Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کورونا وائرس کا شکار مریضوں میں ہلاکت کی شرح ؟

by | Mar 24, 2020

Mortality Rate in Corona Virus Patients

محققین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کا شکار ہونے والے ایک ہزار مریضوں میں سے مرنے والوں کی تعداد پانچ سے 40 کے درمیان ہے لیکن زیادہ درست اندازہ یہ ہے کہ یہ تعداد ایک ہزار میں نو ہے جو کہ لگ بھگ ایک فیصد بنتی ہے ۔

برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہینکاک نے اتوار کو کہا تھا کہ برطانوی حکومت کا بہترین اندازہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی شرح دو فیصد یا اس سے بھی کم ہے ۔ لیکن اس کا دار و مدار بہت سے دوسرے عناصر پر بھی ہے جس میں مریض کی عمر ، اس کی عمومی صحت اور اس کو دستیاب صحت کی سہولیات شامل ہیں ۔

مرنے والوں کی شرح کا اندازہ کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا پی ایچ ڈی کرنا ۔ مریضوں کی گنتی کرنا بھی بہت پیچیدہ عمل ہے ۔ زیادہ تر اقسام کے وائرس کا شکار لوگ، جن میں معتدل نوعیت کی علامات ہوتی ہیں، عام طور پر ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے اور اس طرح وہ کسی شمار میں ہی نہیں آتے۔

مختلف ملکوں میں مرنے والوں کی شرح جو رپورٹ کر جا رہی ہیں اور ہمارے علم میں آرہی ہیں وہ مختلف ہونے کی بڑی وجہ وائرس کی مختلف اقسام نہیں ہو سکتیں ۔ برطانیہ میں امپیریل کالج کے تحقیق کاروں کے مطابق اس کی وجہ مختلف ملکوں میں معتدل اور سنگین نوعیت کے کیسز کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھا کرنے کی صلاحیت کا یکساں نہ ہونا ہے ۔

لہذا مریضوں کی اصل تعداد کا علم نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کی شرح زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔ کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد مریض کے صحت یاب ہونے یا اس کی موت واقع ہونے میں وقت لگتا ہے ۔ اگر آپ ان تمام مریضوں کا شمار کر لیں جو وائرس کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہونے یا اس سے ہلاک ہونے کے عمل سے گزر رہے ہیں تو اموات کی شرح کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کیوں کہ آپ کو علم نہیں کہ کتنے مریض صحتیاب ہوں گے اور کتنے اس سے جانبر نہیں ہو سکیں گے ۔

طبی ماہرین ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے انفرادی کیسوں کے بارے میں دستیاب شواہد کا سہارا لے رہیں ہیں تاکہ اموات کی شرح کا مکمل خاکہ تیار کیا جا سکے ۔ مثال کے طور پر لوگوں کے ایک مخصوص گروپ، جس کی کڑی نگرانی کی گئی ہو جیسا کہ فضائی مسافروں کی جاتی ہے، میں مریضوں کی شرح کا تعین کیا جائے ۔

اس طرح حاصل کیے گئے نتائج جو مختلف شواہد سے اخذ کیے جاتے ہیں ان کی بنیاد پر ایک وسیع خاکہ تشکیل کرنا ۔ اگر آپ صرف چین کے شہر ہوبائی کے اعداد و شمار دیکھیں جہاں اموات کی شرح چین کے دوسرے علاقوں سے سب سے زیادہ تھی تو مجموعی طور پر اموات کی شرح اور زیادہ تشویش ناک نظر آئے گی ۔

لہذا سائنس دان ایک اندازہ ہی لگاتے ہیں ۔ لیکن اس سے اموات کے بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے نہیں آتی ۔

کچھ لوگوں کا اس وبا کا شکار ہونے کے بعد مرنے کا زیادہ امکان ہو سکتا ہے مثلاً عمر رسیدہ افراد، غیر صحت مند افراد اور شاید مرد ۔ چین میں 44 ہزار مریضوں پر کیے جانے والے اب تک کے سب سے بڑے سروے میں عمر رسید افراد میں اموات کی شرح درمیانی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تھی ۔

اموات کی شرح 30 سال سے کم عمر افراد میں سب سے کم تھی ۔ 30 سال سے کم عمر 45 سو مریضوں میں سے صرف آٹھ افراد کی موت واقع ہوئی ۔ ذیابیطس، بلند فشار خون اور امراض دل میں مبتلا افراد میں مرنے والوں کی شرح عام لوگوں کے مقابلے میں پانچ گنا ذیادہ پائی گئی ۔ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے کی شرح نسبتاً زیادہ ہے ۔

ان تمام عناصر کا ایک دوسرے پر انحصار ہے جس کی وجہ سے حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کون اور کس علاقے کے لوگوں کو زیادہ خطرہ ہے ۔ چین میں 80 برس سے زیادہ عمر کے لوگوں میں خطرے کی نوعیت اسی عمر کے یورپ اور افریقہ میں بسنے والے لوگوں سے مختلف ہو گی ۔ آپ کے مرض کی شدت اور اس کے ٹھیک کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آپ کو کسی طرح کا علاج میسر آتا ہے ۔ جس کا پھر دار ومدار اس بات پر ہے کہ کیا دستیاب ہے اور وبا کی نوعیت کتنی سنگین ہے ۔

اگر وبا بہت سنگیں ہو جائے تو ہسپتالوں میں مریضوں کا رش ہو جائے گا جس کی وجہ سے وہاں موجود انتہائی نگہداشت کے وارڈ اور ’وینٹیلیٹر‘ کم پڑ سکتے ہیں ۔ ہم اس کا موزانہ نہیں کر سکتے کیوں کہ اکثر نزلے زکام کا شکار لوگ ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے ۔ لہذا ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ہر سال نزلے اور زکام کا شکار کتنے لوگ ہوتے اور کتنے کسی اور وائرس کی لپیٹ میں آتے ہیں ۔

برطانیہ میں ہر موسم سرما کی طرح نزلہ اور زکام لوگوں کی اموات کا باعث بن رہا ہے ۔ جب زیادہ درست اعداد و شمار دستیاب ہو جائیں گے تو ماہرین یہ پیش گوئی کرنے کے قابل ہو جائیں گے کہ اگر برطانیہ میں یہ وبا شدت اختیار کر لیتی ہے تو آپ کی زندگی کو کتنا خطرہ ہے ۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے عمومی ہدایت یہ ہی ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو ایسے جراثیم سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جو نظام تنفس کی بیماری کا باعث بنتے ہیں تو آپ ہاتھ دھونے کی عادت اپنا لیں ، چھینکوں اور کھانسی کا شکار لوگوں سے دور رہیں اور اپنی آنکھوں ، ناک اور منھ میں انگلیاں ڈالنے سے پرہیز کریں ۔

 

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...