
نوی ممبئی میں دار القضاء کے قیام کے لئےقریش مسجد کا انتخاب

قریش نگر تُربھے میں ۱۳اکتوبر۲۰۱۹ کو افتتاحی پروگرام کا فیصلہ،مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی شرکت متوقع
واشی(معیشت نیوز) نوی ممبئی جو اب تک دار القضاء سے محروم تھا اور جس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے سرکردہ افرادگذشتہ کئی مہینوں سے سرگرم تھےانہوں نے قریش نگر تُربھے میں واقع قریش مسجد میں دار القضاء قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کی افتتاحی تقریب ۱۳اکتوبر ۲۰۱۹ کو قریش نگر تُربھے میں منعقد ہوگی۔۔ نوی ممبئی کے سرکردہ افراد جن میں سینئر سماجی کارکن مختار حسین،ہدایت الاسلام ٹرسٹ کے صدر قریش احمد صدیقی ،مالدار فائونڈیشن کے صدر سلطان مالدار،راشد خان،بلال احمد،فاروق الزماں ،ڈاکٹرانور شیخ،وغیرہ کانام سر فہرست ہے سرگرم تھے اور اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح نوی ممبئی میں دار القضاء قائم ہوجائے۔واضح رہے کہ عہدہ قضاء ایسامہتم بالشان عہدہ ہے جس پر نبی کریم ﷺکو خود اللہ تعالیٰ نے فائزکیاتھا اورآپ نے اپنی حیات میں بہت سارے فیصلے کئےپھر آپ نے کئی صحابہ کرام مثلامعاذبن جبل،ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ ابن مسعود، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہم کو اس منصب پر فائزفرمایا،آپ کے خلفاء اربعہ نے بھی آپ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے اس نظام کو مضبوط اوروسیع ترکیا۔دراصل نظام قضاء فریضہ محکمہ ہے یعنی قیامت تک رہنے والی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺکے زمانہ سے لےکر آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہاہے اورآئندہ بھی رہے گا،دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں نظام قضاء کی داغ بیل اسی وقت پڑچکی تھی جب گجرات کے ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی آمدہوئی اورانہوں نے یہیں پر بود وباش اختیارکر لی تھی، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے ہندوراجاؤں نےمذہبی رواداری کاثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کواس کی اجازت دی تھی،اوران کے فیصلوں کو تسلیم کرلیاتھا۔ مسلم سلاطین کے عہد میں بھی یہ نظام اپنے شباب پررہا،حتیٰ کہ دین سے غافل بادشاہوں نے بھی اس نظام سے غفلت نہیں برتی۔ مگرافسوس کہ جب ہندوستان پر انگریزوںکے ناپاک قدم پڑے تو سب سے پہلے انھوں نے قاضیوں کی تقرری کو موقوف کردیا، دھیرے دھیرے یہ نظام حکومتی سطح پر معطل ہوگیا، مگراس وقت بھی ہمارے اکابررحمہم اللہ نےاس نظام کو اپنے طورپرقائم کرنے کی کوشش کی، چنانچہ سب سے پہلے صوبہ بہار میں ١٩١۷ء میں دارالقضاء قائم ہوا، پھرجب ١٩٢١ء میں امارت شرعیہ قائم ہوئی تو یہ دارالقضاء امارت کی ماتحتی میں آگیا، اس کے بعد سے آج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے جہاں سے لاکھوں مقدمات فیصل ہوئےاورکروڑوں لوگوں کے تنازعات حل ہوئے ہیں۔
آل انڈیامسلم پرسنل لاءبورڈجو ہندوستانی مسلمانوں کامتحدہ پلیٹ فارم ہے،نے ١٩۸٥ء میں یہ طے کیا کہ نظام قضاء کو پورے ہندوستان میں پھیلایاجائے،پھر١٩٩٣ء کے اجلاس عاملہ نے طے کیاکہ اس نظام کو بورڈ کی ماتحتی میں رکھاجائے اوربورڈ ہی کی نگرانی میں دارالقضاء قائم ہو، چنانچہ آج تقریباہرچھوٹے بڑے شہرمیں بورڈ کادرالقضاء قائم ہے ، جہاں پرصدربورڈ کی طرف سے قاضی مقررہوتے ہیں،اورالحمد اللہ سالانہ ہزاروں کی تعدادمیں تنازعات کاتصفیہ ہوتاہے۔
شرعی قاضی کی تعریف یہ ہےکہ کوئی آدمی از خود قاضی نہیں بن سکتاہے، بلکہ قاضی بنایاجاتاہے، پس ہندوستان جیسے ممالک میں قاضی بنائے جانےکی تین صورتیں ہیں:ایک یہ کہ کسی علاقہ کے مسلمان پہلے کسی کو اپناامیرمنتخب کریں اوروہ امیرقاضیوں کاتقررکرے،جیساکہ بہار، آندھراپردیش،کرناٹک وغیرہ میں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی علاقہ کے سارے مسلمان کسی باصلاحیت آدمی کو اپناقاضی تسلیم کرلیں، تیسری صورت یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے قاضی مقررہواوراسے مقدمات سننے کاحق بھی ہو، تو وہ بھی شرعی قاضی کہلائے گا اوران کی اطاعت واجب ہوگی بعض لوگ اپنے آپ کو قاضی کہلواتے ہیں،یا حکومت کی طرف سے بعض علاقوں میں نکاح پڑھانے کےلئے قاضی مقررہوتے ہیں وہ شرعی قاضی نہیں ہیں، انھیں تنازعات کے سننے اورفیصلہ کرنے کاحق نہیں ہوتاہےاورنہ ہی ان کافیصلہ قابل عمل ہوتاہے۔ جہاں دارالقضاء قائم ہووہاں پرمحکمہ شرعیہ یاشرعی پنچایت بنانادرست نہیں البتہ جہاں شرعی قاضی نہ ہوتوعارضی طورپرمحکمہ شرعیہ یاشرعی پنچایت قائم کرنے کی گنجائش ہےدراصل محکمہ شرعیہ کی شرائط بہت سخت ہیں، اس کے مقابلہ میں دارالقضاء کاقیام آسان ہے، اس لیے لوگوں کو اپنے علاقوں میں آل انڈیامسلم پرسنل پرسنل لابورڈ کے تحت دارالقضاء کے قیام کی کوشش کرنی چاہئے۔