ممتاز میر
اللہ تعالیٰ سورہء بقرہ میں فرماتا ہے۔یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہونگے جب تک کے تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔صاف کہہ دو کہ راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگر اس علم کے بعد جو تمھارے پاس آچکا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تواللہ کی پکڑ سے کوئی بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تم نہ پائوگے۔اس پوری آیت میں اللہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم اپنے مخالفین کی خوشنودی کے لئے چاہے جو کرلیں یہ اس وقت تک ہم سے خوش نہیں ہو سکتے جب تک ہم ان کی راہ اختیار نہ کرلیں مگر پھر تمہیں اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
۲۰۱۰ میں انگریزی زبان میں ایک لفظ کا اضافہ ہوا ۔Presstitutes اس کے معنی ہیں مین اسٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والا وہ فرد جو کسی مالی منفعت یا کسی نقصان کے خوف یا کسی قسم کے دباؤ سے کسی خبر کواس طرح پیش کرے کہ اس کے فوائد کسی خاص گروپ یا حکومت کو حاصل ہو سکیں ۔ Presstitutes اصل خبر کو عوام سے چھپاتے ہیں اور اس کی جگہ اصل جیسی محسوس ہونے والی غلط معلومات کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس لفظ کا خالق ایک امریکی مصنف جیرالڈ سیلینٹ تھا ۔اس کے معنی کم و بیش تمام ڈکشنریوں میں یکساں ہیں ظاہر ہے کہ یہ Phenomena ۲۰۱۰ کے بہت پہلے سے چل رہا ہوگا تبھی تو اس لفظ کو گھڑنے کی ضرورت پڑی ۔۹؍۱۱ کو قریب دودہائیاں گزر چکی ہیں مگر اب بھی میڈیا ٹریڈ ٹاورس کے انہدام کے تعلق سے نئی نئی تھیوریوں کو سامنے لاتا رہتا ہے اور دنیا کو یہ احساس ہی ہی نہیں کہ اس امریکی کہانی کو بغیر چوں و چرا کے مان لینے کی وجہ سے کئی ممالک تباہ ہوگئے۔عراق پر ہونے والے تمام حملوں میں انہی طوائفوں کی کارستانیاں رہی ہیں۔اسامہ بن لادن کو انہی میڈیائی طوائفوں نے مجاہد سے دہشت گرد بنا دیا تھا ۔اب کچھ مہینوں سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے اور دنیا کی حالت پھر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ میڈیا میں’مرد‘ نہیں ہیں !ہیں،مگر اتنے کم کہ نقار خانے میں ان کی آواز طوطی سے بھی کم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کم و بیش سبھی کواہم چینلوں سے ہٹا دیا گیا ہے ۔اب آپ خود ہی سوچئے کہ مین اسٹریم میڈیا میں بچے لوگ پھر کون ہونگے؟بچہ بھی کہے گا کہ، چمچے۔بہر حال یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ ’مرد ‘ عموماً غیر مسلم ہیں۔جبکہ سارے بڑے مسلم صحافی Presstitutes ہی ثابت ہو رہے ہیں۔مثال کے طور پر انگریزی کے مسلم صحافی وجیہ الدین کو لے لیجئے جنھوں نے تبلیغی جماعت کو مطعون کر کے لبرل اور سیکولر ہونے کا تاج اپنے سر پہ سجایا ہے ۔سچ یہ ہے کہ وہ برسوں سے مستند سیکولر لبرل اور اسلام مخالف صحافی ہیں ۔آج انھوں نے کرونا کا فائدہ اٹھاکر تبلیغی جماعت جیسی اللہ میاں کی گائے یا خود ان کے الفاظ میں آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے کی باتیں کرنے والی جماعت کو نشانہ بنایا ہے ۔مگراس سے پہلے بھی وہ مسلمانوں کی دوسری جماعتوں کو نشانہ بنا تے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟اور وہ اس ذہنیت میں اکیلے نہیں ہیں۔واٹس ایپ گروپ میں ہم نے بڑے بڑے طرم خانوں کو غیر مسلم صحافیوں سے معذرت خواہانہ باتیں کرتے دیکھا ہے ۔یہاں تک کے ان کے دباؤ میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی آجاتے ہیں ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ امیر جماعت تو تبلیغی جماعت کے ساتھ کھیلی جانے والی سیاست کی مذمت کر رہے ہیں مگر مذکورہ واٹس گروپ میں شامل جماعت کے ’مرد میداں‘ چپی سادھے ہوئے ہیں۔ہم نے قریب ۴ ماہ قبل امیر جماعت کو لکھا تھا آپ کے میڈیا کے ذمہ داران ایسے ہونے چاہئے جو غیر مسلم صحافیوںاور دانشوروں کے ہر سوال کا ڈٹ کر جواب دے سکیں۔معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کا مطلب یہ کہ آپ غیر مسلموں کو اپنی بات کما حقہ سمجھا نہیں سکتے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کوئی ہر بات سمجھ ہی جائے ۔ضروری یہ ہے کہ اسلام کا موقف دفاعی نہیں اقدامی انداز میں یا ویسا جیسا کہ وہ ہے پیش کرنا چاہئے ۔ممکن ہے کہ آپ کا دفاعی انداز اسے اسلام سے برگشتہ کردے۔بہرحال امیر جماعت کے کان پر جوں نہ رینگی۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ ایسے ڈرپوک کارکنان کو میدان سے ہٹا لیتے۔
اہل ایمان اور غیر اہل ایمان میں کیا جوہری فرق ہے اس کا شعور غیر مسلم تو کیا مسلمان بھی نہیں جانتے ۔غیر مسلموں کا تاثر یہ ہے کہ جس طرح ہم انسان ہیں وہ بھی انسان ہیں ۔اور ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم انھیں یہ سمجھا نہیں پاتے کہ ایک خدا پر ایمان رکھنے کا مطلب کیا ؟اور اس کے فوائد کیا ہیں ؟ ہم انھیں یہ کہتے ڈرتے ہیں کہ اللہ نے ہماری جانیں جنت کے بدلے خرید لی ہیں ۔ہم اپنی جانوں پر ویسا اختیار نہیں رکھتے جیسا کہ تم رکھتے ہو ۔ ہم انھیں یہ سمجھا نہیں سکتے کہ قرآن میں جو کچھ لکھا ہے اگر اس پر عمل کرنے میں ہماری جان چلی گئی تو یہ بڑے نفع کا سودا ہے یہی وجہ کہ مسلمان نہ کرونا سے ڈر رہا ہے نہ اپنے غیر مسلم بھائی کی چتا جلانے کو ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنی جان مال عزت آبروانا خودداری کو طاق پر رکھ کر قرآنی احکامات کی بجا آوری کو ترجیح دیتا ہے۔اسی لئے مسلمانوں کو عموماً ایسی موت کا خوف نہیں ہوتا جیسا کہ دوسروں کو ہوتا ہے ۔ہم جانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ موت جس وقت ،جس طرح اور جس جگہ آنی ہے وہ ٹل نہیں سکتی ۔اور یہی وجہ ہے کہ کرونا کا خوف جس طرح اوروں پر چھایا ہے مسلمانوں پر نہیں ۔ہمارے بہت سارے تاجر ساتھی جو غیر مسلم ہیں کہتے ہیں کہ کرونا بہت خوفناک چیز مگر تم لوگ ڈرتے نہیں ۔آخر کیوں؟ہمیں یہ ان کو سمجھاناچاہئے کہ ہم کیوں نہیں ڈرتے ؟ مگر ہمارے دگج صحافی اور دانشور خود میں اتنی ہمت نہیں پاتے اس لئے وہ مسلمانوں کو مطعون کرتے ہیں ۔ چلئے کوئی بات نہیں ،مگر یہ توکیا جا سکتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو گالیاں دی جا رہی ہیں ،وہاں برادران وطن کی چتائیں جلانے کے لئے تعریف تو کی جا سکتی ہے ۔مگر بزدلوں کے بس میں یہ بھی نہیں ہوتا ۔واٹس ایپ گروپس میںایک بات اور دیکھنے کو ملتی ہے کہ جہاں اکثر مسلمان دفاعی رویہ اپناتے ہیں وہیں ایک دو کسی حال ڈرنے دبنے والے نہیں ہوتے ۔یہ رویہ جہاں غیر مسلموں کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرتا ہے وہیں بزدل ڈرپوک مسلمانوں کو بھی غصہ دلاتا ہے ۔
بخاری شریف میں دو طویل قصے ہیں جو بالکل واضح طور پر بتا تے ہیں کہ حضور ﷺ نے شاتمین رسول کو فرمائش کر کے قتل کروایا تھا ۔مگر بزدل عقل پرستوں نے مضامین ہی نہیں کتابیں لکھ رکھی ہیں کہ شاتم رسول کی سزا موت نہیں۔وجہ خود اپنا خوف اور دنیا کا خوف ہے ۔وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بزدل اور ڈرپوک ہیں،پھر عقل سو دلائل گھڑ لیتی ہے۔مگر عشق ، عشق شاتم رسول کو آن دی اسپاٹ قتل کر دیتاہے۔وکیل کہتا ہے تم قتل سے انکار کردو۔عشق کہتا ہے اس سعادت سے کیسے انکار کر دوں۔آگے بڑھ کر عشق دلائل کے وقت وکیل سے کہلواتا ہے کہ جج صاحب مجرم کی جگہ میں بھی ہوتا تو وہی کرتا ،یہ عشق ہے۔کچھ عقل پرستوں کا خیال ہے کہ اسلام کو دفاعی انداز میں یا امن شانتی کا مذہب بنا کر پیش کیا جانا چاہئے ۔اقدامی اسلام غیر مسلموں کو اسلام سے دور کردے گا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ مشرکین اسلام میں فوج در فوج کب داخل ہوئے تھے ۔ابھی ۸؍۱۰ سال پہلے کی رپورٹیں ہیں مغرب کے نوجوان اسلام قبول کرتے ہی عازم جہاد ہوجاتے تھے۔اس سے بھی آگے بڑھ کراللہ تعالیٰ خود قرآن میں کہتا ہے کہ اس قرآن کو پڑھنے والا اس سے ہدایت بھی پائے اور گمراہ بھی ہوگا ۔یعنی تم جہادی اسلام پیش کرو یا امن و شانتی والا جسے گمراہ ہونا ہوگا آپ اسے روک نہیں سکتے ۔
اسلئے ہم ہمیشہ برادران وطن سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو سمجھنا ہے تو پہلے ہر قسم کے تعصب سے اپنے دل و دماغ کو خالی کریںاور پھر قرآن کا گہرا مطالعہ کریں ۔اس کے بغیر آپ مسلمانوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔
مضمون نگار آزادانہ اور بیباک رائے رکھتے ہیں ان اس نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے 7697376137

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...