میں صحافی کیوں بنوں؟

معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے اشتراک سےجامعہ سیدنا ابن عباس میں منعقدہ یک روزہ سیمینار ’’عہد حاضر کی اردو صحافت اورمستقبل کا منظرنامہ‘‘ میں یہ تحریر پیش کرنے کے لئے تحریر کی گئی تھی لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے اسے پیش نہیں کیا جاسکا تھا جسے اب افائدہ عام کی خاطر شائع کیا جارہا ہے۔ادارہ

محمد امجدمعیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشنکا سند روزنامہ ہندوستان کے ایڈیٹر سرفراز آرزو سے حاصل کرتے ہوئے: تصویر معیشت
محمد امجدمعیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کی سند روزنامہ ہندوستان کے ایڈیٹر سرفراز آرزو سے حاصل کرتے ہوئے: تصویر معیشت

محمد امجد (طالب علم ،معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن بہ اشتراک جامعہ سیدنا ابن عباس )
آج کے اس برق رفتار عہد میں، صحافت کی اہمیت و افادیت سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اورمظلوم و مجبور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ آج کے اس دور میں، جہاں بیشتر ممالک میں جمہوری حکومتیں ہیں، وہاں صحافت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ صحافت نام ہے اطلاعات تک رسائی اور اطلاعات کو لوگوں تک پہنچانےکا اور ان کے دل کی بات کو زبان پر لانے کا۔ صحافت محض تبصرہ و تجزیہ کا نام نہیں ہے ۔ صحافت نہ تعریف کرنے کا نام ہے نہ کسی کو گالیاں دینے کا،نہ چمچہ گیری کرنے کا اور نہ بدتمیزی کرنے کا۔صحافت نام ہے محنت و مطالعے کا نہ کہ کام چوری اور جہالت کا۔صحافت نام ہے سچ کو تسلیم کرنے کا نہ کہ انا پرستی، ضد یا اپنی بات پر اڑے رہنے کا۔ صحافت نہ کسی سے تعلقات کی بنا پر تعریفیں کرنے کا نہ کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے کا۔صحافت نام ہے کسر نفسی کا تکبروغرور کا نہیں۔صحافت نام ہے صحافت کا سیاست کا نہیں۔صحافت نام ہے قربانی دینے کا لینے کا نہیں۔صحافت نام ہے بحث کا ہٹ دھرمی کا نہیں۔صحافت نام ہے دلیل دینے کا، فیصلہ کرنے کا نہیں۔
ایک صحافی کا کام ہے خبر کو نچوڑنا یا حکام کو جھنجھوڑنا نہ کہ ہدف کو خراب کرنا سچ بولنا صحافی کا مذہب ہونا چاہیے۔ غیر جانبدار اور عدم طرفداری صحافت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔فن صحافت کو ایک صحافی سے کیا مطلوب ہے؟؟؟فن صحافت ایک صحافی سے مندرجہ ذیل مطالبات کرتی ہے۔
کہ صحافی اپنا کام مشنری جذبہ کے ساتھ کرے۔دیانت داری کے ساتھ سچی اور صحیح معلومات دے۔خبروں اور دوسرے مواد میں اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق رنگ آمیزی نہ کرے۔کسی خاص نقطۂ نظر کی تشہیر کے لیے اطلاعات کو مسخ نہ کرے۔سنسنی خیزی کے لیے واقعات کی صحت کو مجروح نہ کرے۔قارئین کو گمراہ نہ کرے۔آزادی کے ساتھ کام کرے، خوف اور طمع کو قریب نہ بھٹکنے دے۔وسیع تر قومی و ملکی مفادات کو ملحوظ رکھے۔صحافت کے مسلمہ فرائض کی ادائیگی کو مقصود نظر سمجھے۔اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے؛ تو اس کو چھپانے یا اس پر اصرار کے بجائے اس کا اعتراف کرے اور اس کا ازالہ کرے۔صحافت کے اغراض و مقاصد:حالات و اقعات کی تازہ صورت حال سے عوام کوغیر جانب دارانہ، صداقت، امانت اور شجاعت کے ساتھ مطلع کرنا۔رائے عامہ کو ہموار کرنا۔عوام میں غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرنا۔خبر کو مسخ کرکے پیش کرنے سے کلی اجتناب کرنا۔رائے عامہ کی تشکیل کرنا۔عوام کے احساسات کی نمائندگی کرنا۔عوام کو ان کی اچھائی و برائی سے مطلع کرنا۔عوام میں سیاسی و سماجی شعور پیدا کرنا۔عوام کو عمدہ تفریح فراہم کرنا، جس میں برائی، بے حیائی اور بد اخلاقی کا کوئی عنصر نہ ہو۔
آج کا مسلم سماج اور صحافت:
آج المیہ یہ ہے کہ مسلمان صحافت کے میدان میں صفر  (Zero) ہیں۔ مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی معقول “میڈیا ہاؤس ” (Media House) نہیں ہے۔ یہ المیہ صرف کسی ایک مخصوص خطے، علاقے یا ملک تک ہی منحصر نہیں؛ بلکہ پورے عالم اسلام کی یہی صورت حال ہے۔ ہاں، چند ایک اخبار یا ٹی وی چینل ہیں، جسے ہم آٹے میں نمک کے برابر بھی تسلیم نہیں کرسکتے۔اسی طرح مسلمانوں کے پاس قابل اور باشعور صحافیوں کی ایک ایسی ٹیم بھی نہیں ہے، جن کی آواز مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک مؤثر انداز میں سنی جائے۔ جو صاحب اس میدان میں ہیں، ان میں سے اکثر کے لیے یہ صحافت کوئی مشن اور خدمت نہیں؛ بلکہ روزی روٹی کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کوئی صحافی اپنے سماج اور قوم و ملت کے مفاد میں کوئی مسئلہ اٹھانا بھی چاہے، تو ان کو میڈیا ہاؤس کی پالیسی خاموش کردیتی ہے۔ جو مسلمان اپنا میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں، ان میں بھی اکثر اپنے ذاتی مفاد میں، ایسا کچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس سے سماج کا فائدہ تو ہوجائے؛ لیکن مستقبل میں ان کا نقصان ہو۔ مگر ان مذکورہ بالا حقیقتوں کے باوجود، کچھ ایسے غیور اور خدمت کے جذبہ سے سرشار صحافی اور اخبار و رسائل ہیں، جو سماج کے مسائل اور قوم وملت کی خدمت کو سب پر مقدم رکھتے ہیں؛ لیکن سیکڑوں کے بیچ میں ایسے ایک آدھ مخلص کی آواز ہمیشہ دب کر رہ جاتی ہے۔ہماری ذمے داری:میرے خیال میں مسلمانوں کے قابل، باشعور اور اہل ثروت طبقہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں خدمت کی غرض سے آئیں، اپنا میڈیا ہاؤس چلائیں اور مکر و فریب، دروغ گوئی و کذب بیانی اور گندگی و بے حیائی کی دبیز چادر میں دبی ہوئی موجودہ صحافت کو اسلامی اسلوب میں پیش کرنے کا فریضہ انجام دیں۔ ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کو یہ محسوس کرائیں کہ اسلام کیا ہے؟ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟ کیا اسلام کی وہی حقیقت ہے جو مغربی میڈیا سے، یہودیوں کی چھنّی سے چھن کر دنیا کے سامنے آرہی ہے  یا پھر کچھ اور؟ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو تاریخ اسلامی ہمیں معاف نہیں کرے گی اور ہم عند اللہ بھی ماخوذ ہوں گے۔اسی طرح میرا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کے قابل، باشعور اور اہل ثروت طبقہ کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں آکر اپنی قوم و ملت اور سماج کے پیش آمدہ مسائل کو مضبوطی، دیانت داری، ذمےداری، قربانی اور صداقت کے ساتھ اٹھائیں اور ان کے حل کی پوری کوشش کریں۔ اگر بروقت ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں بھی ہوں، پھر بھی ہمیں امید کے ساتھ لگے رہنا چاہیے؛ کیوں کہ یہ تو مسلم ہے کہ The pen is mightier than the sword, یعنی قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ مرحوم اکبر الہ آبادی  نے کیا خوب کہا ہے:
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو   ٭   جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو
صحافت ایک امانت ہے، اس کے لیے خدا ترسی ، تربیت واہلیت اور فنی قابلیت شرط اول ہے۔ اس زمانہ میں بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا ہے جن میں دینی اور اخلاقی اہلیت نہیں، اصول اور کردار کے لحاظ سے وہ قطعاً غیر ذمہ دار اور مغربی یلغار کی حمایت اور لادینی افکار کو نمایاں کرنے میں سر گرم ہیں۔ ”دورحاضر کی اس غیر ذمہ دارانہ ، غیر ثقہ اور ناقص صحافت کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں روزانہ صبح وشام ایسا زہر اتارا جاتا ہے جس کا کوئی تریاق نہیں ۔ یہ مسموم اور بیمار صفحات قلب ونظر کو رفتہ رفتہ ایسا ماؤف کر دیتے ہیں کہ سنجیدہ ، معتدل اور صحیح چیز پسند نہیں آتی، چند سنجیدہ علمی اور ادبی رسائل کو چھوڑ کر سستے قسم کے کثیر الاشاعت رسائل نوجوانوں کے اخلاق اور زندگیوں کو اس سے زیادہ تباہ کر رہے ہیں ، جتنا طاعون اور وبائی امراض کسی ملک یا بستی میں پھیل کر انسانی نفوس کو تباہ کرتے ہیں، یا چنگیز وہلاکو اپنے مفتوح ممالک میں تباہی وہلاکت پھیلاتے تھے۔ بد اخلاقی، عریانی وبے حیائی اور فسق ومعصیت کے یہ جراثیم گھر گھر پھیلے ہوئے ہیں۔ آج کوئی شہر یا قصبہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے ۔ اگر کچھ عرصہ تک یہی حال رہا تو قوم اخلاق کی اس سطح پر پہنچ جائے گی جس پر فرانس اور یورپ کی بعض دوسری قومیں پہنچ گئی ہیں ۔ اور پھر اسلام کی دعوت ونمائندگی تو الگ رہی، وہ کسی سنجیدہ اور تعمیری کام اور جدوجہد کے قابل نہیں رہے گی۔حالاں کہ صحافت ایک مقدس اور عظیم الشان پیشہ ہے، جس کے ذریعے ملک وملت کی بہترین خدمت کی جاسکتی ہے ۔ اسلامی صحافت قوم کے ذہنوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ان کی فکری راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لاتی ہے، برے کاموں سے روکتی اور اچھے کاموں کی ترغیب دیتی ہے۔ اسلامی صحافت کا بنیادی نقطہ اور محور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں اچھائی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے لیے علم کے ذریعہ جد وجہد کرنا اسلامی صحافت کا بنیادی فریضہ ہے۔ یہ فریضہ اتنا عظیم الشان ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق اس فریضہ کی بجا آوری تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہوتی ہے۔“ : ”اگر دنیاوی اصول پر نظر کی جائے تو اخبارات وجرائد نہایت مفید اور کار آمد ذرائع اشاعت ہیں ، بلکہ آج کل قومی اور اجتماعی زندگی کا جز بن گئے ہیں۔ سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس حوالے سے ہمارے لیے اسوہ حسنہ موجود ہے۔ حضرت حسن رضی الله عنہ بحوالہ ہند بن ہالہ رضی الله عنہ ایک طویل حدیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی عادات وشمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ میں نے سوال کیا جب حضور صلی الله علیہ وسلم مکان سے باہر تشریف لاتے تھے تو کیا طرز عمل ہوتا تھا؟ حضرت ہند ابن ابی ہالہ رضی الله عنہ نے فرمایا: حضور صلی الله علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ مفید اور ضروری کلام کے سوا ہر کلام سے اپنی زبان کو روکتے اور صحابہ رضی الله عنہم سے الفت ومحبت کا معاملہ فرماتے تھے، ہر قوم کی بڑی تعظیم فرماتے تھے اور اپنی طرف سے بھی اس قوم کا متولی اور امیر مقرر فرماتے تھے۔ لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈراتے تھے۔ لوگوں کے میل جول سے بچتے تھے، مگر اپنے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی، کسی سے نہ روکتے تھے او راپنے صحابہ کی خبر گیری فرماتے تھے۔ لوگوں سے ان واقعات کو دریافت فرماتے تھے جو لوگوں میں پیش آتے تھے اوران میں اچھی باتوں کی بھلائی اور بری یاتوں کی برائی اور ضعف بیان کرتے تھے۔“( شمائل ترمذی ،)حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ” حضور صلی الله علیہ وسلم جب کسی کو دیکھتے کہ تین روز سے ملے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے تھے کہ وہ کہاں ہیں؟ پھر اگر وہ سفرمیں گئے ہوتے تھے تو ان کے لیے دعا فرماتے تھے اوراگر حاضر ہوتے تو ان کی ملاقات کو تشریف لے جاتے تھے اورمریض ہوتے تو مزاج پرسی کرتے تھے۔“ ان دواحادیث سے چار باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔
1… اس لیے سنت تفقہ ( خبرگیری) کے تحت میں آسکتا ہے۔
2… اس کے علاوہ مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ اس ذریعہ سے سہولت سے کیا جاسکتا ہے۔
3… مسلمانوں کی قومی شکایات ومظالم کو اس کے ذریعہ حکومت تک آسانی سے پہنچایا جاسکتا ہے۔
4… تبلیغی ضرورت اس کے ذریعہ سے بخوبی ادا ہو سکتی ہے۔
دور حاضر میں مسلمانوں کے اجتماعی حالات مکمل طور پر بگڑ چکے ہیں۔ مسلمان مظلومیت کا شکار ہیں ۔ یہود قبلہ اول پر قابض ہیں ۔ دشمنانِ اسلام جدید ہتھیاروں، میزائلوں، بموں اور طیاروں سے لیس ہو کر مسلم علاقوں پر چڑھائی کررہے ہیں۔ آگ وبارود کی بدستور بارش کر رہے ہیں مٹی کے گھروندے پیوند زمین کر رہے ہیں افتادگان خاک لہو رزق خاک بنا رہے ہیں، انسانی جانوں کو زندہ بھٹی میں جلا رہے ہیں۔تمام اہل دنیا کو علم ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔لیکن یہاں ناموس رسالت کا قانون ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دینی مدارس کے دروازوں پر تالے ڈالے جارہے ہیں، نصاب کو اسلامی تعلیمات سے پاک کرنے کی ناپاک سعی کی جارہی ہے ۔ اسلامی تاریخ وتہذیب کو شجر ممنوعہ بنایا جارہا ہے۔ اسلامی اقدار وروایات کو ذبح کیا جارہا ہے، جہاد کو دہشت گردی کا نام دیا جارہا ہے ۔ دینی حمیت کا گھلا گھونٹا جارہا ہے ۔ حق کو چھپایا اور باطل کو پھیلایا جارہا ہے۔ مگر نام نہاد آزاد میڈیا (پرنٹ ہو یا الیکٹرانک) اپنی فن کاریاں دکھارہا ہے۔ اہل قلم، حرف وبیاں کی میناکاریاں کر رہے ہیں، حکمران اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے طاغوت کی ہم نوائی کر رہے ہیں۔اس المیہ پر لکھنے والے نایاب نہیں تو کم یاب ضرورہیں ۔ عمومی فضا یہی ہے کہ کوئی بھی مسلمانوں کی حالت زار کو کھل کر بیان نہیں کرتا۔ کوئی کلمہ حق لکھ کر ان مسائل کو عوام الناس کی عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، حشرات الارض کی طرح اسلامی اخبارات اور رسائل تو ہیں اور خوش آئند بھی ہیں ۔ لیکن خلا پر نہیں ہو رہا ہے، چند رسائل او راخبارات کے علاوہ اکثر گزرے ہوئے لوگوں کی تحریریں نقل کرتے ہیں، نئی نسل میں لکھنے والے بہت کم مل رہے ہیں۔قحط رجالی کے اس دورمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں ۔ صداقت کو رقم کرنے کے لیے قلم وقرطاس کے ساتھ وابستہ ہوں۔ قلم وبیان کے سپاہی بنیں، صحافت کے محاذ کو توانا کریں۔ غیرت ، حمیت، سوچ، تقریر وتحریر کے ساتھ صحافت کے میدان میں اتریں اور ان گھٹن کے حالات میں کلمہ حق سر بلند کریں، جہالت اور گم راہی کی تاریکیوں میں شمع یقین وایمان کو روشن کریں ۔ معاشرہ میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اذان حق بلند کریں، اپنے عقائد ونظریات میں لچک نہ لائیں ،نہ ہی زمین حقائق کی دیلیز پر سجدریز ہوں، بلکہ قلم کے ذریعہ اپنے عقائد ونظریات اور دین اسلام کا دفاع کریں۔آئیے آپ بھی صحافتی میدان میں اتریں، اپنی تحریری صلاحیتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی یکجہتی، اسلام کے دفاع اور عظیم ترا سلامی انقلاب کے لیے سر گرم عمل دینی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیں۔ دین اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور ترقی کے لیے میدان تحریر میں شوق و جذبہ کے ساتھ اپنی کالم نگار ی کے ذریعہ ان کا ساتھ دیں، میڈیا اور دجالی پروپیگنڈہ کے اس دور میں مغربی یلغار اور لادینی افکار کے خلاف قلمی جنگ میں ان کے ہم نوا بنیں۔ ملی وحدت ، فکری حریت اور شرعی نظام کے اسلامی صحافت کے میدان میں ان کا دست وبازو بن کر طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیجیے۔ قدم اٹھائیے اور وقت کی اس پکار پر لبیک کہیے اور اکابرین کے نفش قدم پر چلتے ہوئے دشمنانِ اسلام پر کاری ضرب لگائیے اور امر بالمعروف او رنہی عن المنکر اور اعلائے کلمة الله کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *