قائم کردہ مقدمات جھوٹے ہیں. 18 سال سے پابندی جاری ہے اور انصاف کے تقاضوں کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے. سپریم کورٹ کو ترجیحی بنیاد پر اس اہم معاملہ کی سماعت کرنی چاہیے کیونکہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے.ملت نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نہیں ادا کر رہی ہے، حالانکہ اسی طرح اگر خاموشی رہی تو باری باری سب نشانہ بنیں گے؛
میں آج زد پہ ہوں، تم خوش گمان مت رہنا
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
اس لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے اور مظلوم کی مدد کرنا لازمی ہے. بیداری، اتحاد اور یکجہتی سرخ روئی کیلئے شرط لازم ہے؛
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی، ظالم کی مدد ہوتی ہے……

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *