تقسیم ہند کے مخالف مسلمان

چوہدری رحمت علی کا ہندوستان کی تقسیم سے متعلق مجوزہ خاکہ جو صرف خاکہ ہی رہ گیا: تصویر بشکریہ
چوہدری رحمت علی کا ہندوستان کی تقسیم سے متعلق مجوزہ خاکہ جو صرف خاکہ ہی رہ گیا: تصویر بشکریہ

تقسیم ہند کے مخالف مسلمان
عالم نقوی

یہ اسی ماہ ،مارچ ۲۰۲۰ میں شایع ہونے والی پروفیسر شمس الاسلام کی اُس مایہء ناز تحقیقی کتاب کا نام ہے جس میں وطن عزیز ہندستان کو بچانے کے لیے انگریز سامراج، ان کے حامی و مددگارہندوتو وادی ’ساورکر وں ۔گولوالکر وں‘ کے بے شمار بھکتوں کے علاوہ مسلم لیگیوں اور کانگریسیوں سے لوہا لینے والے حقیقی محب وطن مسلمانوں کی تاریخی وراثت کا جائزہ لیا گیا ہے ۔مصنف دہلی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد تھے لیکن وہ بھارت اور دنیا بھر میں ایک انسان دوست اور وطن دوست کالم نگاراور اسی میدان میں بنیادی تحقیقی کاموں کے لیے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔اصل کتاب انگریزی میں ہے ۔لیکن اسکے اردو اور ہندی تراجم بھی شایع ہو چکے ہیں۔تینوں زبانوں میں کتاب کے ناشر فاروس میڈیا کے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ہیں۔
جس کے لیے وہ بجا طور پر ہم سب کے از حد شکریے کے مستحق ہیں ۔جاوید عالم کا رواں دواں اردو ترجمہ اتنا فصیح و بلیغ ہے کہ وہ ترجمے کے بجائے نہایت شستہ و سلیس اردو تصنیف ہی معلوم ہوتا ہے ۔پروفیسر رام پنیانی کی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ ’شمس الاسلام کی یہ کتاب تقسیم ہند میں مسلمانوں کے کردار کے بارے میں، سنگھ پریوار کی چھیڑی ہوئی ، موجودہ بحث کے تعلق سے ایک بروقت مداخلت ہے جو اس فسطائی تصور کو مدلل تاریخی حقائق کی بنیاد پر مسترد کر دیتی ہے کہ تقسیم ہند کا سبب مسلمان تھے ۔یونیورسٹی آف لیسسٹر (برطانیہ) کے پروفیسر رچرڈ بونی کے لفظوں میں اپنے وقت کی دستاویزات پر مبنی یہ اہم مطالعہ بتاتا ہے کہ انیس سو چالیس بیالیس میں پاکستان بنانے کے مقابلے میں مسلمانوں میں ایک متحدہ ہندستان کی حمایت کہیں زیادہ پائی جاتی تھی۔ انگریز ،مسلم لیگ اور کانگریس تینوں کی مخالف آزاد متحدہ ہندستان کی حامی تنظیم ’آزاد مسلم کانفرنس‘ کے صدر سندھ کے سابق وزیر اعظم (کہ آزادی سے قبل ریاستوں کے وزراے اعلی ،وزیر اعظم ہی کہلاتے تھے ) اللہ بخش جیسے لوگوں کے کارناموں کو یاد رکھنے میں ہماری ناکامی نے ،جو نہ صرف دو قومی نظریے کے سخت مخالف تھے ، جس کے لیے انہوں نے اپنی جان بھی قربان کر دی ،دو قومی نظریے سے ہندوتوا کیمپ کی گہری وابستگی کی طرف سے توجہ ہٹانے میں مدد کی ہے ۔
پروفیسر رچرڈ نے جس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی شدت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہم جو پچھلے چالیس برس سے میدان صحافت کی خاک چھان رہے ہیں، ان مذکورہ بالا حقائق سے ابھی تک مطلق ناواقف تھے ۔مسلم لیگ اور اس کے لیڈر جناح سے کہیں زیادہ مقبول ’آزاد مسلم کانفرنس ‘ اور اس کے لیڈر اللہ بخش کے نام اور انجام سے اکہتر برس کی عمر میں ہماری واقفیت کا ذریعہ’تقسیم ہند کے مخالف مسلمان ‘ نام کی یہی زیر تبصرہ کتاب بنی ہے !
اگر تقسیم مخالف مسلمانوں کو ،جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد اور غاصب انگریز سامراج سے آزادی کے حصول کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ،پاکستان کی تاریخ سے باہر کر دیا گیا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ،بقول آنند پٹوردھن ،اس سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ انہیں ہندستان کی تاریخ سے بھی باہر کر دیا گیا ہے !یہ واضح طور پر ہماری تاریخ کا ایک گم شدہ باب ہے جسے پروفیسر شمس الاسلام نے اس کتاب کے ذریعے فراہم کر دیا ہے ،اور وہ بھی نہایت مدلل اور ناقابل انکار ثبوتوں اور انتہائی محتاط انداز میں کی گئی تحقیق کے ذریعے !
اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے پروفیسر اشتیاق احمد نے صد فی صد درست لکھا ہے کہ یہ کتاب ’ہندستان کی جد و جہد آزادی کی تاریخ میں سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے حقائق پر مشتمل ہے ۔ جس کی تائید شعبہ تاریخ ،جواہر لال نہرو یو نیورسٹی دہلی کے سابق صدر ،پروفیسرہر بنس مُکھیا نے بھی کی ہے ۔ کتاب کے بیش قیمت پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں کہ شمس الاسلام کی یہ انتہائی اہم کتاب ہمیں قطعیت کے ساتھ اس حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ آزادی سے قبل نہ تمام مسلمان اپنے لیے ایک علاحدہ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے نہ سارے ہندو ایک ایسے متحدہ بھارت کے خواہاں تھے جہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب برابر کے حقوق رکھتے ہوں ۔ حتی کہ مدن موہن مالویہ ، سردار پٹیل،راج گوپالا چاری اور لالہ لاجپت رائے جیسے متعدد بڑے کانگریسی لیڈروں کے خیالات ونظریات بھی ساورکر اور گولوالکر جیسے مہا سبھائیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے ۔شمس الاسلام نے اس تضاد کو سمجھا اورناقابل تردید تاریخی ثبوتوں کے ساتھ اس کتاب میں پیش کردیا ہے ۔اللہ بخش کی آزاد مسلم کانفرنس نے، جو ملک کی سالمیت اور اتحاد کو برقرار کے لیے پر عزم تھی،اس منافقت کو پوری شدت کے ساتھ چیلنج کیا اور کانگریس ،مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کی یکساں مخالفت مول لی ۔ مبینہ طور پر لیگ کے دہشت گردوں نے نوجوان محب وطن اللہ بخش کو قتل کر دیا اور کانگریس کے نام نہاد سیکولر اور جمہوری لیڈروں نے نہایت طاقتور ’آزادمسلم کانفرنس کی موجودگی کے باوجود مسلم لیگ کومسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کرنے کی کھلی منافقت کےذریعے انگریز سامراج اور اس کے مہا سبھائی غلاموں کو تقویت پہنچائی اور وطن عزیز کی مذہبی تقسیم کو تسلیم کر کے کروڑوں لوگوں کی در بدری اور قتل عام کے گناہ عظیم میں شرکت کے مجرم ٹھہرے۔ کانگریس کی اسی دوغلی پالیسیوں کے نتائج ہیں جومسلمانوں ،درج فہرست ذاتوں اور قبائل اور دیگر پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہندستان کی پچاسی فیصد اکثریت کو پندرہ فیصد منو وادیوں کے فسطائی مظالم کی شکل میں آج بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔
ہربنس مکھیا ہی کے لفظوں میں ’شمس ا لاسلام نے اس کتاب کے ذریعے تاریخ کے پوشیدہ حقائق کو ( جنہیں فی الواقع عوام سے جان بوجھ کر چھپایا جاتا رہا ہے ) سامنے لاکر دانشوری کی روایت اور معاشرے کی بلا شبہ ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ کتاب اعلی ٰ درجے کی تحقیق اور قابل تعریف انہماک کا خوبصورت شاہکار ہے ‘ گرچہ ہم اور ہمارے جیسے بہت سے قارئین، مصنف کتاب پروفیسر شمس الاسلام اور
پروفیسر ہربنس مکھیا کی ہر بات سے اتفاق نہیں کر سکتےلیکن ،ان کے بائیں بازو والے بعض مخصوص دین مخالف نظریات سے اختلاف سے قطع نظر کتاب اس لائق ہے کہ ہر محب وطن ہندستانی اسے ضرور پڑھے ۔تین سو نو صفحات او رتین سو پچاس روپئے قیمت کی یہ کتاب فاروس میڈیا،(رابطہ ۹۸۱۸۱۲۰۶۶۹)ڈی ۸۴ ۔ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر ،دہلی ۲۵ سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *