
اگر آپ کو خود پر رحم نہیں تو دوسروں پر ظلم نہ کریں
دانش ریاض،معیشت ممبئی
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا محمود دریابادی کی ایک تحریر گشت کررہی ہے کہ ’’ ممبئی میں ایک گھنی آبادی والے مسلم علاقے کے ایک مشہور عالم دین اور دینی کاموں میں سرگرم رہنی والی شخصیت کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیںا ور اسپتال میں داخل ہیں، ان کے پورے گھر والوں کو کورنٹائن میں رکھ دیا گیا ہے ـ دعا فرمائیں کے اللہ تعالی انھیں اور تمام مریضوں کو شفا عطافرمائے ـ اُس عالم کا نام اور علاقے کا نام دانستہ نہیں لکھا ہے، تاکہ دہشت نہ پھیلے ـ تاہم سب کو بتانا اس لئے ضروری سمجھاگیا کہ اب تک ہمارے لوگوں نے اس بیماری کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے، منع کرنے کے باوجود گلی محلوں میں لوگ جمع ہورہے ہیں،نکڑوں میں جھنڈ بناکر کھڑے ہوجاتے ـ ہیں ۔سوچئے اگر گھنے مسلم علاقوں میں خدانخواستہ یہ بیماری عام ہوگئی تو کیا وہاں قیامت صغری نہیں برپا ہوجائے گی اس لئےاے لوگو ! آپ سب کو اللہ کا واسطہ اپنے آپ پر اور دیگر مخلوق خدا پر رحم کرو ـ ہدایات پر عمل کرو، گھروں سے باہر مت نکلو، حکومت کو سختی پر مجبور مت کروـ، جان لو کہ اب مہاراشٹرا بھر میں کرفیو لگ چکا ہے۔ خبردار ہوجاؤ ! یہ جنتا کرفیو نہیں ہے. حقیقی کرفیو ہے۔‘‘
اس تحریر کو دیکھنے کے بعد سنگینی کا مزید علم ہوتا ہے۔ممبئی کا اکثریتی علاقہ مدنپورہ ،بھنڈی بازارہو یا تھانے کا اکثریتی علاقہ ممبرا و میرا روڈ ۔ گلی محلوں کی دکانیں ویسے ہی کھلی ہیں جیسے پہلے رہا کرتی تھیں اب جبکہ فرصت ہے تو بھیڑ مزید بڑھ گئی ہے۔تبلیغی جماعت کے احباب بھی گشت لگانے میں کوتاہی نہیں کررہے ہیں ۔یقیناً مسجدوں کو آباد کرنا انتہائی ضروری ہے اور جس طرح جنتا کرفیو کے نام پر شرکیہ افعال کی تلقین کی گئی تھی اس کی مخالفت بھی ضروری ہے لیکن فی الحال حفظان صحت انتہائی ضروری ہے۔
یقیناً اب تک مسجدوں کو اس لئے بند نہیں کیا گیا تھا کہ لوگوںکو کہیں کوئی منفی سگنل نہ جائے لیکن اب جبکہ حالات انتہائی خرابی کا پتہ دے رہے ہیں مسجدوں میں نہ صرف باہری لوگوں کی آمد پر پابندی لگائی جائے بلکہ موذن و امام کے ساتھ صرف مسجد کے عملے کو ہی مسجد میں عبادت کے لئے مختص کیا جائے۔ بقیہ لوگوں کو سختی کے ساتھ کہا جائے کہ وہ گھروں میں میں ہی عبادت کا اہتمام کریں۔یاد رکھیںجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصافحہ کرناسنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، بلکہ یہاں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔(صحیح مسلم: 2231) گویا ایسے موقعے پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو،جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو، (بخاری: 5707)گویا ایسے موقعے پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،سرکار کا فرمان ہے، اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔ (ترمذی: 2517)گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔جو لوگ کہتے ہیں، کچھ ہو گیا تو ہمیں پھانسی دے دیں، ہمارا ایمان قوی ہے، وہ غلط کہتے ہیں،کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔
دوستو! تمام مسالک و مشارب کے لوگوں نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ گھروں میں رہیں ،گھروں میں عبادت کریں۔اسے پکنک کے طور پر چھٹی کا ماحول نہ سمجھیں بلکہ حالات کی درستگی کے لئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اس طرف توجہ دیں۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین ـ