جی ہاں!نریند ر مودی کے پاس بھارتیوں کے لئے کوئی پلان نہیں ہے

 وزیر اعظم نریندر مودی
وزیر اعظم نریندر مودی

دانش ریاض، معیشت ،ممبئی

۲۲مارچ کو جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے تالی اور تھالی پیٹنے کے ساتھ جنتا کرفیو کو کامیاب بنانے کی بات کہی تھی اسی روز میں نے ایک چھوٹا سا پوسٹ اپنے ہم خیال لوگوںمیں سرکولیٹ کیا تھا اور گذارش کی تھی کہ اگراب تک آپ قریبی مسجد میں نماز ادا نہ کررہے ہوں تو کم از کم آج ظہر عصر اور مغرب و عشاء کی نماز ضرور قریبی مسجد میں اداکریں تاکہ تالی و تھالی کا جواب دیاجاسکے ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ نریندر مودی کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے بھی اسی سنگھی کی طرح سوچ رہے ہیں جس طرح ایک سنگھی ہر معاملے میں ناگپور کی طرف دیکھتا ہے۔
ملک میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سنجیدہ اقدام کے بجائے کسی عالمی ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ذریعہ جس طرح کچھ خاص خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ویسے ہی وبائی مرض کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے بھی خاص لوگوں کے لئےہی اصول بنائے جارہے ہیں۔حکومت بھارتیوں کے لئے سنجیدہ کیوں نہیں ہے اس کی ایک مثال تو یہی ہے کہ جس روز ملکی پیمانے پر لاک ڈائون کیا گیا اس روز بھی ہوائی سروسیز جاری رکھی گئیں جبکہ دوسرے ذارئع نقل و حمل پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
یہ بات ہم تمام جانتے ہیں کہ وبائی مرض دوسرے ملکوں کا سفر طے کرتا ہوا ہمارے ملک میں آیا ہے۔یعنی انٹر نیشنل مسافروں نے ہی اس کو ہندوستان تک پہنچایا ہے۔جب چین کے شہروہان کی خبریں ملکی میڈیا پر شہ سرخیاں بٹور رہی تھیں تو سنگھ پریوار کے ساتھ چین سے نفرت کرنے والے خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے۔حکومت اٹلی میں ہورہی مہاماری سے بھی پریشان نہیں تھی بلکہ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا جشن منا رہی تھی۔لیکن جب ٹرمپ خود کرونا وائرس متاثرہ مریض سے ملنے والوں میں شامل ہوگئے اور امریکی میڈیا میں اس پر بحث شروع ہوگئی تو ٹرمپ کی دوستی کے حوالے سے ہی شاید نریندر مودی کو بھی خیال گذرا کہ کیوں نہ ملک میں بھی اس کا جائزہ لے لیا جائے۔لیکن اس وقت تک نریندر مودی اور ہندوستان کا قریبی حلیف اسرائیل بھی بری طرح متاثر ہوچکا تھااور گوبر و گو متر کسی طرح بھی کام میں نہیں آرہے تھے۔شاید یہی وہ صورتحال تھی جب جنتا کرفیو کے ذریعہ تالی و تھالی بجوائی گئی تاکہ عقل پر پردہ پڑے بھارتیوں پر مزید دبیز چادر اوڑھا دی جائے۔لیکن انٹر نیشنل مسافروں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے یا داخل ہوچکے لوگوں کا جائزہ لینے کی کوئی کوشش نہیں گئی جس کے بیشتر ثبوت سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔
یقیناً اگر سب سے پہلے ایئر پورٹس پر پابندی عائد کردی جاتی اور انٹر نیشنل کے ساتھ ڈومیسٹک فلائٹس بھی بند کردی جاتیں تو لوگوں کو سنگینی کا اندازہ ہوتا۔لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ مکمل لاک ڈائوں سے قبل کی جو فلائٹیں بھری گئی ہیں وہ انتہائی مہنگی اور مسافروں کو لوٹنے کے لئے ہی کہی جا سکتی ہیں۔شیو سینا کے لیڈر ممبر پارلیمنٹ سنجے رائوت نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ وزیر اعظم نے اسے’’ فیسٹیول‘‘ بنا دیا لہذا سنجیدہ لوگ بھی اسے کوئی ’’خاص ایونٹ ‘‘سمجھنے لگے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہر موقع کو ایونٹ میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتی ہے ۔موقع بے موقع جشن منانے میں اس پارٹی کی مثال کسی اورپارٹی سے نہیں دی جاسکتی لیکن اس وقت جب کہ ہر بھارتیہ ڈرا ہوا ہے اور وائرس کے خوف میں مبتلا ہے ،بھارتیوں کے خوف کا جشن منانا کہاں تک درست ہے؟
۲۱ روزہ طویل لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم اسی موڈ میں دکھے جس طرح وہ نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے دکھے تھے ۔یہ بات ہر بھارتیہ کو معلوم ہے کہ نوٹ بندی کے دوران سو سے زیادہ لوگوں کی جانیں محض اس لئے چلی گئی تھیں کہ ان کی جمع پونجی ان کو نہیں مل رہی تھی اور اس موقع کا راست فائدہ ریلائنس نے کیسے اٹھایا تھا یہ بھی زبان زد عام ہے۔اب جبکہ طویل مدتی لاک ڈائون ہے کیا حکومت ان غریبوں کے لئے کچھ کرے گی جو روزانہ مزدوری کیا کرتے تھے؟
وہاٹس ایپ یونیورسٹی پر یہ خبر گشت کررہی ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ والوں کے گھر پر راشن پہنچانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ممکن ہے ریلائنس نے ان تمام گھر والوں تک راشن پہنچانے کا بیڑا اٹھا لیا ہو لیکن کیا تمام بھارتیوں کو اس سے محروم رکھنا ظلم و نا انصافی نہیں ہے۔ممکن ہے اس خبر میں کوئی صداقت نہ ہو لیکن یہ جان رکھیں کہ دراصل گجراتی نریندر مودی اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے ان گجراتیوں کو تو مستفید کرنا چاہتے ہیںجو ان کے تاج کو بچائے رکھنے میں ان کاساتھ دے رہے ہیں لیکن اس عوام کو بھول جانا چاہتے ہیں جو ان کے اشارے پر تالی اور تھالی بجانے کے لئے آمادہ نظر آتی ہے۔
اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہوتی تو ان لوگوں کا خیال کرتی جو سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔بینکوں اور کارپوریٹ کمپنیوں کو یہ حکم صادر کرتی کہ وہ تمام ای ایم آئی یا شرح سود اس وقت تک معطل قرار پائیں گے جب تک کہ حالات میں سدھار نہ ہوجائے۔ ٹیلی کمیونی کیشن کی کمپنیوں کو کہتی کہ اپنے صارفین کو اس وقت تک مہلت دیں جب تک کہ حالات بہتر نہ ہوجائیں۔جس طرح کارپوریٹ کمپنیوں سے فیس وصولنے میں تانا شاہی کا استعمال کرتی ہے اسی طرح انہیں اس بات پر آمادہ کرتی کہ وہ سی ایس آر فنڈ کا فوری استعمال ان لوگوں کے لئے کریں جو غربت کی مار جھیلتے ہوئے موت کے دہانے پر آکھڑے ہوئے ہیں۔آخر فارماسیٹیکل کمپنی سپلا کے چیرمین عبد الحمید یا وپرو کے چیرمین عظیم پریم جی نے جس طرح عام ہندوستانیوں کو مستفید کرنے کے لئے عمومی اعلان کیا ہےکیا نریندر مودی کے دست راست مکیش امبانی اور اڈانی اس طرح کی عوامی اسکیم کا اعلان نہیں کرسکتے تھے؟
دراصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس بھارتیوں کے لئے کوئی پلان نہیں ہے۔وہ ان لوگوں کے ہی رہین منت ہیں جنہوں نے انہیں مسند اقتدار تک پہنچایا ہے لہذا اب عوام کو چاہئے کہ انسانیت باقی کیسے بچی رہے اس کی تدبیر کریں اور ملک کو کسی نئے ایونٹ سے بچائیں کہ نقصان صرف کسی سماج کا نہیں پوری انسانیت کا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *